Column

روپوش لیڈرشپ کا کڑا امتحان

 

رفیع صحرائی
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے روپوش پارٹی رہنمائوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ روپوشی ختم کر کے باہر نکلیں اور گرفتاری دیں۔ اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں خود جیل میں قید ہوں تو باقی رہنماں کو بھی ڈر چھوڑ کر سا منے آنا چاہیے۔ انہوں نے اپنے روپوش پارٹی رہنماں کو ہدایت کی کہ ان پر جو بھی الزام ہے باہر آ کر اس کا سامنا کریں اور گرفتاریاں دے کر عدالتوں سے ضمانت حاصل کریں۔ یاد رہے کہ 9مئی واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے متعدد رہنما زیرِ زمین چلے گئی تھے اور تاحال انہوں نے اپنی روپوشی ختم نہیں کی۔ ان رہنمائوں میں حماد اظہر، مراد سعید اور میاں اسلم اقبال سمیت دیگر رہنما بھی شامل ہیں۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان گزشتہ تیرہ ماہ سے جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ جبکہ ان کے دورِ حکومت میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے چند لیڈرز مشکل وقت میں پتلی گلی سے نکل گئے۔ عمران خان سے عشق کے دعویدار ان مجنوئوں نے جی بھر کر اقتدار کی گائے کا دودھ پیا اور رانجھے کی طرح دیسی گھی کی خالص چوری کھائی لیکن جب قربانی دینے کا وقت آیا تو یہ نظر بھی نہیں آئے۔ اب ان مجنوئوں سے دودھ پینے کے عوضانے میں خون کا پیالہ طلب کر لیا گیا ہے۔
رئوف حسن کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی بہت مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ اس پچھتر سالہ بوڑھے نے جب تک گرفتاری اور سختی کا سامنا نہیں کیا تھا تب تک پی ٹی آئی ورکرز اور اس کی سوشل میڈیا ٹیم کے لیے یہ مردِ آہن تھا لیکن گرفتار ہوتے ہی یہ ریت کی دیوار ثابت ہوا اور رٹو طوطے کی طرح فرفر بولنے لگا۔ اس نے پی ٹی آئی اور عمران خان سمیت تمام لیڈر شپ کے بارے میں انکشافات کے انبار لگا دیئے۔
اڈیالہ جیل میں عمران خان کے نیٹ ورک اور اس کے سہولت کاروں کی مخبری بھی رئوف حسن نے ہی کی تھی جس کے نتیجے میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم سمیت دس افراد کو پہلے فیز میں جبکہ چھ خواتین و مرد ملازمین کو دوسرے فیز میں گرفتار کیا گیا جو عمران خان، بشریٰ بی بی، شاہ محمود قریشی اور چودھری پرویز الٰہی کے درمیان رابطوں کا ذریعہ بنے ہوئے تھے۔ عمران خان کے انٹرویوز اور آرٹیکلز بھی اسی نیٹ ورک کے ذریعے جیل سے باہر آ رہے تھے اور اعلیٰ حکام سر پکڑے بیٹھے تھے کہ یہ سب کیسے ہو رہا ہے۔ رئوف حسن نے نہ صرف اس نیٹ ورک کی نشاندہی کی بلکہ فیض حمید کے بارے میں تمام حقائق بھی بتا دیئے۔ فیض حمید کے بارے میں پہلے سے ہی تحقیقات چل رہی تھیں۔ گمشدہ کڑیاں رئوف حسن نے ملا دیں اور یوں فیض حمید بھی گرفتار ہو گئے۔ تمام حقائق سامنے آنے کے بعد اعلیٰ حلقوں نے محسوس کیا کہ عمران خان کی لگژری قید حکومت اور اداروں کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ وہ دنیا کے واحد ایسے قیدی ہیں جو جیل میں انڈر ٹرائل ہیں اور ان کی رسائی میڈیا تک ہے۔ وہ نت نیا بیانیہ بنا کر میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچا رہے ہیں۔ انٹرویو اور بیانات دے رہے ہیں۔
عمران خان کا نیٹ ورک پکڑے جانے اور اس سے معلومات حاصل کرنے کے بعد حکام نے سوچا ہے کہ اب انہیں مزید خصوصی مراعات نہ دی جائیں چنانچہ اب انہیں فلٹر شدہ یا صاف پانی مہیا کرنے کے بجائے عام پانی دیا جا رہا ہے۔ انہیں اخبارات اور کتابوں کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔ ان کی نگرانی پر مامور عملہ ان سے بہت فاصلے پر رہ کر ڈیوٹی دیتا ہے اور اس عملے کی سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ پانی پینے کے لیے عمران خان کو اس میں ملی ریت کے ذرات کے برتن کے پیندے میں بیٹھ جانے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جیل کے دیگر قیدی بھی یہی پانی پیتے ہیں۔ ممکن ہے پی ٹی وی دیکھنے اور ورزش کے آلات کی سہولت بھی ان سے واپس لے لی جائے۔ عمران خان کو مکمل طور پر تنہا کر دیا گیا ہے اور ان کا سٹیٹس ایک عام قیدی کا رہ گیا ہے۔ انہیں صحیح معنوں میں اب محسوس ہو رہا ہے کہ قید دراصل ہوتی کیا ہے۔ وہ اس وقت سخت مشکل میں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جیل عدالت میں ان کی آئندہ پیشیوں پر میڈیا نمائندگان کو کوریج سے روکنی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا۔ یہ صرف عمران خان کے لیے ہی خصوصی رعایت دی گئی تھی جسے واپس لیا جا رہا ہے۔
قیدِ تنہائی حقیقتاً بڑی سخت سزا ہے۔ بندہ دیواروں سے باتیں کرتا رہتا ہے۔ وہ کسی ذی روح سے بات کرنے کو ترس جاتا ہے۔ عمران خان کے گرد گھیرا تنگ ہوا ہے تو انہیں شدت سے احساس ہوا ہے کہ بظاہر ان کی خاطر روپوشی اختیار کرنے والے ان کی پارٹی کے لیڈرز تو تعیش بھری زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی پراسرار روپوشی پر بھی سوالیہ نشانات ہیں کہ حماد اظہر کبھی روپوش اور کبھی منظرِ عام پر آ جاتے ہیں۔ وہ کے پی میں جا کر جلسے میں تقریر کر کے آ جاتے ہیں مگر کوئی ادارہ انہیں گرفتار نہیں کرتا۔ میاں اسلم اقبال اپنی بیٹی کی شادی میں شرکت کرتے ہیں مگر کوئی انہیں پوچھتا بھی نہیں۔ اس خودساختہ روپوشی نے انہیں عمران خان کی نظروں میں غالباً مشکوک بنا دیا ہے۔ البتہ مراد سعید کسی ایسی پاتال میں اترے ہیں کہ واپسی کا رستہ ہی بھول گئے ہیں۔
اب عمران خان نے روپوش لیڈرشپ کو گرفتاری کا حکم دیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اپنے قائد کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے یہ لوگ گرفتاری دے دیں گے یا روپوشی قائم رکھیں گے۔ یہ ان کی وفاداری کے امتحان کا وقت ہے۔ اگر ان لوگوں نے مستقبل میں عمران خان کے ساتھ چلنا ہے تو انہیں اس امتحان میں سرخرو ہونا ہو گا۔ ورنہ پی ٹی آئی کے میڈیا ورکرز کی طوفانی ٹرولنگ انہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والے یہ امیر زادے کیا منظر عام پر آ کر فوری گرفتاری دے دیں گے؟ بظاہر تو یہ کافی مشکل لگتا ہے۔ گرمی کا موسم ابھی ختم نہیں ہوا۔ ہو سکتا ہے اکتوبر کے آخر میں یہ لوگ اپنی پناہ گاہوں سے باہر آ جائیں لیکن پھر دسمبر، جنوری کی سخت سردی بھی سر پہ کھڑی ہو گی۔ جو قیدیوں کے لیے سخت اذیت ناک ہوتی ہے۔ دیکھتے ہیں کون روپوش لیڈر اپنے قائد کے حکم کی تعمیل کرتا ہے اور کون اپنی جان بچانے کو فوقیت دیتا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے۔

جواب دیں

Back to top button