ثقافت پر فخر یا شرمندگی: ایک تجزیہ

تحریر : آصف علی درانی
ثقافت ایک وسیع ٹرمنالوجی ہے لیکن ہم اسے اکثر بہت مختصر طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ثقافت میں ہمارے رہن سہن، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، اور زندگی کا طرز عمل سب کچھ شامل ہوتا ہے۔
ثقافت کسی بھی ملک کی پہچان ہوتی ہے یعنی اگر آپ اپنی ثقافت سے جڑے ہیں، تو آپ کو دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور آپ کی ثقافت بھی دنیا میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کرتی ہے۔ لیکن اگر آپ اپنی ہی ثقافت پہ شرمندگی محسوس کرتے ہیں تو پھر آپ کی شناخت اس طرح سے نہیں رہے گی لوگ بھی آپ کو اس طرح سے وہ عزت نہیں دیں گے ، لوگ بھی آپ سے کتراتے رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ثقافت انسان کی شناخت میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ اگر ہم اقوام کو دیکھ لیں، خاص کر ہم بین الاقوامی اقوام کو تو ان کا جتنا بھی جھگڑا ہے وہ صرف اور صرف یہی ثقافت پر ہے وہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے ہماری زبان ہمارا طور طریقہ وہ باقی اقوام اپنا لیں۔ اور اسی طرح سے وہ ان کے مطابق نظر آنے لگیں وہ ان کے مطابق زندگی جینے لگیں اور ان کی اپنی کوئی شناخت نہ ہو یعنی ہم میں بھی وہ لوگ اپنا آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی ان کی طرح بن جائیں تو اس سے کیا ہوگا کہ ثقافت چونکہ ایک شناخت ہوتی ہے تو اس شناخت سے پھر یہ ہوتا ہے کہ پوری دنیا کے اندر جو چیز پھر معرض وجود میں آتی ہے تو اس کو ہم اپنی زبان میں کلچرل امپیریلزم کہتے ہیں۔
یعنی کہ ایک ثقافت اٹھتی ہے اور باقی جتنی بھی ثقافتیں ہوتی ہیں ان تمام تر ثقافتوں کو روندتے ہوئے وہ ثقافت اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔ اور پھر کیا ہوتا ہے کہ اس ثقافت کے آپ متقاضی ہو جاتے ہیں اس کے متلاشی ہو جاتے ہیں ، وہی ثقافت آپ کو کیا کرتی ہے کہ آپ کو اپنی ثقافت پہ شرم کرنے پہ مجبور کیا جاتا ہے ایسی بہت سی چیزیں ثقافت کے اندر ہوتی ہیں کہ اس میں آپ شرم محسوس کرتے ہیں یعنی ہم دور نہیں جائیں گے آپ سادہ مثال یہ لے لیں کہ آج سے کئی سالوں پہلے ہماری خواتین کس طرح کا لباس پہنتی تھیں ، یونیورسٹیوں میں اس کا آنا جانا پڑھائی کرنا اور رویہ کیسا تھا اور آج کل خواتین کو دیکھ لیں، وہ کس طرح کا لباس پہنتی ہیں۔ اگر تعلیمی اداروں کی بات کروں تو وہاں ان کا اخلاق، اٹھنے بیٹھنے کا انداز ، تعلقات ، زبان کس طرح ہوتی ہے تو یہ سب کیا ہے کہ انہوں نے مغرب کے طرز زندگی کو اپنا لیا ہے ان کو مشرق کی طرز زندگی اپناتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ بالفرض اگر کوئی خاتون مشرقیت کے طرز کو اپناتی ہے تو اس کو بری نظر سے دیکھا جاتا ہے، معاشرے میں زیادہ تر افراد اس کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے وجہ کیا ہے کہ پھر وہ اس معاشرے کا حصہ نہیں بنتی لیکن وہ لوگ جو اپنی ثقافت کو بھول جاتے ہیں اور غیروں کی ثقافتوں کو اپنانے لگتے ہیں تو ان کو اس چیز پہ بڑا فخر محسوس ہوتا ہے کہ لوگ مجھے ماڈرن کہیں گے یا کہیں گی لوگ مجھے جدید سوچ کا مالک کہیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ حالانکہ کوئی اس طرح کا لباس پہننے سے جدید سوچ کا مالک نہیں بن جاتا، جدید سوچ کا مالک بہت سادہ لوگ ہوتے ہیں ، وہ سادہ اور بھولی بھالی زندگی گزارتے ہیں لیکن دماغ ان کا کافی وسیع ہوتا ہے ان کے دماغ میں کافی تندرست طریقے سے اچھی سوچیں پرورش پاتی ہیں وہ بہت ساری بری باتوں کو اچھے انداز میں برداشت کر لیتے ہیں اور بہت ساری ایسی باتیں جو ناقابل برداشت ہوتی ہیں اس کو بھی وہ خندہ پیشانی کی ساتھ برداشت کر لیتے ہیں۔
کلچر ایمپیریلزم کا ہمارے اوپر کیا اثر پڑا ہے تو اس میں ہمارے پاس پھر دو گروپس آتے ہیں کلچرل اپریلزم سے جو لوگ زیادہ شکار Xenocentrism وہ زینوسنٹرسم ہوتے ہیں۔
زینوسنٹرسم یونانی لفظ ہے زینوسنٹرسم کا مطلب یہ ہے کہ جہاں لوگ دوسرے اقوام یا معاشروں کی ثقافت، فنون یا مصنوعات کو اپنی مقامی ثقافت یا مصنوعات سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
وہ لوگ جو اپنی ثقافت پہ بڑا شرم محسوس کرتے ہیں اس کی آسان سی مثال میں آپ کو یہ دوں گا آج کل بہت سے ایسے گھرانے ہوں گے جن کو کھانے کے لیے روٹی میسر نہیں ہو گی لیکن وہ اپنے لیے برینڈڈ چیزیں خریدیں گے جو موبائل ان کے ہاتھ میں دیکھ لیں تو مشہور برینڈ کا موبائل جو ہماری دسترس سے باہر ہے وہ لوگ کوشش کریں گے کہ اس طرح کے موبائل کو خرید لیں ۔ کیونکہ معاشرے میں ان کو ایک طرح سے عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے اور وہ سمجھتے ہیں کہ عزت انہی چیزوں میں ہے اور اگر آپ کے پاس یہ چیزیں ہوں گی تو تبھی لوگ آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔
آپ دیسی ڈھابے پہ کھانا نہیں کھاتے آپ جا کے کسی بڑے سے ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں حالانکہ آپ کے پاس پیسے اتنے نہیں ، لیکن چونکہ آپ زینوسنٹس ہے آپ کو اپنی ثقافت سے شرم محسوس ہوتی ہے اور آپ غیروں کی ثقافت سے متاثر ہوتے ہیں تو اب پھر انہی کے طریقے جو ہیں وہ اپناتے ہیں اور یہی طور طریقے پھر کیا کرتے ہیں کہ آپ کو ایک ایسے مقام پر لاکر کھڑا کر دیتے ہیں کہ پھر آپ نا ادھر کے رہتے ہیں نا ادھر کے رہتے ہیں یعنی اس سٹیج میں تو آپ کو اس چیز کا اندازہ نہیں ہوتا لیکن آگے جا کے پھر آپ کو اس چیز کے بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زینوسنٹس ہمیں نہیں بننا چاہیے بلکہ ہمیں اپنی ثقافت پہ فخر کرنا چاہیے۔
دوسراگروپ Ethnocentrism ( اتنو سنترزسم ) کا ہے ۔یہ وہ گروپ ہے جو کہ مغربی تہذیب کو یا باقی جتنی بھی ثقافتیں ہیں ان کو یہ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور ان کو اپنی ہی ثقافت پہ فخر محسوس ہوتا ہے اور ان کو لاکھ کوئی طعنے دے تو ان کی طعنوں کی فکر نہ کرتے ہوئے یہ لوگ بڑی خوشی کے ساتھ اپنی سادہ زندگی اپنی ثقافت میں خوش رہتے ہیں اپنی ثقافت کے تحت اپنی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی زندگی کو اگر زینوسنٹس کے مقابلے میں دیکھا جائے تو ان کی بہت خوش زندگی ہوتی ہے، بہت خوشحالی والی زندگی یہ لوگ بسر کر رہے ہوتے ہیں ۔ اور ان لوگوں کے طرز زندگی کو دیکھ لیں تو ان جیسے لوگ کافی مہمان نواز اور خوش دل بھی ہوتے ہیں ان جیسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا آپ کو اچھا بھی لگتا ہے کیونکہ اصل میں حقیقی زندگی یہی لوگ جیتے ہیں کیونکہ یہ لوگ ملاوٹ والی زندگی بسر نہیں کرتے۔ اگر موڈرنزم کی بات کریں تو موڈرنزم کپڑے سے نہیں آتا موڈرنزم باقی جتنی بھی چیزیں ہیں وہ ان سے نہیں آتا ۔موڈرنزم اصل میں آپ کی سوچ میں ہونی چاہیے، ماڈرنزم لباس میں نہیں ہونی چاہیے ، ماڈرنزم آپ اپنی سوچ میں لے آئیں۔ موڈرنزم آپ اپنی زندگی میں اس طریقے سے آ سکتا ہے کہ کوئی آپ کو گالی دے تو آپ اس کا جواب نہ دیں بلکہ آپ ان کو ایک سمائل دیں، کوئی آپ کو بری باتیں سنائے تو آپ ان پہ کوئی ری ایکٹ نہ کریں بلکہ آپ آرام و تحمل سے ان کو نظر انداز کریں یہ موڈرنزم نہیں ہے کہ آپ نے اچھا لباس پہنا ہوا ہے لیکن منہ آپ کا اپنے کنٹرول میں نہیں ، برینڈڈ موبائل فون آپ نے ہاتھ میں لیا ہوا ہے لیکن آپ کا اخلاق صحیح نہیں ہے اور بھی بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جو کہ لوگ اس پہ فخر کرتے ہیں کہ ہم موڈرن ہیں تو ماڈرن جو ہم اس زمانے میں دیکھتے ہیں تو یہ ماڈرنزم اصل میں یہ جہالت ہے بلکہ جہالت سے بھی کئی درجے نیچے چلے گئے ہیں اور جس کو ہم ماڈرنزم کہتے ہیں یہ ماڈرنزم جہالت کی دوسری قسم ہے۔
ہمارے معاشرے کے اندر جب ہم دوسرے کلچر کو فروغ دیں گے اور اپنے کلچر یا ثقافت پہ ہم شرم محسوس کریں گے تو ہمارے معاشرے کے اندر جتنے بھی لوگ ہوں گے جو کہ باہر کی ثقافت سے متاثر ہوتے ہیں تو ان کے اندر احساس کمتری پیدا ہوگا، احساس کمتری کا وہ لوگ شکار ہوں گے۔
زینوسنٹزم کا ایک نقصان یہ ہے کہ اس نے ہمارے معاشرے کے زیادہ تر افراد کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہیں۔ دوسری طرف اس نے ہمیں جدیدیت کی جانب مائل کر دیا تو تیسری جگہ پہ وہ ہمیں معاشرتی ناہمواری کی جانب بھی لے کر چلا گیا کیونکہ انسان پیسے کی ہوس میں غریب رشتہ داروں سے ملنا جلنا چھوڑ دیتا ہے اور جو امیر لوگ ہوتے ہیں ان کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں تو اس سے اس کو پیسوں کی ہوس شروع ہو جاتی ہے وہ دوسروں کا حق سلب کرنے لگتا ہے تو جب دوسروں کا حق سلب کیا جائے گا تو اس سے معاشرے کے اندر ناانصافی پیدا ہوگی، ناہمواری پیدا ہوگی تو امیر امیر تر ہوتا جائے گا اور غریب غریب تر ہوتا جائے گا ۔
زینوسنٹزم کا ایک نقصان ماڈرنزم کی صورت میں ہے کیونکہ جتنے بھی ’’زینوسنٹرسٹ‘‘ ہیں وہ اپنے اپ کو ماڈرن کہتے ہیں اور اسی لحاظ سے اگر دیکھا جائے انہوں نے اپنے اوپر ایک مصنوعی خول ڈال رکھا ہے اور اپنی اس کی جو حقیقی شخصیت ہوتی ہے اس نے اس کو پس پردہ کر دیا ہے اور جو وہ نہیں ہے وہ اپنے آپ کو وہ لوگوں کے سامنے دکھا رہا ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک طرح سے بیماری ہے کہ انسان اپنے اوپر ایک مصنوعی خول چڑھائے اور اپنی اصلی شناخت کو چھپائے تو اس میں بھی زینوسنٹزم کا کافی ہاتھ ہے کہ انسان لباس کے لحاظ سے اپنے آپ کو یہ سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کا ایک عظیم انسان ہے حالانکہ یہ ماڈرنزم نہیں بلکہ جہالت کی ایک قسم ہے۔





