ColumnImtiaz Aasi

قانون سازی اور حکومتی مشکلات

امتیاز عاصی
حکومت نے رواں ہفتے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا ہے جس کا مقصد بعض اہم قانونی امور کو حتمی شکل دینا ہے۔ عام طور پر صدر مملکت اور وزراء اعظم کسی سیاسی شخصیت کے ہاں خوشی اور غمی کے موقعوں پر جاتے ہیں۔ صدر مملکت آصف علی زرداری کا جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ جا نا اور انہیں بندوق کا تحفہ پیش کرنا سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے چند روز قبل صدر مملکت کا جے یو آئی کے امیر کی رہائش گاہ جانے کا کوئی خاص مقصد ہو سکتا ہے۔ اگرچہ مولانا کے آصف علی زرداری اور نواز شریف کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں دونوں جماعتوں کے اقتدار میں وہ شریک اقتدار رہے ہیں ۔ وفاقی وزیر قانون عطاء تارڑ کے مطابق مشترکہ اجلاس میں نہ کوئی آئینی ترمیم لائی جا رہی ہے نہ ججز کی مدت ملازمت بڑھانے کا معاملہ زیر غور ہے۔ ایک ایسے وقت جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں بہت کم وقت رہ گیا ہے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اور صدر مملکت کا مولانا فضل الرحمن کے ہاں جانا اس امر کا غماز ہے حکومت کو قانون سازی میں مشکلات پیش آسکتی ہیں کیونکہ حکومت کے پاس سینٹ میں اکثریت کا فقدان ہے۔ دراصل یار لوگوں کو جسٹس منصور علی شاہ بطور چیف جسٹس قبول نہیں ہیں۔ سینیارٹی کے لحاظ سے وہ اس وقت سنیئر ترین جج ہیں سینیارٹی کے اعتبار سے انہی کو چیف جسٹس ہونا چاہیے لیکن لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے موقع پر حکومت نے جو کھیل کھیلا ہے اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس بات کا بہت کم امکان ہے حکومت جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس کے منصب پر ترقی دے گی۔ عجب تماشا ہے ایک طرف وکلا ججز کی تقرری میں سینیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھ کر چیف جسٹس کے عہدے پر سنیئر ترین جج کو ترقی دینے کے خواہاں ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے موقع پر وکلا ء برادری نے کسی قسم کا کوئی احتجاج نہیں کیا بلکہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی تقرری کا وقت بہت قریب ہے تعجب ہے وکلاء نے اس سلسلے میں سینیارٹی کے اصول کی بات نہیں کی جس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا حکومت نے وکلا برادری کو رام کر لیا ہے۔ ماضی پر نظر ڈالیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے جوڈیشل اصلاحات کیں اور جسٹس مولوی مشتاق حسین کی بجائے جسٹس سردار محمد اقبال کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا جس کے بعد چشم فلک نے دیکھا اسی مولوی مشتاق نے بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے سات جنرلز کو سپر سیڈ کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کو چیف آف آرمی مقرر کیا پھر اسی جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا۔ ہم قانون سازی کی بات کر رہے تھے اس وقت قانون سازی میں مولانا فضل الرحمن کا اہم کردار ہوگا ذرائع کے مطابق مولانا نے صدر زرداری سے کسی قسم کا وعدہ نہیں کیا ہے نہ ہی انکار کیا ہے۔ قانون سازی میں گیم مولانا کے ہاتھ ہے سینٹ میں ان کی جماعت کے پانچ ارکان ہیں۔ سیاست دان ایوان سے باہر آئین اور قانون کی باتیں کرتے ہیں ایوان میں پہنچنے کے بعد انہیں ذاتی مفادات کا بڑا خیال ہوتا ہے جس سے وہ حکومت کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مولانا قانون سازی میں رکاوٹ نہیں بنتے تو حکومت من پسند ترامیم کر سکتی ہے ایسی صورت میں آئین اور قانون کی بالادستی کی بات ختم ہو جاتی ہے۔ اس وقت ایوان بالا میں حکومت کے 59ارکان ہیں۔ ایوان بالا میں ارکان کی کل تعداد 96ہے حکومت کو قانون سازی کے لئے 64 ارکان کی ضرورت ہوگی گویا جے یو آئی ایوان بالا میں قانون سازی کے سلسلے میں اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ ان حالات میں مولانا کا بڑا امتحان ہے وہ اس امتحان میں کیسے سرخرو ہوتے ہیں جس کا بہت جلد پتہ چل جائے گا۔ بظاہر مولانا فضل الرحمان کا شمار اس وقت حکومت کے ناقدین میں ہوتا ہے۔ ان کی جماعت ایوان بالا میں حکومت کا ساتھ دیتی
ہے تو ایسی صورت میں ان کا یہ طرز عمل عوامی حلقوں میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا۔ جے یو آئی پی ڈی ایم کے دور میں حکومت کے ساتھ تھی جے یو آئی کے ارکان کو اہم عہدوں سے نوازا گیا۔ یہ اور بات ہے گزشتہ انتخابات میں جے یو آئی کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ مولانا فضل الرحمان اپنے آبائی حلقے میں شکست سے دوچار ہوئے لیکن بلوچستان میں قلات کے حلقہ سے انہیں کامیابی ملی تھی۔ حکومت سینیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھ کر چیف جسٹس کی تقرری کرتی ہے تو جسٹس منصور علی شاہ آئندہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے مگر اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ انہیں چیف جسٹس مقرر کیا جائے گا۔ ہمارے خیال میں اس بات کا قومی امکان ہے حکومت ججز کی مدت ملازمت میں اضافہ کر سکتی ہے جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے عہدے پر مزید برقرار رہ سکیں گے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے ریاست پاکستان میں آئین اور قانون کی بالا دستی کا ہمیشہ فقدان رہا ہے۔ حکومت وقت نے آئین اور قانون میں من پسند ترامیم کو اقتدار کی کنجی سمجھ کر آئینی ترامیم کیں جس سے 1973ء کے آئین کا حلیہ بگڑ گیا ہے۔ موجودہ حکومت نے پی ڈی ایم کے دور میں نیب قوانین میں من پسند ترامیم کرکے نیب کے پر کاٹ دیئے ہیں۔ جس ملک میں پچاس کروڑ کو کرپشن نہ سمجھا جائے ایسے ملکوں سے کرپشن کا خاتمہ خواب ہو سکتا ہے۔ یہ بات درست ہے عدلیہ میں کوئی فرشتے نہیں ہیں عدلیہ میں ججز کی تقرری سیاسی حکومتیں کرتی ہیں۔ اگر ججز کی تقرری کے وقت ان کی ساکھ اور اہلیت کو مدنظر رکھا جائے تو عدلیہ میں ہونے والی مبینہ گڑبڑ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں جنہیں مدنظر رکھ کر عدلیہ میں تقرریاں کی جاتی ہیں۔ سیاسی رہنمائوں کی بڑی تعداد کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات قائم ہوئے لیکن ان کا فیصلہ خواب بن گیا جو اس بات کا بین ثبوت ہے عدلیہ میں تقرری کی وقت اہلیت کی بجائے سفارش کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ بہرکیف آئندہ چند روز میں مولانا فضل الرحمان کی اصولی سیاست کا عوام کو علم ہو جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button