کھلاڑی ، امپائر اور کھیل کا میدان

تحریر : روشن لعل
کرکٹ کے کھیل میں تو محدود اوروں کے میچ محدود تر ہوتے جارہے ہیں مگر پاکستان میں طویل عرصے سے ایک ایسا میچ جاری ہے جس میں اوروں اور وقت کی کوئی حد نظر نہیں آتی۔ وقت کی معین حد سے آزاد اس میچ پر جس قدر زیادہ غور کیا جائے اسی قدر یہ بات سمجھنا مشکل تر ہو جاتا ہے کہ کونسا کھلاڑی کس ٹیم کی طرف سے کھیل رہا ہے ۔ کھلاڑیوں کی طرح امپائروں کے متعلق ، ایک تو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ وہ کھلاڑی زیادہ ہیں یا امپائر زیادہ ہیں اور دوسری بات یہ کہ انہیں کسی نے نیم امپائر یا ادھورا کھلاڑی کسی قاعدے اور ا ضابطہ اخلاق کے تحت بنایا ہے یا یہ خود سے ہی سب کچھ بن بیٹھے ہیں۔ اس میچ کے تماشائی بھی کھلاڑیوں اور امپائروں کی طرح ہی عجیب و غریب ہیں ، یہاں رنگ برنگے تماشائیوں کی اکثریت پچ کی صورتحال، گیند کی بوسیدہ حالت اور گرائونڈ کی ناہمواریوں کو مد نظر رکھ کر کھلاڑیوں کی کارکردگی نہیں پرکھتی بلکہ کسی کھلاڑی کا پرستار بننے کے لیے صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے بے تحاشا میک اپ کر کے خود کو کس قدر ہینڈ سم بنایا ہوا ہے۔ کبھی نہ ختم ہونے کی طرف جاتے ہوئے اس میچ کے صرف کھلاڑی، امپائر اور تماشائی ہی نرالے نہیں بلکہ مبصر بھی انوکھے ہیں۔ مبصر ایسے انوکھے ہیں کہ انہوں نے نہ صرف کچھ کھلاڑیوں کو اپنا انوکھا لاڈلا بنایا ہوا بلکہ وہ خود بھی کسی نہ کسی کے انوکھے لاڈلے ہیں۔ یہ مبصر ایسے انوکھے ہیں کہ گرائونڈ کے کسی ایک حصے میں بارش برسنے پر تو تباہی بربادی کا شور مچا دیتے ہیں مگر اسی طرح کی بارش دوسرے حصے میں برسے تو موسم خوشگوار ہونے کا تاثر دینے لگتے ہیں۔
خاص گرائونڈ کی خاص حالت میں خاص کھیل کھیلتے ہوئے اپنی خاص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں، امپائروں، تماشائیوں اور مبصروں نے مل جل کر جو حالات پیدا کیے ہیں اس میں کسی کے لیے بھی داد حاصل کرنے کی زیادہ گنجائش موجود نہیں ہے ۔ اس طرح کی گنجائش نہ ہونے کے باوجود ہر کھلاڑی، امپائر اور مبصرے اپنے زیر اثر حلقے کے لوگوں کی داد کا طالب نظر آتا ہے۔ داد کے طالب صرف یہ تینوں ہی نہیں بلکہ بعض ایسے تماشائی بھی ہیں جنہوں نے ان ہی کی طرح کی خواہشیں پال رکھی ہیں اور ان تماشائیوں کو اگر کوئی ان کی خواہش کے مطابق داد نہ دے تو رد عمل میں یہ اس کا ناطقہ تک بند کرنے کی کوشش کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کہیں سے خیر برآمد ہونے کی رتی برابر امید باقی نہیں رہتی۔ خیر کی رتی برابر امید نہ ہونے کے باوجود اگر کوئی یہ کہتے ہوئے خود کو پیش کرے کہ وہ یکایک کھیل کا پانسہ پلٹے کی صلاحیت رکھتا ہے تو حیرت اس کے کہنے سے زیادہ ان پرستاروں پر ہوتی ہے جو اس کی کہی ہوئی سابقہ باتوں کے سو فیصد جھوٹ ثابت ہونے کے باوجود اس کے نئے دعووں پر یقین کر لیتے ہیں۔یہ حقیقت یہاں ہر خاص و عام پر عیاں ہو چکی ہے کہ امپائروں کی کئی دہائیوں سے جاری من مانیوں کی وجہ سے کھیل اور کھیل کا میدان انتہائی دگر گوں حالات کا شکار ہو چکے ہے ۔ مگر یاد رہے کہ یہ کھیل اور کھیل کا میدان ہمیشہ سے اتنا بگڑا ہوا نہیں تھا کہ اس کا ہر معاملہ ہی ناقابل اصلاح قرار دے دیا جائے۔ جب اصلاح کی گنجائش موجود تھی اس وقت کئی ہوشمندوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کھیل کو سپورٹس میں سپرٹ کے ساتھ اسی طرح طے شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق کھیلا جائے جس طرح بیرونی دنیا میں کھیلا جاتا ہے۔ ان ہوش مندوں کی باتوں کو بری طرح نظر انداز کرتے ہوئے یہاں کھیل کو ایسے طریقوں سے جاری رکھا گیا جس میں پسندیدہ کھلاڑیوں کے فائول کو کبھی فائول نہیں کہا گیا۔ اس کے برعکس ، ناپسندیدہ کھلاڑیوں کی ان حرکتوں کو بھی فائول قرار دیا جاتا رہا جو سپورٹس میں سپرٹ کا بہترین نمونہ تھیں۔ امپائروں کے ایسے رویوں کو خاص قسم کے مبصر غلطی تسلیم کرنے کی بجائے عمل صالح قرار دیتے رہے۔ ان حالات میں نئے پیدا ہونے والے کھلاڑیوں کو بالواسطہ طور پر یہ پیغام دیا گیا کہ اس کھیل میں کامیابی کا امکان صرف اسی کا ہوگا
جو امپائروں سے مل کر ان کی مرضی کے مطابق کھیلے گا۔ اس طرح کا کھیل ایک خاص وقت تک امپائروں اور منظور نظر کھلاڑیوں کے خاص تال میل سے جاری رہا ۔ اس تسلسل میں جب کچھ کھلاڑیوں نے خود سر ہونے کی کوشش کی تو نئے امپائروں نے خاص مقاصد کے تحت نئے کھلاڑی تلاش کرنا شروع کر دیئے۔ نئے کھلاڑیوں نے پرانے کھلاڑیوں اور پرانے امپائروں کو تو تنقید کا نشانہ بنایا مگر جو نظام کھلاڑیوں اور ایمپائروں کے تال میل کی بدولت قائم ہوا اسے بدستور سینے سے لگائے رکھا۔ پرانے کھلاڑیوں نے جب کھیل کا میدان اپنے لیے تنگ اور نئے کھلاڑیوں کے لیے کشادہ ہوتے ہوئے دیکھا تو اسی نظام پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں جس کی بدولت کھیل کے میدان میں ان کی پیدائش اور پرورش کی گئی تھی۔ پرانے کھلاڑیوں کی کھیل میں ترقی بلا شبہ ایمپائروں کی مرہون منت تھی مگر انہوں نے سب کچھ عیاں ہونے کے باوجود ہمیشہ یہ کوشش کی کہ انہیں پروان چڑھانے والے امپائروں کے کردار پر پردہ پڑا رہے ۔ نئے کھلاڑیوں اور پرانے کھلاڑیوں کے کردار کا ایک فرق یہ بھی ہے کہ پرانے کھلاڑی تو پرنے امپائروں کے کردار پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے مگر نئے کھلاڑی بھرے مجمع میں اپنے حریف کھلاڑیوں کے خلاف نئے امپائر کی انگلی اٹھنے کا اعلان کر دیتے ہیں۔
نئے اور پرانے کھلاڑیوں کی اس چپقلش کے دوران یہ نعرہ بلند ہوا کہ فریقین کی داد رسی کے لیے ضروری ہے کہ تھرڈ امپائر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ تھرڈ امپائر کے اس کردار کے لیے نئے اور پرانے کھلاڑیوں نے مل کر تو نہیں مگر ایک جیسے لب و لہجے میں آوازیں بلند کیں۔ پرانے کھیل میں تھرڈ ایمپائر وارد ہونے کے بعد ان کا کردار بھی دیگر امپائروں جیسا ثابت ہوا۔ پرانے امپائروں کی طرح تھرڈ امپائروں نے بھی کھلاڑیوں سے تال میل قائم رکھنے کے لیے پسند اور ناپسند کو ہی معیار بنایا۔ جب ہر قسم کے امپائروں سے تال میل رکھے بغیر کھیل کے میدان میں جیتنا تو دور کی بات کھڑے رہنا بھی ممکن نہ رہا تو کچھ ایسے کھلاڑی بھی امپائروں کے قریب آگئے جو امپائروں سے تال میل قائم کر کے کھیلنے کے سخت مخالف سمجھے جاتے تھے۔
کھلاڑیوں، امپائروں ، تماشائیوں اور مبصروں کے باہمی تال میل اور چپقلشوں کے نتیجے میں حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ جو تقسیم پہلے صرف کھلاڑیوں میں نظر آتی تھی اب امپائر بھی اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس تقسیم کی گہرائی سے مبصر اور تماشائی بھی دور نہیں رہ سکے۔ کھیل کے میدان میں برسرپیکار کسی گروہ کو اس بات کا احساس نہیں کہ ان کی تقسیم در تقسیم کا کھیل ، کھیل میدان کو کس حد تک متاثر کر رہا ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کھلاڑیوں، مبصروں، تماشائیوں اور امپائروں کی گہری ہوتی ہوئی تقسیم کی وجہ سے کھیل کے میدان کی بربادی کا اس حد تک امکان پیدا ہو چکا ہے کہ دشمنوں نے نہ رہے گا بانس نہ بجے کی بانسری جیسی باتیں کرنا شروع کر دی ہیں۔