جیلوں میں کنٹین کا متوازی نظام؟

تحریر : امتیاز عاصی
ہر آنے والی حکومت سرکاری محکموں میں کرپشن کے خاتمے کا دعویٰ کرتی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ کرپشن کے ناسور نے معاشرے میں جو بگاڑ پیدا کیا ہے اس کا ازالہ ممکن نہیں۔ سرکاری محکموں میں کرپشن کو برا نہیں سمجھا جاتا ملازمین کرپشن کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ ایک اردو معاصر کی خبر نے ہمیں چونکا دیا سینٹرل جیل راولپنڈی میں یوٹیلیٹی سٹورز کے باوجود ایک قیدی بیرک میں کنٹین چلا کر لاکھوں روپے کما رہا ہے۔ عجیب تماشا ہے ایک عشرہ قبل یہی قیدی بیرک نمبر چار میں کنٹین چلا رہا تھا اور اب اس کے کاروبار کا دائرہ مزید وسیع ہو گیا ہے جس کے مطابق وہ بیرک نمبر سات کے کمرہ نمبر چار میں بھی کنٹین چلا رہا ہے۔ تعجب ہے جیل مینوئل کے مطابق قیدی اور حوالاتی اپنی بیرک سے دوسری بیر ک میں نہیں جا سکتے لیکن وہ قیدی اپنی بیرک سے کئی بیرکس عبور کرکے دوسری بیرکس میں کنٹین چلاتا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے یہ قیدی کئی لاکھ روپے ماہانہ جیل حکام کو بھتہ دتیا ہے۔ اغوا برائے تعاون کے مقدمہ میں ملوث قیدی کو پندرہ سال سے زیادہ عرصہ ایک ہی جیل میں ہو گیا ہے ورنہ عام طور پر معمولی شکایت پر جیل حکام قیدیوں کے چالان نکال دیتے ہیں۔ حیرت ہے قیدی کے خلاف کنٹین چلانے کا الزام حقیقت کے باوجود اسے دوسری جیل نہیں بھیجا گیا جو اس امر کا غماز ہے قیدی واقعی اثر و رسوخ رکھنے والا ہے۔ حکومت نے قیدیوں کو پرائیویٹ کنٹین کنٹریکٹر کی لوٹ مار سے بچانے کی خاطر جیلوں میں یوٹیلیٹی سٹورز قائم کئے تھے اس کے باوجود قیدیوں کا جیلوں میں کنٹین چلانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ خبر میں لکھا ہے جیل کے چکر میں تعنیات دو ملازمین چودہ لاکھ روپے ماہانہ اکٹھا کرکے اوپر بھتہ دیتے ہیں۔ لازمی بات ہے وہ چودہ لاکھ بھتہ ادا کرتے ہیں تو لاکھوں خود بھی کماتے ہوں گے۔ جیلوں میں خصوصا سینٹرل جیل اڈیالہ میں معمول ہے سینٹرل ٹاور جسے جیل چکر بھی کہتے ہیں انہی ملازمین کو ماہانہ بنیادوں پر لگایا جا تا ہے جو زیادہ سے زیادہ بھتہ دینے کا عہد کرتے ہیں۔ بعض صورتوں میں زیادہ بھتہ دینے والے ملازمین یعنی امدادیوں کو دو ماہ تک وہیں رہنے دیا جاتا ہے۔ اگرچہ جیل چکر میں ایک اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اور چیف چکر بھی تعنیات ہوتے ہیں جو برائے نام ہوتے ہیں۔ اختیارات کا مرکز دونوں امدادی ہوتے ہیں جو ماہانہ بھتہ جمع کرکے اوپر دینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جہاں تک اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اور چیف چکر کی بات ہے انہیں معقول خرچہ مل جاتا ہے جس کے بعد وہ چکر کے تمام امور امدادیوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ جیسا کہ خبر میں لکھا ہے چودہ لاکھ روپے ماہانہ چکر کا ٹھیکہ ہے جو مختلف طریقوں سے پورا کیا جاتا ہے۔ جیلوں کی مختلف بیرکس میں جوئے کے اڈے قائم ہوتے ہیں جہاں دوسری بیرکس سے قیدی اور حوالاتی آکر جوا کھیلتے ہیں اس طرح جوا کا اڈا چلانے والا قیدی کئی لاکھ روپے ماہانہ چکر والوں کو ادا کرتا ہے۔ قیدیوں اور خصوصا حوالاتیوں کی گنتی ڈالنے کے پانچ سے دس ہزار روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ مروجہ طریقہ کار کے مطابق ایک ہی مقدمہ میں ملوث چند حوالاتی جیل آجائیں تو انہیں علیحدہ علیحدہ بیرکس میں رکھا جاتا ہے۔ جیلوں میں یہ بات مشہور ہے جیل ملازمین اڑتے پرندوں سے بھی بھتہ وصول کر لیتے ہیں۔ منشیات فروشی کبھی وسیع پیمانے پر ہوتی تھی ہم سپرنٹنڈنٹ کا نام تو نہیں لکھیں گے منشیات فروشی ایک بڑا آمدن کا ذریعہ ہوتا ہے۔ جیلوں میں جمیرز لگانے سے پہلے پی سی او چلائے جاتے تھے۔ گو سینٹرل جیل کو موبائل سے پاک تو قرار نہیں دیا جا سکتا قیدیوں اور حوالاتیوں کے پاس اب بھی موبائل ہیں۔ کرپشن کا ایک اور بڑا ذریعہ کچن ہے جہاں اگر دو سو قیدیوں کی مشقت ڈالی گئی ہے تو سو کام کرتے ہیں باقی سو پانچ سے سات ہزار روپے ماہانہ ادا کرکے کچن کی مشقت سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ جیل کچن کی مشقت سخت ترین مشقت ہوتی ہے جس میں قیدیوں کو تندور پر روٹیاں لگانے پر مامور کیا جاتا ہے کچھ قیدی برتن دھوتے ہیں اور کچھ کو سالن پکانے پر لگایا جاتا ہے۔ جیل کے گودام سے پکائی کے لئے پورا سامان آتا ہے جس کے بعد کچن سے مبینہ طور پر کم کرکے واپس گودام میں بھیجا جاتا ہے جو بعد ازاں جیل سے باہر لے جا کر فروخت ہوتا ہے ۔ چند سال پہلے اس طرح کا ایک کیس پکڑا گیا تھا۔ جیل فیکٹری آمدن کا خاصا بڑا ذریعہ ہوتی ہے اگر پانچ سو قیدیوں کو مشقت ڈالی گئی ہے تو اڑھائی سو سب اچھے پر ہوتے ہیں۔ سب اچھے والے قیدی پانچ سے آٹھ ہزار روپے ماہانہ بھتہ ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچن اور فیکٹری میں کام کرنے والے قیدیوں کو مشقت سے چھٹی کی ضرورت ہو تو وہ اپنے ہیڈ وارڈر کو دو چار سو دے کر چھٹی لی لیتے ہیں یہی طریقہ کار لنگر خانوں میں رائج ہے۔ ایسے قیدی جن کی رہائی میں بہت کم وقت رہ گیا ہو اور وہ بے یارو مددگار ہوتے ہیں بھتہ دینے کی سکت نہیں رکھتے انہیں جھاڑو پنجے پر بھیجا جاتا ہے۔ ایسے قیدیوں کے پیروں میں زنجیریں لگا کر انہیں جیل سے باہر باغیچے یا جیل افسران کے گھروں کے کام پر مامور کیا جاتا ہے۔ قیدیوں کے پیروں میں لگی زنجیریں ان کی رہائی تک لگتی رہتی ہیں۔ قیدیوں کے درمیان لڑائی جھگڑا ہو جائے تو جیل والوں کی چاندی ہو جاتی ہے دونوں فریقوں سے بھتہ لے کر انہیں ایک بیرک سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے ورنہ قصوری میں ڈال دیا جاتا ہے۔ قصوری سے نکلنے کے لئے اگر کسی قیدی کی بڑی سفارش نہ ہو اگر و ہ مقررہ مدت سے پہلے نکلنا چاہتا ہے تو اچھی خاصی رقم دے کر نکلے گا ورنہ وہیں پڑا رہے گا۔ ہمیں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا وہ مشہور فقرہ یاد آرہا ہے پاکستان میں ایک نہیں دو وزیراعظم ہوتے ہیں یعنی ایک وزیراعظم جیل سپرنٹنڈنٹ بھی ہوتا ہے۔ جیلوں میں پائی جانے والی مبینہ کرپشن پر لکھنا چاہیں تو کتاب لکھی جا سکتی ہے مگر تنگی کالم کے باعث کرپشن کے چیدہ چیدہ طریقوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کرپشن کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک انسان دل میں حق تعالیٰ کے روبرو جواب دہی کا خوف رکھے ورنہ جیلوں سے کرپشن کا خاتمہ کسی صورت میں ممکن نہیں۔





