
تحریر : سی ایم رضوان
گزشتہ روز جمعرات کی شب ایک اور انتہائی تکلیف دہ اور ریاست کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھنے والا واقعہ رونما ہوا کہ کچے میں ڈاکوئوں نے ایک حملے میں 12پولیس اہلکار ہلاک کر دیئے۔ قوم کے تحفظ کے لئے ڈیوٹی پر مامور ان جوانوں کی موت ہر پہلو سے شہادت کی حیثیت رکھنی ہے۔ ان شہیدوں کے لواحقین، پسماندگان پوری قوم کے لئے باعث تکریم ہیں کہ ان خاندانوں کے چشم و چراغ دفاع امن کی راہ میں قربان ہو گئے ان کے خون کے چراغ سے وطن سے وفاداری کی شمع مزید روشن ہوئی ہے۔ ساتھ ہی یہ واقعہ پنجاب پولیس کے شیر جوانوں، قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں اور ریاست کے اعلیٰ حکام کے لئے چیلنج بن کر سامنے آیا ہے کہ جن ڈاکوئوں کی گولیوں سے پولیس فورس محفوظ نہیں۔ ان حالات میں عام پاکستانی کا خود کو محفوظ تصور کرنا حماقت ہی تصور ہو گا۔ واضح رہے کہ رحیم یار خان کے علاقے کچھ ماچھکہ میں ڈاکوئوں نے پولیس پر یہ حملہ کیا جبکہ پولیس نے جوابی کارروائی میں حملے کا مرکزی ملزم ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم یہ بڑا سانحہ اور پنجاب پولیس کا بڑا نقصان ہے۔ حملے کے نتیجے میں ایلیٹ فورس کے ایک اہلکار احمد نواز کے لاپتہ ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ واضح رہے کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف گزشتہ ڈیڑھ سال سے آپریشن چل رہا ہے جبکہ تازہ حملے کے بعد بھی علاقے میں پولیس کی جوابی کارروائی جاری ہے۔ پولیس کے مطابق ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن میں پولیس پر حملے کا مرکزی ملزم ہلاک جبکہ اس کے پانچ قریبی ساتھی زخمی ہو گئے ہیں۔
انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے ’’ آپریشن جاری ہے‘‘ کی نوید سنائی ہے۔ روایتی جملہ بولنا بھی وہ ہر گز نہیں بھولے کہ پولیس اہلکاروں پر حملے میں ملوث تمام افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ تاہم ترجمان رحیم یار خان پولیس کے مطابق پولیس ٹیم پر حملے کے بعد کچھ ماچھکہ کے علاقے میں شروع کیے گئے آپریشن کی نگرانی آئی جی پنجاب پولیس اور ہوم سیکرٹری پنجاب کر رہے ہیں۔ جوابی کارروائی میں پولیس پر حملے کا مرکزی ملزم بشیر شر ہلاک ہو گیا ہے جبکہ اس کے پانچ قریبی ساتھی ڈاکو شدید زخمی ہیں۔ یاد رہے کہ کچے کے علاقے میں پولیس کے جوان ہفتہ بھر ڈیوٹی دیتے ہیں۔ ہر ہفتے کے ایک مقررہ دن اس پولیس فورس کی تبدیلی ہوتی ہے۔ اسی تبدیلی کے دوران ڈاکوں نے واپس آنے والی پولیس فورس پر ان ڈاکوں نے یہ حملہ اس وقت کیا جب وہ اپنی ڈیوٹی سے واپس آ رہے تھے۔ ڈاکوئوں کے حملے میں 12پولیس اہلکار ہلاک جب کہ آٹھ زخمی ہوگئے۔ دوسری جانب پولیس اہلکاروں کی ہلاکت پر مقامی تاجر برادری، وکلا اور تعلیمی اداروں نے ایک روزہ سوگ منایا ہے۔ اس دوران دکانیں، کاروبار اور نجی تعلیمی ادارے بند رکھے گئے۔ کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے حملے کے نتیجے میں ایلیٹ پولیس کے ایک لاپتہ اہلکار احمد نواز کے اہلِ خانہ کے بیان کے مطابق حملے کے بعد ڈاکو احمد نواز کو اغوا کرکے لے گئے تھے۔ لاپتا اہلکار کے والد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی تلاش میں ہسپتالوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ لیکن کوئی کچھ نہیں بتا رہا کہ ان کا بیٹا کہاں ہے؟ ان کا مطالبہ ہے کہ پولیس ان کے بیٹے کو بازیاب کرائے۔ تاہم پنجاب پولیس نے احمد نواز کے لاپتہ ہونے کی تصدیق نہیں کی۔
یاد رہے کہ کچے کے علاقے میں پولیس اہلکاروں پر حملے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ صرف رواں ماہ میں یہ تیسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل دو مرتبہ ڈاکو گروہوں کی صورت پر پولیس پر حملہ کر چکے ہیں جبکہ صرف اگست کے مہینے میں پولیس والوں کی دو شہادتیں ہوئیں جبکہ تین راجن پور میں ہوئی ہیں۔ مگر تازہ واقعہ سب سے بڑا نقصان ہے۔ خیال رہے کہ ڈاکوئوں کے حملوں میں بعض اوقات پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنائے جانے کی رپورٹس بھی آتی ہیں جن کی بازیابی کے لئے پولیس آپریشن کرتی ہے۔
حملے میں بچ چانے والے پولیس اہلکاروں نے بتایا ہے کہ پولیس کی دو گاڑیاں واپس آ رہی تھیں جن میں سے ایک راستے میں گزشتہ دنوں ہونے والی بارش کے باعث ہونے والی کیچڑ میں پھنس گئی۔ رات کے وقت میں پھنسی ہوئی پولیس گاڑی کو نکالنے کے لئے دوسری گاڑی کے اہلکار بھی کوششیں کرنے لگے۔ اسی اثنا میں ڈاکوئوں نے اچانک پولیس پر حملہ کر دیا۔ بچ جانے والے ایک اہلکار کے مطابق حملے میں پہلے راکٹ پھینکا گیا جس کے بعد اچانک شدید فائرنگ شروع ہوگئی۔ حملہ اس قدر اچانک اور شدید تھا کہ پولیس اہلکاروں کو سنبھلنے اور جوابی کارروائی کا موقع ہی نہ مل سکا۔
کچے کے علاقے میں پولیس کا ڈاکوئوں کے خلاف یہ پہلا آپریشن نہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل موجودہ وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی جب قائم مقام وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس کی نگرانی کے لئے وہ خود بھی وقتاً فوقتاً کچے کے علاقے میں جاتے رہے ہیں۔ ماضی میں بھی مختلف حکومتوں نے مختلف ادوار میں کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کیے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری آپریشن میں پولیس کو کامیابیاں بھی ملی ہیں اور ڈاکوئوں کو نقصان بھی پہنچا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دور میں بھی خطرناک کارروائیوں کے جواب میں چھوٹو گینگ کے خلاف بڑا آپریشن کیا گیا تھا مگر بعد ازاں یہ گینگ پھر سرگرم ہو گیا تھا۔
پاکستان کے تین صوبوں کے بارڈرز پر واقع کچے کا لاکھوں ایکڑ رقبے پر مشتمل یہ علاقہ سابقہ چار دہائیوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کے لئے نو گو ایریا بنا ہوا ہے۔ پنجاب کے جنوبی علاقوں رحیم یار خان، صادق آباد اور راجن پور جبکہ سندھ کے شمالی شہروں شکار پور، گھوٹکی اور کشمور کے دریائے سندھ کے اطراف کے علاقے ان ڈاکوئوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ اسی علاقے میں بلوچستان کی حدود بھی شروع ہوتی ہے۔ سرکاری محکموں کے ریکارڈ کے مطابق انگریز دور سے دریائوں کے بہائو پر لگائے گئے حفاظتی بندوں کے اندر واقع علاقوں کو کچی کے علاقہ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں دریاں میں سطح آب بلند ہونے پر پانی باہر آتا ہے اور مقامی لوگ یہاں موسمی فصلیں خاص طور پر کماد کی فصلیں اگاتے ہیں۔ کماد کی یہ فصلیں ڈاکوئوں کی کھلی کمین گاہیں جہاں چھپ کر وہ ہر آپریشن کو ناکام بنا دیتی ہیں۔ کئی لاکھ ایکڑ (300۔400کلومیٹر) پر پھیلے ہوئے یہ رقبے محکمہ جنگلات اور ریونیو کی ملکیتیں ہیں۔ اسی طرح پنجاب کے دریائے راوی اور چناب کے اطراف واقع کچے کے علاقوں کو بھی جرائم پیشہ افراد چھپنے کے لئے استعمال کرتے ہیں لیکن سنگین وارداتوں میں ملوث منظم ڈاکو جو اشتہاری بھی ہیں، دریائے سندھ کے اطراف کچے میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں وقفے وقفے سے آپریشن بھی ہوتے رہے ہیں لیکن ڈاکوئوں کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا۔ ڈیڑھ سال قبل سندھ اور پنجاب پولیس نے ان علاقوں میں مشترکہ آپریشن شروع کیا، جو اس وقت بھی جزوی طور پر اپنے ہی ڈھیلے ڈھالے طریقہ سے جاری ہے۔ یہاں تک کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تینوں صوبوں کے مسلح آپریشن کے باوجود کچے کے علاقوں میں چھپے ڈاکوئوں کی وارداتیں بھی جاری ہیں۔ اکثر یہاں سے گزرنے والے جی ٹی روڈ اور ملتان، سکھر موٹر وے پر یہی ڈاکو وارداتیں کرتے ہیں۔ بدنام زمانہ ڈاکو ’ چھوٹو گینگ‘ کے خلاف بھی متعدد آپریشن ہو چکے ہیں مگر اس علاقے سے ڈاکوئوں کا صفایا کر دینے کا دعویٰ کرنے کی کسی حکومت کو توفیق نہیں ہوئی۔ کچے کے ان ڈاکوئوں کی طاقت کا راز ان کے پاس آر آر 75جیسے جدید ہتھیاروں کے علاوہ مارٹر گولے، 12.7 اور 12.14بور کی گنز ہیں جبکہ پولیس کے پاس جی تھری اور ایس این جی بندوقیں ہیں، جن کا ڈاکوں کے پاس موجود جدید اسلحہ سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس کے پاس جو بکتربند گاڑیاں تھیں وہ بی۔ سکس ٹائپ کی تھیں، جن کے لئے کہا گیا کہ یہ صرف لوگوں کے لانے لے جانے کے لئے استعمال ہو سکتی ہیں۔ یہ فائٹر بکتربند گاڑیاں نہیں تھیں ۔ لیکن بعد میں ڈی سیون ٹائپ کی گاڑی ٹیکسلا سے منگوائی گئیں۔ ڈاکوئوں کے جدید ہتھیاروں کے سامنے ان گاڑیوں میں بھی حفاظت ممکن نہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں کلاشنکوف پہلے سندھ کے ڈاکوئوں نے استعمال کی اور بعد میں پولیس کے پاس پہنچی۔ کلاشنکوف ملنے کے بعد ڈاکو طاقتور بن گئے اور جرم کرنے میں آسانی ہو گئی، پولیس اور دیگر فورسز سے لڑنے کے لئے ڈاکوئوں نے راکٹ لانچر اور دیگر بھاری ہتھیار بھی خرید رکھے ہیں۔ سندھ کے ان ڈاکوئوں نے یہ جدید ہتھیار افغان پناہ گزینوں سے خریدتے تھے یا پھر سمگلروں، یا بلوچستان لیویز فورس ( قبائلی پولیس) یا سندھ پولیس کے کرپٹ افسران سے۔ ڈاکو ان ہتھیاروں کی قیمت مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ادا کرتے تھے۔ سندھ کو پنجاب اور بلوچستان سے جوڑتے سرحدی راستوں، قومی شاہراہوں اور ذیلی سڑکوں کو کچے کے ڈاکو اپنا دائرہ کار سمجھتے ہیں ۔ اب ٹیکنالوجی کے حصول اور نئی سڑکوں کا جال بچھنے سے کچے کے ڈاکو بھی فوائد اٹھا رہے ہیں جبکہ فورس کے اندر بھی ان کے مخبر اور سہولت کار موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بھی کرتے تھے۔ پھر نیٹ ورک بڑھا تو انہوں نی سائیڈ بزنس کے طور پر ملک بھر کے چھوٹے بڑے جرائم پیشہ افراد کو اپنے یہاں پناہ دینے اور اس کے عوض پیسے لینے کا کام شروع کیا۔ ہنی ٹریپ کر کے لوگوں کو جھانسہ دے کر اغوا کرنا اور رقم لوٹنے کا کاروبار بھی یہاں سے شروع ہوا۔
پنجاب حکومت نے گزشتہ روز کی ڈاکوئوں کی تازہ ترین اندوہناک کارروائی کا سخت نوٹس لیا ہے۔ بیس خطرناک ڈاکوئوں کی تصویریں اور ناموں کے ساتھ اشتہار جاری کیا ہے۔ ان کے سروں کی قیمت بھی بڑھا دی ہے۔ اطلاع دینے والوں کے لئے وٹس ایپ نمبر بھی جاری کیا ہے۔ اطلاع دینے والوں کے نام صیغہ راز میں رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے واقعے میں زخمی ہوئے والوں کی رحیم یار خان جا کر خود عیادت بھی کی اور ڈاکوئوں کو ہر حال میں کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کیا ہے۔ عوام کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کچے کے ان ڈاکوئوں کے خلاف ایک ہی پکا آپریشن اس طرح کا کیا جائے کہ ان کا صفایا ہو جائے۔





