Column

ہار جیت کھیل کا حصہ ہے مگر ۔۔۔

تحریر : صفدر علی حیدری
اسپنرز شکیب اور مہدی کی عمدہ کارکردگی کی بدولت بنگلہ دیش نے پاکستان کو پہلی بار ٹیسٹ میچ میں عبرت ناک شکست دے دی ہے۔ بنگلہ دیش کے اوپنر ذاکر حسن اور شادمان اسلام نے 30رنز کا ہدف سات اوورز میں حاصل کر لیا۔ اسپنرز شکیب الحسن اور مہدی حسن معراج نے راولپنڈی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں مجموعی طور پر7وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کے خلاف بنگلہ دیش کو ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی اور 10وکٹوں سے کامیابی دلوا دی ۔میچ کے پانچویں روز مہدی نے 21رنز دے کر 4جبکہ شکیب نے 44رنز دے کر 3وکٹیں حاصل کیں جس کی بدولت میزبان ٹیم 55.5اوورز میں 146رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی ۔ اس سے بنگلہ دیش کو صرف 30رنز کا ہدف ملا جسے اوپنر ذاکر حسن اور شادمان اسلام نے 6.3اوورز میں حاصل کر لیا ۔ ذاکر (15)نے فاتح بانڈری لگائی جبکہ شادمان 9رنز بنا کر ناٹ آئوٹ رہے اور ان کی ٹیم نے یادگار فتح کا جشن منایا ۔
پاکستان کی جانب سے محمد رضوان نے دوسری اننگز میں سب سے زیادہ 51رنز بنائے جس میں 6چوکے بھی شامل تھے تاہم میزبان ٹیم کھانے کے وقفے تک 6وکٹوں کے نقصان پر 108رنز بنا سکی تھی جس سے اس کی شکست یقینی ہو گئی تھی ۔ چھٹی کے دن میچ دیکھنے کیلئے آنے والوں کی تعداد 5ہزار کے لگ بھگ تھی اور شائقین توقع کر رہے تھے کہ کریز پر موجود محمد رضوان میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تاہم مہدی نے رضوان اور پھر محمد علی کی یکے بعد دیگرے دو وکٹیں حاصل کرکے فتح کی بنیاد رکھ دی۔
بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے کپتان نجم الحسین شانتو نے اس فتح کو ان لوگوں کے نام وقف کیا ہے جو سیاسی بحران میں مارے گئے تھے جس کے نتیجے میں رواں ماہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو کئی ہفتوں تک طلبہ کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کے بعد اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ ہم ان افراد کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں جو حال ہی میں احتجاج کے دوران ہمارے ملک میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ان کی مفغرت کیلئے دعا گو ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جیت پر اللہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اتوار کو اپنی 26ویں سالگرہ منانے والے نجمل نے کہا کہ میرے خاص دن پر جیتنا بہت خاص تھا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود نے اس شکست کو مایوس کن قرار دیا ہے ۔ کپتان کی حیثیت سے لگاتار چار ٹیسٹ ہار کا ریکارڈ قائم کرنے والے کپتان کا کہنا ہے کہ یہ بہت مایوس کن شکست ہے۔ ہم نے بنگلہ دیش کو آسان نہیں لیا نہیں لیا لیکن پچ ہماری توقع کے مطابق نہیں تھی ۔
بنگلہ دیش، جسے ٹیسٹ میچ نہ جیتنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، اب آسٹریلیا ، انگلینڈ اور پاکستان کے خلاف ایک ایک فتح حاصل کر چکا ہے ۔ راولپنڈی میں یہ ان کی 143ٹیسٹ میچوں میں صرف چھٹی فتح تھی۔دوسری اننگز میں پاکستان کی بیٹنگ اس وکٹ پر لڑکھڑا گئی جو میچ کے ابتدائی چار دن مکمل طور پر بالرز کیلئے غیر مددگار ثابت ہورہی تھی تاہم آخری روز وکٹ پر دراڑیں نظر آنا شروع ہوئیں جس کا بنگلہ دیشی اسپنرز نے بھرپور اٹھایا ۔ میزبان ٹیم کو فرنٹ لائن اسپنر کو شامل نہ کرنے کی قیمت بھی چکانی پڑی کیونکہ وہ اپنے گزشتہ نو ہوم میچوں میں پانچویں شکست سے دوچار ہوئی تھی۔ ان کے اہم بلے باز بھی ناکام رہے ، بابر اعظم پہلی اننگ میں نہیں چلے اور دوسری اننگ میں صرف 22رنز بنا پائے۔ کپتان مسعود نے 14رنز بنائے ۔ پہلی اننگز میں سنچری بنانے والے سعود شکیل چوتھی گیند پر صفر پر آٹ ہو گئے۔ پاکستان کو پہلی اننگز میں 117رنز کے خسارے کا سامنا تھا اور اس کا آغاز ایک وکٹ کے نقصان پر 23رنز سے ہوا تھا لیکن دوسرے اوور میں مسعود کو فاسٹ بولر حسن محمود کے ہاتھوں گنوانا پڑی ۔ اگر وکٹ کیپر لٹن داس نے فاسٹ بولر شریف الاسلام کی گیند پر بابر اعظم کا کیچ نہ چھوڑا ہوتا تو تیسری وکٹ 28کے مجموعے پر گر سکتی تھی۔ بابر اعظم کا کیچ ان کی اننگز کی پہلی ہی گیند پر ڈراپ ہوا۔ بابر اعظم نے تین چوکے لگا کر پاکستان کی جانب سے مزاحمت کی کوشش کی لیکن وہ ناہید ران کی گیند پر ایج لگنے کے سبب بولڈ ہوگئے اور یہ میچ میں رانا کی پہلی وکٹ ثابت ہوئی ۔ شکیب جن کی ٹیسٹ میں شرکت پر حسینہ واجد کے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات کی وجہ سے اندرون ملک احتجاج کیا گیا تھا، کی گیند پر مشفق الرحیم نے سعود شکیل کو اسٹمپ کیا جنہوں نے کریز سے آگے نکل کر شاٹ کھیلنے کی کوشش کی تھی ۔ اس کے بعد آغا سلمان پہلی گیند پر آف اسپنر مہدی کے ہاتھوں آٹ ہو گئے جس کی وجہ سے 105کے مجموعے پر پاکستان کی چھٹی وکٹ گر گئی ۔7رنز کے اضافہ ہونے کے بعد مہدی نے شاہین نسیم کی وکٹیں حاصل کیں ۔پاکستان نے بنگلہ دیش کے خلاف گزشتہ 13ٹیسٹ میچوں میں سے 12میں کامیابی حاصل کی جبکہ 6میچز اننگز سے جیتے اور ایک میچ ڈرا ہوا ہے ۔
دوسرا اور آخری ٹیسٹ بھی جمعہ سے راولپنڈی میں کھیلا جائے گا ، سیریز ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ ( ڈبلیو ٹی سی) کا حصہ ہے ۔ شکست کے بعد پاکستان نو ٹیموں پر مشتمل ڈبلیو ٹی سی ٹیبل میں آٹھویں نمبر پر ہے جبکہ بنگلہ دیش چھٹے نمبر پر آ گیا ہے۔ یہ تھی اس یادگار میچ کی کچھ تفصیلات۔ اب آگے بڑھنے سے پہلے ایک فاسٹ بائولر کو یاد کرتے ہیں ۔ 25 ٹیسٹ میچز میں 23کی ایوریج سے 90وکٹیں لینے والا 34سالہ محمد عباس ، پاکستان ٹیم سے ایسے غائب ہوا جیسے اس نے کبھی پاکستان کے لیے کرکٹ کھیلی ہی نہ ہو ۔ محمد عباس کا اپنی گیند پر کنٹرول با کمال تھا چاہے ان سوئنگ ہو یا آئوٹ سوئنگ وہ خوب مہارت رکھتا تھا ۔ اگر 23میچز میں ان کی بائولنگ ایوریج دیکھی جائے تو مچل سٹارک، ہیزل ووڈ، ٹرینٹ بولٹ ، جیمز اینڈرسن اور براڈ جیسے عظیم بائولرز سے ان کی بائولنگ ایوریج اچھی ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف 4سال ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والا یہ نوجوان فاسٹ بائولر کہاں غائب ہو گیا جس کی پرفارمنس اور سٹیٹس سب کے سامنے ہیں اور وہ ہمیں مسلسل کائونٹی کرکٹ کھیلتا ہوا بھی نظر آتا ہے ۔
یہ صرف ایک عباس کی کہانی نہیں بلکہ یاسر شاہ کو بھی بغیر کسی وجہ سے ڈراپ کیا گیا تھا حالانکہ یاسر شاہ پچھلے 7،8سالوں میں پاکستان کا بہترین پرفارمر تھا ۔ اگر پاکستان ٹیم سے کھلاڑی یوں ہی غائب ہوتے جائیں گے اور سلیکٹرز کے من پسند کھلاڑی بغیر کسی پرفارمنس کے کھیلتے رہیں گے تو نتیجہ بھی وہی آئے گا جو بنگلہ دیش کے خلاف آیا۔ سال دو ہزار چودہ میں ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے یاسر شاہ نے 47ٹیسٹ میچز میں یہ کارنامہ سر انجام دیا جبکہ لیجنڈ اسپنر عبدالقادر نے 67ٹیسٹ میچوں میں 236وکٹیں اپنے نام کیں تھی ، ( دانش کنیریا بدستور پہلے نمبر پر موجود ہیں جنہوں نے پاکستان کے لئے 61ٹیسٹ میچز میں 261وکٹیں حاصل کر رکھیں ہیں ) یاسر شاہ کی بہترین بائولنگ 41رنز کے عوض 8وکٹیں حاصل کرنا ہے ، اس کے علاوہ ٹیسٹ میچز میں دس وکٹیں 3بار ، 16مرتبہ 5،5وکٹیں اور 9مرتبہ 4،4وکٹیں لینا شامل ہے ۔ یاسر شاہ نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ اگست 2021میں ویسٹ انڈیز کیخلاف کھیلا تھا جس کے بعد وہ انگوٹھے کی انجری کا شکار ہوئے تھے ۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وہ تین سال میں بھی صحت یاب نہیں ہو سکا ۔ پاکستان بھارت بنگلہ دیش اور سری لنکا کی وکٹیں اسپنرز کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ اب اگر یاسر شاہ کو کھلایا جاتا تو ہم کبھی اپنے گھر میں یوں عبرت ناک شکست سے دوچار نہ ہوتے۔ جس چیز کا سب سے بڑا دکھ ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے گھر میں مار کھائی ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت اپنے ملک میں دنیا کی کسی ٹیم کو خاطر میں نہیں لاتا مگر ہم ۔۔۔ اپنے گھر میں اکثر مار کھاتے ہیں ۔
پاکستان نے 456ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں جن میں 148جیتے، 142ہارے اور 166ڈرا ہوئے۔ پاکستان کو 28جولائی 1952ء کو ٹیسٹ کا درجہ ملا اور اس نے اکتوبر 1952ء میں فیروز شاہ کوٹلہ گرانڈ ، دہلی میں بھارت کے خلاف اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کیا ، جس میں بھارت نے ایک اننگز اور 70رنز سے فتح حاصل کی تھی۔ قومی ٹیم نے آخری بار 2021میں جنوبی افریقہ کے خلاف پنڈی ٹیسٹ جیتا تھا۔ اس کامیابی کے بعد پاکستان نے اپنے ملک میں نو ٹیسٹ میچ کھیلے۔ پانچ میں شکست ہوئی اور چار میچ ڈرا ہوئے۔ انگلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بعد قومی ٹیم بنگلا دیش کو بھی نہ ہرا سکی۔ پاکستان کو بنگلہ دیش نے اسی کی سر زمین پر دس وکٹوں سے شکست دے دی۔ قومی ٹیم کو ہوم گرائونڈ پر ٹیسٹ میچ جیتے ساڑھے تین سال بیت گئے ہیں۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز شروع ہوئی تو سب کو یقین تھا کہ قومی ٹیم نہ صرف یہ سیریز اپنے نام کرے گی بلکہ ساڑھے تین سال بعد اپنی سر زمین پر جیت کا مزا چکھے گی لیکن۔۔۔۔ بنگلہ دیش نے پنڈی میں کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ میچ جیت کر دونوں ارمان خاک میں ملا دئیے۔8 فروری 2021کو پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں جب پاکستانی ٹیم نے جنوبی افریقہ کو ٹیسٹ میچ میں زیر کر کے فتح کی خوشی منائی تھی تو یہ اب تک اپنے میدان میں منائی جانے والی قومی ٹیم کی آخری خوشی ثابت ہوئی ہے اور اس بات کو 1295دن بیت چکے ہیں ۔ سال 2022میں آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان آئی اور تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز ایک صفر سے جیت کر وطن سرخرو لوٹی۔ اس کے بعد انگلش ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا اور قومی ٹیم کو پہلی بار ہوم گرائونڈ پر وائٹ واش کر کے تاریخی کارنامہ انجام دیا ۔
گزشتہ سال نیوزی لینڈ نے بھی پاکستان کو خوب تنگ کیا۔ کیوی ٹیم کوئی میچ جیت تو نہ سکی لیکن شاہینوں کے لیے تر نوالہ بھی ثابت نہ ہوئی اور سیریز ہار جیت کے بغیر ختم ہوئی ۔ اور اب بنگلا دیش جیسی کمزور ٹیم پاکستان کے دورے پر ہے اور اس نے پہلے ٹیسٹ میچ میں 10وکٹوں کی تاریخی کامیابی سے پاکستان کے خلاف اپنی اولین فتح بھی حاصل کر لی ہے ۔
کرکٹ قوم کے حواسوں پر سوار ہے ۔ اس کھیل کے ساتھ اس کا پیار مثالی ہے مگر افسوس ہماری ٹیم کو قوم کا کچھ احساس نہیں ۔ ورلڈ کپ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی پر ہم سب دکھی تھے کہ یہ نیا دکھ ہمیں مل گیا ۔ دو میچوں کی سیریز کا ایک میچ ( یقیناً کوئی دانش ور ذہن ہو گا جس نے دو میچوں کی تجویز دی ہو گی ۔ اب اگر تین میچ ہوتے تو شاید ہم سیریز میں واپس آ سکتے تھے ) ابھی باقی ہے ، امید کی جا سکتی ہے کہ ٹیم بہتر کھیل پیش کرتے ہوئے سیریز ڈرا کرانے میں کامیاب رہے گی ۔ ان شاء اللہ
بابر اعظم کو عمدہ کھیل پیش کرنا ہو گا ۔ دیگر کھلاڑیوں کو بھی اپنا سو فیصد دینا ہو گا۔

جواب دیں

Back to top button