بلوچستان ، کتنا دور ہے؟

روشن لعل
بلوچستان ، پاکستان کے دیگر تین صوبوں سے ابھی اتنا دور نہیں ہوا، جتنا دور کبھی مرحوم مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا ، لیکن بعض لوگوں کو عرصہ دراز سے یہ صوبہ اسی سمت میں فاصلے بڑھاتا نظر آرہا ہے جس سمت میں آگے بڑھتے ہوئے ہمارا مشرقی بازو ، ہمیشہ کے لیے نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ یاد رہے کہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کا اسلام آباد سے میلوں میں فاصلہ اب بھی اتنا ہی ہے جو1960کی دہائی میں وفاقی دارالحکومت کے قیام کے وقت طے ہوا تھا ۔ میلوں میں فاصلہ تو اب بھی وہی ہے مگر محسوس یہ ہونے لگا ہے کہ بلوچستان میں بسنے والے لوگوں کے دل ملک کے دیگر حصوں میں بسنے والے لوگوں سے بہت دور چلے گئے ہیں۔
بلوچستان میں بسنے والے لوگوں کے دل دیگر ہم وطنوں سے کتنی دور ہو چکے ہیں اس کا اندازہ 26اگست ( اکبر بگٹی کی شہادت کا دن) کو بلوچستان میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے مختلف واقعات سے لگایا جاسکتا ہے ۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں مجموعی طور پر 74لوگ مارے گئے۔ 26اگست کو دہشت گردی کا سب سے اندوہناک واقعہ موسیٰ خیل میں رونما ہوا جہاں بین الصوبائی شاہراہ پر رکاوٹیں کھڑی کر کے گاڑیوں کو روکا گیا اور ان گاڑیوں میں سے خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے 23لوگوں کو چن چن کر باہر نکالنے کے بعد بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ بلوچستان میں مسلح بغاوت کا رجحان اور اس رجحان کو دبانے کے لیے کیے گئے سیکیورٹی فورسز کے بے رحم آپریشنوں کی تاریخ اس ملک کی تاریخ جتنی ہی پرانی ہے۔ سال 2006میں رونما ہونیوالے اکبر بگٹی کی شہادت کے واقعہ سے قبل بلوچستان میں باغی اور سیکیورٹی فورسز ، صرف ایک دوسرے کو نشانہ بناتے رہے۔ بلوچستان میں بیرونی علاقوں سے جا کر بسنے والے عام شہریوں کا تعلق چاہے ملک کے جس بھی صوبے سے تھا ، اس عرصہ میں باغیوں نے انہیں کوئی قابل ذکر نقصان نہ پہنچایا۔ اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان میں بسنے والے غیر مقامی لوگوں اور دیگر صوبوں سے وہاں روزگار کے سلسلے میں جانے والوں کے لیے حالات یکسر تبدیل ہو گئے۔ مستند اعدادوشمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اکبر بگتی کے قتل کے بعد بلوچستان میں قوم پرستی کے نام پر غیر مقامی لوگوں کو قتل کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا اس میں مئی 2019تک 229لوگوں کو شناخت کے بعد قتل کیا گیا۔ غیر مقامی ہونے کی بنا پر قتل کیے گئے ان 229لوگوں میں سے 178کو صوبہ پنجاب کا شناختی کارڈ رکھنے پر قتل کیا گیا۔
بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو گاڑیوں سے باہر نکال کر قتل کرنے کا جو حالیہ واقعہ موسیٰ خیل میں رونما ہوا اس طرح کے واقعات قبل ازیں خاران، تربت، گوادر ، قلات، نوشکی، اورماڑہ اور پنجگور وغیرہ میں بھی رونما ہو چکے ہیں۔ موسیٰ خیل واقعہ سے قبل ، ٹارگٹ کلنگ کے اس طرح کے واقعات جن علاقوں میں بھی رونما ہوئے وہاں کی اکثریتی آبادی کا تعلق بلوچی یا براہوی زبانیں بولنے والوں سے ہے۔ اس طرح کے واقعات جہاں بھی رونما ہوں ان کے متعلق عام خیال یہ ہوتا، کچھ مقامی لوگوں کی سہولت کاری کے بغیر اس طرح کی دہشت گردی کا رونما ہونا ممکن نہیں ہوسکتا۔ بلوچ لبریشن آرمی جیسی تنظیم کو بلوچ اکثریتی علاقوں سے چند سہولت کار دستیاب ہونا زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے لیکن موسیٰ خیل میں ہونے والی دہشت گردی اس حوالے سے زیادہ تشویشناک سمجھی جانی چاہیے کہ بلوچستان کے اس ضلع میں تقریباً86 فیصد پشتون اور صرف 12فیصد بلوچ رہتے ہیں۔ پشتون اکثریتی آبادی کے علاقے میں بھی اگر بلوچ لبریشن آرمی کو سہولت کار دستیاب ہو چکے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قبل ازیں اگر غیر مقامی لوگوں کے لیے بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقے غیر محفوظ سمجھے جاتے تھے تو اب پشتون اکثریتی علاقے بھی محفوظ نہیں رہے۔
اگر غیر مقامی لوگوں ( خاص طور پر پنجابیوں ) کے لیے بلوچ اکثریتی علاقوں کے بعد بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقے بھی غیر محفوظ ہو چکے ہیں تو یہ امر ہمارے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوال ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے ہماری سیکیورٹی فورسز کے کئی نوجوانوں کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے ہر قیمت پر ملک کی وحدت قائم رکھنے اور تحفظ کے لیے تیار ہیں، لیکن اس معاملے جذبے کی ستائش کے ساتھ انتظامی کمزوریوں پر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ 26اگست کو دہشت گردوں کے ہاتھوں بولان ریلوے پل کی تباہی کے بعد دھیان اس طرف چلا جاتا ہے کہ جس پل کی تباہی سے بلوچستان کا ملک کے دیگر حصوں سے ریل کا رابطہ مکمل ختم ہوگیا اس پل کی اہمیت کو مد نظر رکھ کر اگر اس کی حفاظت کا انتظام کیا گیا ہوتا تو دہشت کبھی اسے آسان شکار سمجھ کر تباہ نہ کر پاتے۔
بلوچستان میں علیحدگی پسند دہشت گردوں کی پے در پے وارداتیں اگرچہ ہمارے سیکیورٹی اداروں کی انتظامی صلاحیتوں پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان دہشت گردوں نے ملک کی باقاعدہ فوج سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ یہ علیحدگی پسند دہشت گرد بخوبی جانتے ہیں کہ کھلی جنگ میں ملک کے سیکیورٹی اداروں کا مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے اس لیے وہ پاکستان کے بیرون بلوچستان تمام علاقوں کے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں کہ تاکہ ان کی کارروائیاں کی وجہ سے بلوچوں اور غیر بلوچوں کے درمیان نفرت میں اس حد تک اضافہ ہو جائے کہ بیرونی علاقوں میں بسنے والے بلوچوں کی لاشیں اسی طرح بلوچستان میں جانا شروع ہو جائیں جس طرح وہ اپنے علاقوں سے دیگر صوبوں میں لاشیں بھیجتے ہیں۔ گو کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی اس طرح کی کوششیں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں لیکن افسوس کہ کچھ مٹھی پر پنجابی قوم پرستوں نے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی سازشوں کا کامیاب بنانے کے لیے ان ہی کی طرح نفرتوں میں اضافہ کرنے اور انتشار پھیلانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔
موسیٰ خیل واقعہ کے بعد جس قسم کی نعرے بازی کچھ پنجابی قوم پرست کر رہے ہیں، اس سے ان پنجابیوں کے معاشی مسائل کسی طرح بھی حل نہیں ہونگے جو اپنے بچوں کی دو وقت کی روٹی کے لیے، اپنی جان خطرے میں ڈال کر ، مزدوری کی غرض سے بلوچستان جانے پر مجبور ہیں ۔ غریب پنجابی مزدوروں کو بے رحمی سے مارنے والوں سے نفرت کرنے اور ان کے خلاف بے رحم آپریشن کا ہر جواز موجود ہے لیکن عام بلوچ ، چاہے کسی بھی دوسرے صوبے یا پھر بلوچستان میں ہی کیوں نہ موجود ہو ، اس سے نفرت اور اسے حیات بلوچ کی طرح قتل کرنے یا پھر اس کی جبری گمشدگی کو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں سمجھا جاسکتا ۔ اگر علیحدگی پسندوں کا صفایا کرنے کی بجائے ماضی کی طرح عام بلوچوں کے انسانی و معاشی حقوق سلب کر کے انہیں کو نشانہ بنایا جاتا رہا تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسلام آباد اور بلوچستان کے درمیان فاصلہ میلوں کی بجائے بلوچوں اور غیر بلوچوں کے دلوں میں پیدا کر دی گئی دوری کو دیکھ کر پیمائش کیا جانے لگے۔