لگژری گاڑی سے وزیراعظم ہائوس تک

تجمل حسین ہاشمی
ماضی میں ایک صحافی و مصنف کو میاں شہباز شریف نے ایک واقعہ سنایا۔ اس وقت جناب شہباز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا۔ جناب کہتے ہیں کہ 1985یا 1986میں نے چھوٹی گاڑی استعمال کرنا شروع کردی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس جاپانی لگژری گاڑی تھی، شاید ہی پاکستان میں وہ کسی کے پاس ہوگی۔ اس گاڑی کی قیمت اس وقت چار لاکھ تھی۔ وہ اپنی زندگی کی اس تبدیلی کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ میری زندگی میں تبدیلی کیسے آئی۔ میاں نواز شریف نے جب "غیر جماعتی انتخابات ” لڑنے کا فیصلہ کیا تو میں نے چھوٹے بھائی کی حیثیت سے اس الیکشن مہم میں ان کا ہاتھ بٹانے کا سوچا۔ میں شام روزانہ دو گھنٹے اندرون شہر گوالمنڈی، لنڈا بازار اور دوسرے علاقوں میں بڑے بھائی کیلئے ووٹ مانگتا تھا، اللہ تعالیٰ نے مہربانی کی، میاں نواز شریف الیکشن جیت گئے۔ وزیراعلیٰ بننے کے ساتھ ہی ان کی مصروفیات میں اضافہ ہوگیا۔ ووٹر میرے پیچھے پڑ گئے بڑے میاں صاحب ہمیں وقت نہیں دیتے اور ہمارے مسائل حل نہیں ہورہے۔ آپ نے تو ووٹ مانگے تھے اور بڑے دعوے کئے تھے کہ اگر ہم الیکشن جیت گئے تو اپ کی خدمت کریں گے لہٰذا ہمارے مسائل حل کرائیں۔ آپ بھی تو نوازشریف کے ساتھ ساتھ ہوتے تھے۔ میں اس سے پہلے
سیاست سے بہت نفرت کرتا تھا۔ سیاست میں ذرا بھی میری دلچسپی نہیں تھا۔ بس قسمت مجھے اس طرف لے آئی، پھر میں روزانہ دو گھنٹے لوگوں کے مسائل سننے کیلئے وقت بھی دیتا تھا۔ پھر ان دو گھنٹوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ ایک دفعہ رات کو تراویح کے بعد نسبت روڈ پر ایک بیوہ کی مدد کرنے کیلئے اس کے گھر گیا، میرے ساتھ خواجہ ریاض محمود بھی تھے، کمرے میں داخل ہوا تو چارپائی پر ایک کمزور، لاغر جوان لڑکی لیٹی ہوئی تھی، بالکل چھوٹا سا کمرہ تھا، اس بیوہ خاتون کے ساتھ ایک چھوٹی بچی بھی تھی، میں نے خاتون سے پوچھا کہ یہ چارپائی پر کون لیٹا ہے؟ خاتون نے کہا یہ میری جوان بیٹی ہے جو ٹی بی ( تپ دق) کی مریضہ ہے۔ میں نے پوچھا بی بی آپ کیا کام کرتی ہیں؟ وہ کہنے لگی میں کپڑوں کی سلائی کرتی ہوں۔ میں نے پوچھا کتنے پیسے کما لیتی ہیں؟ وہ کہنے لگی میں سات آٹھ سو روپے مہینے کے کما لیتی ہوں۔ اب چونکہ عید آنے والی ہے تو میں ایک ہزار روپیہ کما لوں گی۔ میں نے پوچھا آپ ان پیسوں سے کیسے گزارا کرتی ہیں؟ کہنے لگی میں کمرے کا کرایہ ڈیڑھ سو روپے دیتی ہوں۔ کرایہ تو تین سو روپے ہے لیکن مالک ترس کھا کر مجھ سے ڈیڑھ سو روپے لیتا ہے۔ کچھ بیٹی کی دوائی پر لگ جاتے ہیں، کچھ گھر کے گزارے پر خرچ ہو جاتے ہیں، آپ یقین کریں میں ( شہباز شریف) خاتون کی باتیں سن کر کانپ گیا۔ ساری رات سو نہ سکا، میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں، صبح میں دفتر گیا اور اپنے والد محترم کو خط لکھا کہ میرے پاس لگژری بڑی گاڑی ہے، میں اسے کمپنی کو واپس کر رہا ہوں، یہ دفتر کے استعمال میں رہے گی، آئندہ میں یہ گاڑی استعمال نہیں کروں گا۔ اس دن سے آج تک میں نے کبھی بڑی گاڑی استعمال نہیں کی۔ اقتباس "غدار کون "پیج نمبر 245۔ آج 2024ہے اور جناب محترم شہباز شریف صاحب خود وزیر اعظم ہیں، ایک نہیں دوسری بار 25کروڑ عوام کے منتخب وزیراعظم ہیں۔ 1986میں 14کروڑ کی آبادی تھی اور آج 25کروڑ سے زیادہ آبادی ہے۔ عوامی درد دل رکھنے والے شہباز شریف جن کو A man of hurry بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی پچھلی حکومت ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے میں مصروف رہی۔ لیکن ان 25کروڑ جن میں سے 60فیصد لوگ تعلیم سے محروم ہوں، ان 60فیصد کو دیوالیہ کی کیا سمجھ ہوگی۔ نواز شریف صاحب تین بار ملک کے وزیراعظم رہے ہیں، دو تہائی اکثریت بھی حاصل رہی۔ آج غریب اپنے وزیروں، مشیروں کی امپورٹڈ گاڑیوں اور سرکاری ہیلی کاپٹر کی پروازوں کو دیکھ کر حیران ہے کیونکہ وہ بیروزگار ہے، وہ مہنگائی سے پریشان ہے، اس کے بچے تعلیم سے محروم، روزانہ دال، چاول اور چینی کی قیمتوں میں اضافہ سے پریشان ہیں۔ آج بھی امپورٹ گاڑیوں کی مد میں لاکھوں ڈالر خرچ ہورہے ہیں۔ ڈالر کی قلت کیلئے انٹرنیشنل مالیاتی ادارے سے قرض لیا جارہا ہے۔ جناب محترم آج بھی ٹی بی (تپ دق) جس کو دنیا 20230تک ختم کرنے کا عزم رکھتی ہے اس سے مریض مر رہے ہیں، جناب آپ نے غریبہ کے غم سے گاڑی تو بدل لی لیکن سرکاری اداروں میں بیٹھے مافیا، رشوت خوروں اور کچے کے ڈاکوئوں کے ہاتھوں کو نہیں کاٹا، اور کتنے جوان شہید ہوں گے؟ اپنی ہی دھرتی پر اپنے ہی جوان شہید ہورہے ہیں۔ آپ وزیراعظم ہیں۔ زیادہ عرصہ آپ کے خاندان کی حکمرانی رہی ہے۔ درد دل رکھنے کے بعد اور A man of hurry ہونے کے بعد بھی آپ کی حکومت میں لوگ مہنگائی سے خود کشیاں کر رہے ہیں۔ پولیس ظالموں کی سہولت کار بن چکی ہے۔ گلی محلوں اور چوراہوں میں بیٹھے غنڈوں اور طاقتوروں نے شہریوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ کاروباری برادری بھی خوفزدہ ہے، نظام کی بہتری اور قانون کی عملداری میں آپ کی سربراہی کمزور نظر آ رہی ہے۔ عدالتوں میں جانے سے پہلے فیصلے کئے جارہے ہیں، چند سو طاقتور اداروں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرکے ریاست کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ جمہوری حکومتوں نے اداروں کو سیاست زدہ کیا اس لئے غیر آئینی عملداری نظر آ رہی ہے۔ اسی لئے عسکری اداروں کو آپریشن کی ضرورت ہے کیونکہ جابر، ظالم ملک میں اپنی رٹ چاہتا ہے جو کسی صورت ریاست ہونے نہیں دے گی۔ جناب اعلیٰ ایک عورت کے غم میں آپ رات بھر نہ سو سکے۔ آج لاکھوں بچے، عورتیں اور خاندان غم زدہ ہیں۔ گناہ اور بے گناہوں کو ماورائے عدالت مارا جا رہا ہے۔ مذہبی افراتفری کو دوبارہ ہوا دی جارہی ہے۔ یہ عناصر اپنے عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ ملک کے تحفظ کیلئے 25کروڑ عوام سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں لیکن معاشی ڈاکوں سے قوم مشکل میں ہے۔





