ColumnQadir Khan

ڈیجیٹل دور میں سچائی کا دفاع

قادرخان یوسف زئی
سوشل میڈیا نے دنیا کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور معلومات کے تبادلے میں انقلاب برپا کیا ہے۔ آج کے دور میں، یہ پلیٹ فارم اربوں لوگوں کے درمیان رابطے کا ایک بنیادی ذریعہ بن چکے ہیں۔ مارشل میک لوہان کی دی گئی تشبیہ آج ایک حقیقت بن چکی ہے، مارشل میک لوہان نے بجا طور پر کہا تھا کہ ’’ دنیا ایک عالمی گائوں ہے‘‘ اور بلاشبہ، حالیہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں 59%آبادی، یعنی تقریباً 4.70بلین لوگ، روزانہ سوشل میڈیا پر متحرک رہتے ہیں ۔ یہ ناقابل یقین رسائی ہمیں نہ صرف باخبر رکھتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں۔ جہاں سوشل میڈیا نے ہمیں بے شمار فوائد دئیے ، وہیں اس نے معاشرے میں کئی چیلنج بھی پیدا کیے۔ ترقی پذیر ممالک ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی سوشل میڈیا کے استعمال کا اثر نمایاں اور بعض اوقات خطرناک بن چکا ہے۔ یہ پلیٹ فارم، جو بنیادی طور پر خیالات کے تبادلے اور رابطے کے فروغ کے لیے بنائے گئے تھے، اب جھوٹ اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے پھیلا کا ذریعہ بن چکے ہیں۔
یہ امر اب کھل کر سامنے آچکا ہے کہ پاکستان کے خلاف کام کرنے والے عناصر ان پلیٹ فارمز کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں تاکہ ملک میں بے امنی اور عدم استحکام پیدا کیا جا سکے۔ ان کا مقصد پاکستان کی ترقی کو روکنا اور ریاست کے تانے بانے کو کمزور کرنا ہے۔ یہ عناصر جھوٹے الزامات، غلط معلومات اور کردار کشی کے ذریعے معاشرے میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ نہ صرف ہمارے سیاسی اور سماجی اداروں کی عزت و وقار کو مجروح کرتے ہیں بلکہ ان لوگوں کی بے حرمتی بھی کرتے ہیں جنہوں نے ملک کے دفاع کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ سوشل میڈیا کی گمنامی اور تیزی سے معلومات پھیلانے کی صلاحیت نے ان عناصر کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے ایک موثر ہتھیار فراہم کیا ہے۔ نوجوان نسل، جو سوشل میڈیا کا سب سے زیادہ استعمال کرتی ہے، ان اثرات کی سب سے زیادہ شکار ہے۔ ان کے پاس حقیقت اور افسانے میں فرق کرنے کے لیے ضروری تجربہ یا اجتہادی فکر کی کمی ہے، جس کی وجہ سے وہ گمراہ کن معلومات کے جال میں پھانس جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے کن موثر ضابطوں اور پالیسیوں کی ضرورت ہے یہ اب ایک پیچیدہ چیلنج بن چکا ہے۔ بعض حلقے اسے اظہار رائے کی آزادی قرار دیتے ہیں اور اس پر قدغن لگانے کے لئے مختلف کوششوں پر سخت رد عمل دیتے ہیں ، ان کی تنقید اس قدر بھرپور ہوتی ہے کہ قانونی ضابطوں کو بروئے کار لانے کی کسی بھی کوشش کو سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ ضرورت اس امر کی ہے ان ضابطوں میں اس بات کو یقینی بنا یا جائے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم جعلی خبروں اور نقصان دہ پروپیگنڈے کی پھیلا کو روکنے کے لیے ذمہ دار ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ، ہمیں معاشرے میں میڈیا کی خواندگی اور تنقیدی سوچ کی ترویج پر بھی زور دینا ہوگا۔ حکومت، سول سوسائٹی، اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ان کی میزبانی میں شامل مواد کے لیے جوابدہ ٹھہرانا ضروری ہے تاکہ وہ جعلی خبروں کے پھیلا کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔
عوام کو خاص طور پر نوجوانوں کو، میڈیا کی خواندگی اور تنقیدی سوچ کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ جھوٹ اور حقیقت میں فرق کر سکیں اور غلط معلومات کا شکار نہ ہوں۔ تاہم صورت حال اس وقت الجھ جاتی ہے جب یہ فرق واضح نہیں ہو پاتا کہ جعلی خبر کا تعین کیسے ہو ، سوشل میڈیا میں کونسی بات ، بیان اخلاقی و سماجی اقدار کو متاثر نہیں کرے گا یا پھر سوشل میڈیا میں کیا ہونا قانونی ہے اور کون سی تنقید قابل گرفت ہے۔ درحقیقت سوشل میڈیا نے جہاں ہماری سوچوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے، وہیں اس کے منفی پہلوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کرنے والے عناصر ان پلیٹ فارمز کے غلط استعمال کو پوری قوت سے اپنا ئے ہوئے ہیں ، قانونی کمزوریوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی اپنی پرائیوسی پالیسی میں ان کی اصول بھی ہر ایک کے لئے الگ الگ ہیں۔ سچائی اور دیانتداری کے کلچر جیسے مقفود ہوتا جارہا ہے اگر پاکستان میں دیکھا جائے تو اخلاقی اقدار تو زمین بوس ہوگئی ، جس کا جی چاہتا ہے، منہ اٹھا کر کچھ بھی بولے ، لکھے ، گالیاں بکے ، الزامات لگائے ، کوئی چیک بیلنس جیسے ہے ہی نہیں ، تنقید کے نام پر جس کلچر کو فروغ دیا گیا ہے ، وہ درست راہ پر صرف اسی صورت میں واپس آسکتا ہے جب تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی عائد کردی جائے ، اور ایسا کئے جانا قریباََ ناممکن ہے کیونکہ پابندیاں عائد کرنا بھی دیرپا حل نہیں۔
دنیا بھر میں جمہوری اقدار کے نام پر ایسے کسی بھی عمل کو پسند نہیں کیا جاتا ، سمجھنے سے قاصر ہوجاتے ہیں کہ ایک جانب امر کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کی اس دنیا میں سچائی کا کھوج کسی عام صارف کے لئے ممکن نہیں ، قومی میڈیا میں بیٹھے معروف شخصیات بھی سوشل میڈیا میں شہرت حاصل کرنے کے لئے کسی پر بھی جھوٹے الزام لگانے سے دریغ نہیں کرتے ۔ سوشل میڈیا ہمارے معاشرے میں اچھائی کے لیے ایک طاقت ور ٹول بھی ہے اور جو لوگ مملکت کے استحکام کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے، تاہم اس کے لئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ تاکہ سوشل میڈیا جو ایک خطرناک وائرس بھی ہے اسے صحیح طریقے سے استعمال کیا جا سکے تاکہ یہ معاشرتی ترقی اور فلاح و بہبود کا ذریعہ بن سکے، لیکن اس کا غلط استعمال جاری رہا تو یہ تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
بطور قوم اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ سوشل میڈیا ہمارے معاشرے میں اچھائی کے لیے ایک قوت بنا رہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ان چیلنجوں کا سامنا کیا جائے اور ملک کی ترقی اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے موثر اقدامات کئے جائیں۔ اس کے لءے سب سے پہلے ریاست کو سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ بیٹھ کر متفقہ لائحہ عمل اپنانا ہوگا ۔ ملکی سلامتی اور منفی راپیگنڈوں سے مقابلے کے لئے حکومت ہی نہیں بلکہ ملکی سلامتی و بقا کے لئے معاشرے کو بھی کچھ ذمے داری اٹھانا ہوگی۔ مثبت تنقید کو برداشت کرکی جھوٹے پراپیگنڈے کا توڑ کیا جاسکتا ہے، یہ ناممکن نہیں البتہ مشکل و دقت طلب مرحلہ ضرور ہے۔ تاہم یہ سوچ کر کہ کچھ نہیں ہوسکتا مدر پدر آزادی نہیں دی جا سکتی۔

جواب دیں

Back to top button