عزم استحکام

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض)
تحریک پاکستان کی جدوجہد پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت عیاں ہے کہ اس پوری تحریک میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کسی ایک بھی موقع پر قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور اپنی پوری جدوجہد کو قانونی دائرے میں رکھتے ہوئے، ایک بے مثال کامیابی حاصل کی۔ گو کہ اکثر ناقدین اس کامیابی کو نامکمل تصور کرتے ہیں کہ کئی ایک ایسے شہر/علاقے، جنہیں تقسیم کے فارمولا کے مطابق پاکستان کا حصہ ہونا چاہئے تھا، اس میں شامل نہیں بلکہ کسی حد تک اس وجہ سے دونوں ممالک ( پاکستان و ہند) میں تعلقات، قائد اعظمؒ کی خواہش کے برعکس ، آج تک معاندانہ ہی دکھائی دیتے ہیں اور قائد اعظمؒ کی صحت سے دانستہ صرف نظر کرتی دکھائی دیتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس وقت قائد اعظمؒ اس آزادی کو تسلیم نہ کرتے تو ممکنہ طور پر ہم آج برصغیر میں ہندوئوں کی غلامی میں زندگی گزار رہے ہوتے۔ بہرکیف ان حقائق سے چشم پوشی کرنے والے نجانے کس دور کی کوڑی لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ 1947ء میں آزادی تسلیم نہ کی ہوتی تو آج مسلمانوں کی حالت زار کہیں بدتر ہوتی تاہم بغور دیکھا جائے تو ان معاندانہ تعلقات کی بڑی وجہ غیر منصفانہ تقسیم کے علاوہ بھی ہیں کہ جو ضبط تحریر میں لانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں لیکن پاکستانیوں کی اکثریت اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے۔ جمہوری اقدار سے معرض وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کے متعلق یہ قول زبان زد عام رہا ہے کہ اپنے ابتدائی ادوار میں یہاں جمہوریت وقفوں سے عوام کو نصیب رہی ہے اور وہ بھی ایسی جمہوریت کہ جس میں جمہوری اقدار کا قتل عام ہی ہوتا نظر آیا ہے جبکہ سویلین حکومت کے اختیارات نہ ہونے کے برابر رہے ہیں۔1958۔1971تک کا دور تو سب کو معلوم ہے کہ کس طرح تحریک پاکستان کے کہنہ مشق سیاسی کارکنان کو دیوار سے لگایا گیا، جس سے مشرقی پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کا مکمل کنٹرول اور بعد ازاں علیحدگی جبکہ مغربی پاکستان میں بھٹو حکومت کا قیام، اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی کہ بھٹو کی سویلین حکومت کو پاکستان میں آخری جمہوری حکومت کہا جا سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس جمہوری حکومت کے اقدامات کو کسی بھی طور جمہوری نہیں کہا جا سکتا کہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس دور میں جس قدر انتقامی کارروائیاں ، سیاسی مخالفین کے خلاف کی گئی، اس نے بھٹو جیسے قد آور سیاسی رہنما کی شخصیت کو گہنا دیا اور آج بھی معدودے چند ایسے افراد موجود ہیں، جو اس دور میں انتقامی کارروائیوں کا شکار بنے۔ بعد ازاں کسی ایک بھی سیاسی جماعت کو بجا طور سیاسی و جمہوری جماعت نہیں کہا جا سکتا کہ ہر آنے والی حکومت کے لئے طاقت کے ماخذ سے قبولیت بنیادی شرط ٹھہری کہ اس کے بغیر لاکھ مقبولیت ہو، حکومت کی بجائے کال کوٹھڑی ہی مقدر دکھائی دیتی ہے۔ مقتدرہ کی نرسری سے تربیت یافتہ سیاسی اشرافیہ کے لچھن، کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور ساری قوم ان سے بخوبی واقف ہے کہ کس طرح نہ صرف جمہوری اقدار کو نیست و نابود کیا گیا ہے بلکہ مخالفین کے لئے مقدمات کی بھرمار سے زمین تنگ کر دی جاتی ہے کہ ان کے لئے سانس لینا بھی ممکن نہیں رہتا۔ دوسری طرف ریاستی مشینری کو، ذاتی ملازمت میں بدل کر رکھ دیا گیا ہے جو قاعدے قانون کی بجائے، حکمران خاندانوں کی خواہشوں کے سامنے زیر دکھائی دیتے ہیں کہ کسی طرح ان کے ماتھے پر کوئی شکن نہ آئے، اس کے لئے انہیں کوئی بھی جتن کرنا پڑے، اس سے گریز نہیں کرتے۔
1996ء میں عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اور اس کے منشور میں بنیادی اہمیت انصاف کو دیتے ہوئے اس کا نام بھی پاکستان تحریک انصاف رکھا ،اس پر منو بھائی مرحوم کی تحریر کا ایک جملہ آج بھی ذہن میں موجود ہے کہ انہوں نے لکھا تھا کہ پہلے اپنی سیاسی جماعت میں انصاف قائم کر لیں، اس کا پس منظر اس وقت ذہن میں نہیں۔ خیر تحریک انصاف کے قیام کے بعد، عمران خان کو ابتدائی طور پر کوئی بڑی کامیابی نصیب نہ ہوئی کہ اس وقت بے نظیر بھٹو کا طوطی بول رہا تھا گو کہ پنجاب کو نواز شریف بے نظیر سے ہتھیانے میں کامیاب ہو چکے تھے، اس کے پیچھے کیا طریقہ کارپنہاں تھا، نئی نسل کے لئے، آج کے حالات اس کی بخوبی عکاسی کر سکتے ہیں کہ کس طرح نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کو پنجاب سے بے دخل کیا تھا، کیسے ان کے کارکنان کو پیپلز پارٹی سے بدظن کیا گیا تھا اور آخرکار کس طرح زرداری کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کو پنجاب سے بالکل ختم کر دیا گیا۔ تاہم زرداری کے دل سے یہ بات کبھی بھی نہیں گئی کہ نواز شریف نے جو کچھ پیپلز پارٹی اور اس کے کارکنان کے ساتھ پنجاب میں کیا ہے، اس کا انتقام وہ میدان سیاست میں تو نہیں لے سکے لیکن ڈرائنگ روم کی سیاست میں زرداری نے نواز شریف کو چاروں شانے چت کر رکھا ہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نواز شریف اسی کی دہائی والی سیاست کے ساتھ پنجاب کو بچانے کی کوششوں میں مصروف تو ہیں لیکن نوشتہ دیوار کچھ اور کہانی سنا رہا ہے ۔ گو کہ اس نوشتہ دیوار میں زرداری کے حصے میں ،ان کی توقعات کے مطابق کچھ میسر نہیں تاہم سیاسی انتقام میں وہ نواز شریف کو پنجاب کی سیاست سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور ن لیگ عملی سیاست میں بعینہ ویسے ہی عضو معطل ہوچکی ہے جیسے پیپلز پارٹی پاکستان کی سیاست میں ہو چکی ہے۔ سندھ یا بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومتوں کو بہرطور سیاسی شعبدہ بازی سے زیادہ تصور نہیں کیا جا سکتا بعینہ جیسے ن لیگ کی مرکزی حکومت ہو یا پنجاب میں حکومت کو سیاسی شعبدہ بازی ہی کہا جا سکتا ہے کہ انتخابی نتائج کے مطابق فارم 45میں ن لیگ شکست خوردہ ہی ہے۔ بہرکیف اس ساری سیاسی دھینگا مشتی میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی دو دو حکومتیں کرپشن الزامات پر برطرف ہو چکی ہیں، ان دونوں نے ایک دوسرے پر کرپشن کے سنگین الزامات لگا رکھے ہیں، جن سے چھٹکارا پانے کے لئے یہ دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، اور اس وقت بھی ان دونوں سیاسی جماعتوں نے مل کر پارلیمان میں نیب ترامیم کے نام سے جس طرح اپنے مقدمات سے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے، اسے سعی لاحاصل ہی کہا جا سکتا ہے کہ ایسی ترامیم کسی بھی صورت قائم نہیں رہ سکتی۔
دوسری طرف ان دونوں سیاسی جماعتوں کو عوامی رائے میں للکارنے کے لئے عمران خان اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے، اسیر ہونے کے باوجود، مساوی مواقع نہ ملنے کے باوجود، عام انتخابات میں اس کی جماعت کا دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ ہے، جبکہ عدالتوں میں ایک مخصوص شخصیت کی الیکشن کمیشن کو مدد کے باعث، انتخابی عذر داریوں کے فیصلوں میں رکاوٹیں کھڑی کی جار ہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ عمران خان ، خود پر قائم مقدمات کے باوجود ، نیب ترامیم کے خلاف عدالتوں میں پہنچے ہوئے ہیں جہاں ان سے یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ ان ترامیم کا فائدہ ان کو پہنچ سکتا ہے، جس کے جواب میں وہ ببانگ دہل کہتے ہیں کہ اس سے میرے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے لہذا ان کو کالعدم قرار دیا جائے۔ اس جرات پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایسا موقف وہی شخص اپنا سکتا ہے کہ جسے اپنے کردار پر بھرپور اعتماد ہو، جو یہ جانتا ہو کہ واقعتا اس پر قائم تمام تر مقدمات بے بنیاد ہیں اور اگر عدالتیں آزادانہ بروئے کار آتی ہیں تو ان مقدمات کہ نہ کوئی حیثیت ہے اور نہ ان میں کوئی جان ہے کہ عدالتیں عمران خان کو ان مقدمات میں سزائیں دیں لہذا بقول عمران خان اس جعلی حکومت کو قطعا یہ اختیار نہیں کہ وہ آئین میں ایسی ترامیم کرے کہ جن سے صرف ان انفرادی فائدہ ممکن ہو جبکہ ریاست پاکستان کو خسارہ ہو۔ قانون پسندی کی یہ ایک واحد مثال نہیں ہے بلکہ عمران خان کی اقتدار سے قبل تک کی زندگی، اس امر کا ثبوت ہے کہ اس پر کوئی بھی قانونی کارروائی یا مقدمہ نہیں رہا، کہ یہ دعوی ان کے سیاسی پیروکاروں اور دوست احباب کا ہے، جبکہ بعد از رجیم چینج بنائے گئے تمام مقدمات انتقامی کارروائی اور عمران خان کو سیاست سے باز رکھنے کے لئے ہیں، جن سے عمران خان کسی بھی طور خوفزدہ و ہراساں نہیں ہے بلکہ انتہائی پامردی سے اپنے مقدمات کا سامنا کر رہا ہے۔ عمران خان کو سیاسی جلسے، جلوسوں کی اجازت تک نہیں بلکہ عدالتوں کی مداخلت سے انتظامیہ اس کو جلسے جلوسوں کی اجازت دے کر متعدد بار منحرف ہو چکی ہے، اور عمران خان کی قانون پسندی کہ ہر مرتبہ سر تسلیم خم کرتے ہوئے، انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرتی دکھائی دیتی ہے، جو اس امر کا اظہار ہے کہ وہ کوئی بھی کام غیر قانونی طریقے سے نہیں کرنا چاہتا۔ جبکہ اس کے سیاسی مخالفین نے اس کے کارکنوں پر ظلم و جبر و فسطائیت کا بازار گرم کر رکھا ہے، جو حقیقتا غیر قانونی ہے اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا فعل سرزد ہو ، جو فیس سیونگ کے لئے کام آ سکے، خواہ اس کے لئے پاکستان عدم استحکام کا شکار ہو جائے۔ عزم استحکام کے لئے کوششیں کرنے والوں کو اس روئیے پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی کہ سخت ترین حالات کے پیش نظر، کس سیاسی رہنما نے ’’ عزم استحکام‘‘ کے لئے اپنا حق چھوڑا اور کون عدم استحکام کرنے کے لئے کس حد تک جا رہا ہے، فیصلہ ، فیصلہ سازوں اور عوام پر ہے۔





