اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے

صفدر علی حیدری
رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں حالیہ دنوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں کے بعد وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے گزشتہ روز کوئٹہ میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس کی سربراہی کی۔ اس اعلیٰ سطح کے اجلاس میں بلوچستان کی صورت حال کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے ۔
بدھ کو وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ حکومت نے صوبے میں نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے ہیں ۔ ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ کے تحت طلبہ میں سکالر شپ کے چیک تقسیم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت آئندہ 16سال تک طلبہ کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ 30ہزار ہنر مند نوجوانوں کو روزگار کے لیے بیرون ملک بھیجا جائے گا تاکہ ان کے خاندانوں کے معاشی امکانات میں اضافہ کیا جا سکے ۔ حکومت بے روزگار نوجوانوں کو خود کفیل بنانے کے لئے اخوت پروگرام کے تحت قرضے فراہم کرے گی ۔ حکومت صوبے میں اقلیتوں کی ترقی کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہے ۔
اطلاعات یہ ہیں کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں 25اگست سے شدت پسندوں کے متعدد حملوں اور ان کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں اب تک 73افراد جان سے جا چکے ہیں، جن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار ، عام شہری اور شدت پسند شامل ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے پیر کی رات جاری کیے جانے والے بیان مطابق موسیٰ خیل میں شدت پسندوں کے خلاف جوابی کارروائی کے دوران 14سکیورٹی اہلکار جان سے گئے جبکہ 21شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ۔ اس سے قبل موسیٰ خیل، قلات، ریلوے لائنوں اور دیگر مقامات پر کیے جانے والے شدت پسندوں کے متعدد حملوں میں 38افراد جان سے جا چکے ہیں جن میں سے 23افراد کو بس سے اتار کر ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔
بلوچستان کے سابق آئی جی عبدالخالق شیخ کی خدمات وفاق کو واپس دے دی گئی ہیں جبکہ ان کی جگہ نئے آئی جی بلوچستان کے عہدے کے لیے معظم جاہ انصاری کو تعینات کر دیا گیا ۔ گزشتہ روز نئے آئی جی کی صدر مملکت آصف علی زرداری سے بھی ملاقات ہوئی ہے ۔ بلوچستان میں ہونے والے ان حملوں کی سعودی عرب، امریکہ اور چین کے علاوہ کئی ممالک نے مذمت کی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بلوچستان میں ان پرتشدد واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے قصور واروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سب میں سب سے سنگین بات یہ ہے کہ عورتوں کو دہشت گردی میں پھنسایا جا رہا ہے ۔ اس کو روکنا ہو گا ۔ اس کوشش کو جڑ سے تلف کرنا ہو گا۔
آئیں! ملک کی تیسری خود کش حملہ آور خاتون کی بات کرتے ہیں۔ تربت یونیورسٹی میں ایل ایل بی کی طالبہ ، 23سالہ ماہل بلوچ ، نے اسی دن شام کو ایک بار پھر گھر والوں سے خود ہی رابطہ کیا اور بتایا کہ ان کا فون ٹھیک نہیں اور اب وہ خود ہی دوبارہ رابطہ کریں گی۔ یہ جمعہ کا دن تھا اور بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حمید بلوچ نے بتایا کہ ان کی بیٹی ماہل کا اپنے گھر والوں سے یہ آخری رابطہ تھا۔ ٹھیک تین دن بعد، 26اگست کو بلوچستان کے مقبول سیاسی رہنما نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی کے موقع پر دس اضلاع میں کالعدم تنظیم بی ایل اے کی کارروائیوں میں، جنہیں ’ آپریشن ھیروف‘ کا نام دیا گیا ، کم از کم 39افراد کی ہلاکت ہوئی۔ ان میں سے ایک بڑی کارروائی بیلہ میں ہوئی جہاں خود بی ایل اے کے مطابق دو خودکش بمباروں میں سے ایک ماہل بلوچ بھی تھیں۔ کالعدم شدت پسند تنظیم کی جانب سے جاری ایک اعلامیے کے مطابق آپریشن ھیروف کا آغاز ماہل بلوچ کی گاڑی ٹکرانے سے ہوا۔ بلوچستان پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بیلہ میں ایف سی کیمپ پر خودکش حملے میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل کالعدم بی ایل اے کی دو مختلف پر تشدد کارروائیوں میں دو خواتین خودکش بمبار استعمال ہو چکی ہیں اور ماہل بلوچ اسی تنظیم کی تیسری خاتون خودکش بمبار تھی۔ لیکن ماہل بلوچ کون تھیں؟ وہ ایک کالعدم شدت پسند تنظیم کا حصہ کیسے بنی ۔ یہ سوال خاصا اہم ہے، مگر اس کا جواب کون دے گا ؟۔
ماہل بلوچ نے ڈگری کالج گوادر سے ایف اے کیا اور اس کے بعد تربت یونیورسٹی میں ایل ایل بی میں داخلہ لیا جہاں وہ آخری سمیسٹر کی طالبہ تھی۔ اس کا تعلق گودار کے ایک سیاسی گھرانے سے تھا۔ اس کا والد ، سر بندر یونین کونسل کا دور بار چیئرمین رہ چکا ہے۔ جبکہ ماہل کا چچا دو بار گودار کا ضلعی ناظم اور چیئرمین رہا ہے۔ ماہل کا ایک ماموں بھی سرکاری افسر ہے۔ حمید اور اس کے بڑے بھائی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا والد نیشنل عوامی پارٹی میں شامل رہا اور میر غوث بخش بزنجو کے شاگردوں میں شمار ہوتے تھا۔ وہ قانون کی تعلیم حاصل کر رہی تھی اور اس وقت آٹھویں سیمسٹر میں تھی۔ ماہل گرمیوں کی چھٹیوں میں کوئٹہ وکالت کی پریکٹس کے لیے انٹرن شپ کر رہی تھی، جہاں اس کے ساتھ کزنز بھی موجود تھی۔ حمید کے چھ بچے ہیں جن میں سے ماہل پانچویں نمبر پر تھی۔ ماہل بلوچ کے انسٹا گرام پر موجود مواد میں ’ دی آرٹ آف وار‘ ، کیوبا کے فیدل کاسترو کی کتاب ’ تاریخ مجھے بری کر دے گی‘ کا ترجمہ، میکسم گورکی کا عالمی شہرت یافتہ ناول ’ ماں‘ اور فرانز کافکا سمیت دیگر کتابوں کے حوالے اور تصاویر موجود ہیں۔ جس پر اس کا والد حیرت زدہ ہے۔ ماہل بلوچ کی فیملی کا پس منظر تو سیاسی رہا ہے تاہم اس کے اہل خانہ اور دوستوں کا دعویٰ ہے کہ اس نے خود کبھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا۔ اس کے ایک ساتھی طالب علم کے مطابق چار سال کی شناسائی کے دوران ماہل کسی بحث یا مباحثے میں شریک نہیں ہوتی تھی، نہ ہی کبھی اس نی یہ ظاہر کیا کہ وہ کسی شدت پسندانہ کارروائی میں شریک ہونا چاہتی ہے۔ بظاہر اس کو سیاست میں دلچسپی نہیں تھی اور وہ مسلح جدوجہد کے بارے میں بھی کبھی بات نہیں کرتی تھی۔ اسے زیادہ تر پڑھائی میں مصروف دیکھا گیا تھا۔ ماہل کو دوسروں سے زیادہ وکالت سے دلچسپی تھی۔ ماہل بلوچ کے اہل خانہ کے مطابق ان کے خاندان میں نہ کبھی کسی کی جبری گمشدگی ہوئی اور نہ کبھی کسی کی مسخ شدہ لاش ملی۔
تو پھر ماہل نے ایسا کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب واضح نہیں ۔ ممکن ہے اس کو کسی طرح بلیک میل کر کے دہشت گردوں نے اپنے جال میں پھنسایا ہو۔ وہ کن لوگوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی تھی، اس بارے میں انھیں یا فیملی میں سے کسی کو کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔ کبھی ایسا بھی نہیں ہوا کہ وہ طویل عرصے تک رابطے میں نہ رہی ہو یا کہیں چلی گئی ہو ۔ کالعدم بی ایل اے کے ترجمان جیند بلوچ نے دعویٰ کیا کہ ماہل بلوچ نے 2022میں باقاعدہ طور پر تنظیم میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد 2023میں وہ مجید بریگیڈ کا حصہ بنیں اور اس دوران انہوں نے تربیت بھی لی۔ خودکش حملے کے وقت ماہل اکیلی گاڑی چلا رہی تھی۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ماہل بلوچ کالعدم بی ایل اے کی جانب سے بطور خودکش بمبار استعمال ہونے والی تیسری خاتون تھی۔ اس سے قبل اپریل 2022میں کراچی یونیورسٹی میں شاری بلوچ نامی خاتون نے کنفیوشس سینٹر کے باہر خودکش حملہ کیا تھا جس میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد مارے گئے تھے ۔ شاری بلوچ تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ دو بچوں کی والدہ تھیں اور ان کے شوہر پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھا۔ اس کا تعلق ضلع تربت کے علاقے نظر آباد سے تھا۔ تربت میں جون 2023میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ایک خودکش حملہ آور کی شناخت سمیعہ قلندرانی بلوچ کے نام سے کی گئی تھی۔ کالعدم جماعت بی ایل اے کے مطابق سمعیہ بلوچ ریحان بلوچ کی منگیتر اور مجید بریگیڈ کے بانی رہنما اسلم بلوچ کی بہو تھی ۔ریحان بلوچ نے اگست 2018 میں بلوچستان کے ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین کے قریب چینی انجینیئروں اور کارکنوں پر خود کش حملہ کیا تھا ۔ 2023میں گرفتار ہونے والی ماہل بلوچ اور بیلہ میں خودکش حملہ کرنے والی ماہل بلوچ دو الگ خواتین ہیں ۔بیلہ میں خودکش حملہ آور کی شناخت اور نام سامنے آیا تو سوشل میڈیا پر ایک تنازع نے جنم لیا جس میں ایک ایسی خاتون کی تصاویر سامنے آئیں جن کا حالیہ حملے سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس تنازع کی وجہ ایک جیسا نام ہے ۔ واضح رہے کہ کوئٹہ میں فروری 2023کو گرفتار ہونے والی ایک خاتون کا نام بھی ماہل بلوچ تھا جن کے بارے میں اس وقت بلوچستان سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ ماہل بلوچ کو سیٹلائیٹ ٹائون کے علاقے میں ایک پارک کے قریب سے گرفتار کیا گیا اور ان سے ایک خود کش جیکٹ بھی برآمد کی گئی ۔ تاہم اس وقت کوئٹہ سے دہشتگردی کے الزام میں گرفتار خاتون ماہل بلوچ کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ان کا کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ ( بی ایل ایف) سے کوئی تعلق نہیں اور ان کے پاس سے خود کش جیکٹ کی برآمدگی کے دعوئوں میں بھی کوئی حقیقت نہیں ۔ سی ٹی ڈی کا دعویٰ تھا کہ ماہل بلوچ کا تعلق کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ سے ہے تاہم بیلہ کیمپ پر حملہ کرنے والی ماہل کے بارے میں کالعدم بی ایل اے کا دعوی ہے کہ وہ ان کے مجید بریگیڈ کی رکن تھیں جن کا عرفی نام ذلان کرد تھا ۔ ایسے میں حالیہ حملے کے بعد سوشل میڈیا پر گزشتہ سال کوئٹہ سے گرفتار ہونے والی ماہل کو ہی بمبار قرار دیا گیا اور ان کی تصاویر لگائی گئیں تاہم بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے گومازی سے تعلق رکھنے والی ماہل ضمانت پر رہا ہو گئی تھی ۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں اور وہ بلوچ ہیومن رائٹس کونسل کی چیئرپرسن بی بی گل بلوچ کی بھابی ہے ۔ بلوچستان طویل عرصے سے شورش زدہ ہے۔ اس کی تازہ ترین خونریز مثال وہ حملے ہیں، جن کا آغاز گزشتہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب ہوا۔ بلوچستان میں ان حملوں کی ذمہ داری مسلح لیکن ممنوعہ علیحدگی پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔ علیحدگی پسندوں کی جانب سے کیے گئے یہ حملے صوبے میں گزشتہ کئی برسوں کی سب سے زیادہ وسیع اور ہلاکت خیز پیمانے پر کی جانے والی عسکریت پسندانہ کارروائیاں تھے۔
قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان میں علیحدگی کی کوششیں دہائیوں سے جاری ہیں۔ وہاں ہمسایہ ملک چین کی قیادت میں چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک) کے تحت کئی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے ، جن میں گوادر میں ایک تزویراتی بندرگاہ بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی اس صوبے میں سونے اور تانبے کی کان کنی کے منصوبوں پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے سابق گورنر ملک عبدالولی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بدامنی کی حالیہ لہر سے صوبے کا ہر طبقہ متاثر ہوا ہے۔ یہ ساری صورت حال صرف ایک دن میں تو خراب نہیں ہوئی۔ اگر حالات میں بہتری کے لیے دور اندیشی پر مبنی فیصلے کیے جاتے، تو آج صوبے کی صورت حال اس قدر خراب نہ ہوتی۔
س طرح کے حملوں نے علیحدگی پسند عسکریت پسندی کو ایک ہولناک رخ دیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کوئی بھی ریاست اس طرح کے پُرتشدد حملوں اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو برداشت نہیں کرے گی ۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ریاست کے پاس حق ہے کہ وہ اس نوعیت کی دہشت گردی سے نمٹنی کے لیے طاقت کا استعمال کرے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صوبے میں پائے جانے والے سیاسی اضطراب کی وجوہات پر بھی غور کریں کہ آخر بغاوت میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے ۔
طاقت کے استعمال کے باوجود ریاست صوبے میں بڑھتی بغاوت کو دبانے میں ناکام رہی ہے ۔ درحقیقت جمہوری اور معاشی حقوق سے محروم مقامی آبادی کی وجہ سے باغی سوچ کو مزید تقویت ملی ہے۔ مظاہروں کو دبانے میں طاقت کے استعمال اور گمشدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے مقامی آبادی بالخصوص نوجوانوں میں غصے کی آگ کو بھڑکایا ہے اور یوں علیحدگی پسند گروہوں میں بھرتی ہونی والے منحرف افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ رواں ہفتے جو کچھ ہوا اسے ان تمام زاویوں سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ ان اندوہناک واقعات کی ذمہ داری بھی ریاست پر عائد ہوتی ہے جو لوگوں کے درست مطالبات کی شنوائی میں بھی ناکام رہی ۔
اس حقیقت کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ان علیحدگی پسندوں کو بیرونی عناصر کی سرپرستی حاصل ہے جس کی بنا پر وہ حملے کرنے میں کامیاب ہیں، لیکن بیرونی قوتیں بھی اسی صورت میں فائدہ اٹھاتی ہیں کہ جب خطے کے حالات پہلے سے ہی انتشار کا شکار ہوں، افسوس ناک بات یہ ہے کہ رحیم یار خان میں کچے کے ڈاکوئوں کے ہاتھوں پولیس کے درجن بھر جوانوں کی ہلاکت اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات ایک ساتھ رونما ہوئے ہیں۔ پارہ چنار میں اس سے کہیں پہلے حالات خراب ہیں۔ کے پی کے میں بھی حالات ابتری کی طرف جا رہے ہیں، گویا ملک کے تین صوبوں میں امن عامہ کی صورت ناگفتہ بہ ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے لوگ بہت پریشان تھے کہ امن عامہ کی ابتر صورت نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ بیرونی سرمایہ کار پاکستان سے بھاگ رہے ہیں اور مقامی تاجر بھی دبئی وغیرہ کا رخ کر رہے ہیں ۔ اس میں حیرت نہیں ہونی پاکستان کہ حالیہ کچھ عرصے میں سب سے زیادہ ملک چھوڑ کر جانے والوں میں پاکستانیوں نے اقوام عالم کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
سچی بات یہی ہے کہ ملک دلدل میں دھنس چکا ہے۔ تجربہ کار اس ملک کو آخری ڈبکی دینے لگے ہیں۔ اس سے نجات کا یہی راستہ ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر کوئی فیصلہ کرنا ہو گا۔ کوئی ایسا فیصلہ جو ملک کے مفاد میں ہو۔ سیاسی قیدیوں کی رہائی اس جانب پہلا قدم ہو گی ۔ تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر آئندہ کو لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔ یہ ملک ہے تو سیاست بھی ہو گی ۔ خدا نخواستہ اس کو کچھ ہوا تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا جعلی مینڈیٹ والوں کو سر تسلیم خم کرتے ہوئے سب کو بلانا ہو گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کا انجام سب کے سامنے ہے۔
ویسے اگر اسے مایوسی پھیلانے کی سازش نہ سمجھا جائے تو ملکی صورت حال اس شعر کی عکاس ہے
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے







