بلوچستان میں پنجابیوں کا خون ضرور رنگ لائے گا

رفیع صحرائی
گزشتہ روز بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں اندوہ ناک واقعہ پیش آیا ہے جب عسکریت پسندوں نے پنجاب اور بلوچستان کے درمیان چلنے والی بسوں سے مسافروں کو اتار کر ان کے شناختی کارڈز چیک کیے اور 23مسافروں کو الگ کر کے گولیوں سے بھون ڈالا۔ 22افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ ایک مسافر بعد میں دم توڑ گیا۔ مزید چار افراد گولیاں لگنے سے زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ ضلع موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ ہاشم میں پیش آیا۔ ہلاک ہونے والے تمام مسافروں کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر موسیٰ خیل نجیب اللہ نے بتایا کہ جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے وہ علاقہ پولیس کے زیرِ انتظام ہے۔
موسیٰ خیل بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے شمال مشرق میں قریباً ساڑھے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس علاقے کی آبادی کی غالب اکثریت پشتونوں کے موسیٰ خیل قبیلے پر مشتمل ہے۔ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگتی نے موسیٰ خیل واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ دوسری طرف وزیرِ داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند اور ان کے سہولت کار عبرت ناک انجام سے نہیں بچ پائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردوں نے معصوم لوگوں کو نشانہ بنا کر بربریت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جناب وزیرِ اعلیٰ بلوچستان اور محترم وزیرِ داخلہ اس سے زیادہ کچھ کہہ بھی کیا سکتے ہیں۔ یہ وہی رٹے رٹائے جملے ہیں جو ہر سانحے کے بعد دہرائے جاتے ہیں۔ دونوں ہی جانتے ہیں کہ بلوچستان میں جاری دہشت گردی کو روکنا ان کے بس سے باہر ہے۔ یہ بہت اوپر کا معاملہ ہے جس کے پیچھے ہمارے سابق حکمرانوں کی عاقبت نااندیشیاں ہیں۔ جناب وزیرِ اعلیٰ کا واقعے کی رپورٹ طلب کرنا بھی محض فارمیلٹی اور ان کے منصب کا تقاضا ہے ورنہ اسی صوبے کے ایک بڑے سردار ہونے کی حیثیت سے ان سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔ یہ رپورٹ صرف خانہ پری کرنے کے لیے ہی طلب کی گئی ہے۔
بلوچستان میں پنجابیوں کے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی بہت سے ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جب پنجابیوں کو ٹارگٹ کیا گیا اور اجتماعی طور پر ان کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ مرنے والوں کا کوئی قصور تھا نہ ہی وہ دہشت گرد تھے۔ صوبہ بلوچستان کو ان سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ وہ تو اپنے خاندان کے لیے روزی روٹی کمانے کی خاطر بلوچستان میں اپنی خدمات کے ذریعے اس صوبہ کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ وہ سب محنت مزدوری کرنے والے یا ملازمت پیشہ عام افراد تھے۔ بلوچستان کے وسائل یا زمینوں پر قبضہ
کرنے کا انہوں نے کبھی خواب بھی نہ دیکھا تھا۔ وہ تو بلوچستان کے لوگوں کی اور صوبے کی خدمت کر رہے تھے۔ اس صوبے کے مہمان تھے۔ مہمانوں کی جان و مال کی حفاظت بلوچوں اور پٹھانوں کی روایت رہی ہے۔ یہ لوگ جان دے دیتے ہیں لیکن اپنے مہمان پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اپنے خدمت گزاروں کی جان کے یہ لوگ دشمن ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ آج سے شروع نہیں ہوا، قریباً تین دہائیوں سے چلا آ رہا ہے تاہم گزشتہ چند سالوں سے اس کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس چیز نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا بلوچ شدت پسندوں کی صلاحیت میں اضافہ ہو گیا ہے جو ان کی متشدد کارروائیاں تواتر، تیزی اور شدت سے جاری ہیں۔ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مسلح افراد کے حملوں کے علاوہ بم دھماکوں کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ قلات شہر کے قریب ہونے والے حملوں میں اسسٹنٹ کمشنر قلات معمولی زخمی ہوئے جبکہ جیونی میں پولیس تھانے کے باہر تین گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ ضلع مستونگ میں بھی نامعلوم مسلح افراد نے کھڈ کوچہ کے علاقے میں لیویز فورس کے ایک تھانے پر حملہ کیا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شاہراہوں پر مسلح افراد کی موجودگی کے باعث ٹریفک معطل رہی ہے۔
یہ حالات ظاہر کرتے ہیں کہ شدت پسندوں کا کوئی دین، مذہب یا قومیت نہیں ہوتی۔ کوئی ان کا اپنا نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک ہر سامنے آنے والا شخص محض ایک شکار ہوتا ہے جس کی جان انہوں نے لینی ہوتی ہے۔ پنجابی حضرات اپنی کسی غلطی، سازش یا سوچ کی وجہ سے ان کے شکار نہیں ہوتے بلکہ ان کی ٹارگٹ کلنگ اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ پنجابیوں کے قتل سے ان کے مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ شور زیادہ اٹھتا ہے۔ سب سے بڑا مقصد تو یہی ہے کہ دونوں صوبوں کے عوام میں ایک دوسرے کے لیے نفرت پیدا کی جائے۔ یہ بڑی نازک صورت حال
ہے۔ عوام کو ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ مذموم ایجنڈے پر کام کرنے والے ان کے درمیان دوریاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ پنجابی صوبہ بلوچستان میں محفوظ نہیں ہیں تاکہ حکومت اور فوج پر دبائو بڑھایا جا سکے کہ وہ دیشت گردی کے خلاف بلوچستان میں جاری آپریشن سے ہاتھ اٹھا لیں۔ پنجابی لوگ معصوم ہوتے ہوئے بھی بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں اور غیر ملکی ایجنٹوں کے خلاف پاک فوج کے ہونے والے آپریشنز رکوانے کے مقصد کے تحت قربان ہو رہے ہیں۔ پاکستان مخالف قوتیں نہیں چاہتیں کہ صوبہ بلوچستان میں دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کے خلاف آپریشن ہو۔ بلوچستان میں ہندوستانی ایجنسی را پوری طرح سرگرم ہے اور علیحدگی پسندوں کی ساتھ ساتھ دہشت گردوں کی بھی پشت پناہ ہے۔ پاکستان کی سیکرٹ سروسز اور فوج ان دہشت گردوں کی ریڑھ کی ہڈی توڑنے کے لیے کامیاب کارروائیاں کر رہی ہیں۔ پاک فوج کو پے در پے کامیابیاں مل رہی ہیں جس سے پاکستان مخالف قوتیں گھبرا گئی ہیں۔ دہشت گردی کی کارروائیاں اور پنجابیوں کا قتل ان کی بوکھلاہٹ ہی کا نتیجہ ہے۔ پنجابیوں کا خون ایک دن ضرور رنگ لائے گا۔ ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب پورے پاکستان سمیت بلوچستان بھی امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ اس کے لیےپاک فوج چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے۔ ایک طرف وہ علیحدگی پسند قوتوں اور دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے تو دوسری طرف ان کے پشت پناہ مقامی سہولت کاروں کی سرکوبی کر رہی ہے۔ دشمن ملک بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی را کے ایجنٹ میری فوج کے نشانے پر ہیں تو ہمارے اندر چھپی ہوئی کالی بھیڑوں سے بھی فوج غافل نہیں ہے۔ دوسری طرف ان معصوم نوجوانوں کی قومی دھارے میں شمولیت بھی پاک فوج کے مدنظر ہے جو ملک دشمنوں کے بہکاوے میں آ کر اپنے ہی لوگوں اور دھرتی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ لڑائی مشکل ہی نہیں ہوش مندی کی بھی متقاضی ہے۔ پنجاب تین دہائیوں سے بلوچستان کی دھرتی سے اپنے بیٹوں کی خون میں نہلائی ہوئی لاشیں اٹھا رہا ہے۔ یہ وطن دشمنوں اور دہشت گردوں کے لیے واضح پیغام بھی ہے کہ پنجاب ہارا ہے نہ مایوس ہوا ہے۔ پنجابیوں کی لاشیں ٹوٹی تسبیح کے دانوں کو دوبارہ ایک ہی لڑی میں پرونے کی کوشش کا پیغام ہے۔ یہ کوشش رائگاں نہیں جائے گی۔ پاکستان ایک روز ضرور امن کا گہوارہ بنے گا۔ ان شاء اللّٰہ





