نفرت کی سیاست اور لسانی تقسیم کی آگ

تحریر : قادر خان یوسف زئی
پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک متوازن اور حساس معاملہ ہے جس کی جڑیں ملکی مفادات کے تحفظ، علاقائی استحکام اور بین الاقوامی تعلقات کے فروغ میں پیوست ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں اس پالیسی کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سب سے اہم دہشت گردی کا عفریت ہے جو خوارج تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) جیسے گروہوں کی شکل میں سر اٹھا رہا ہے۔ خارجی دہشت گرد گروہ کالعدم ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں پاکستان کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہیں۔ یہ تنظیم نہ صرف پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہی ہے بلکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC)جیسے اہم منصوبوں کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ چینی شہریوں پر حملے، جنہوں نے پاکستان میں مختلف ترقیاتی منصوبوں میں اہم کردار ادا کیا ہے، دونوں ممالک کے تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی ایک ایسی مذموم سازش ہے ، جو پاکستان دشمن عناصر کی ایما پر غیر ملکی فنڈنگ پر کی جا رہی ہے۔ جس کا مقابلہ ریاست سے ہے، تاہم بیشتر نادان دوست دشمن عناصر کی جانب سے برین واشنگ کرنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کررہے ہیں ، انسانی جذبات کو مخصوص ایجنڈے کے تحت ریاست کے خلاف استعمال کئے جانے کے وتیرہ نے صورت حال کو نازک صورت حال سے دشوار کیا ہوا ہے۔
ریاست کے لئے سب سے اہم مسئلہ نسلی او ر لسانی بنیادوں پر نام نہاد قوم پرستوں کی جانب سے منفی پراپیگنڈا ہے جس کا توڑ عوامی حمایت کے بغیر مشکل ہے ، اس کے لئے ملک دشمن عناصر پڑوسی ممالک کی زمین استعمال کر رہے ہیں۔ بالخصوص پاکستان نے بارہا افغانستان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دے۔ مگر افغان طالبان کی طرف سے کیے گئے وعدے عملی اقدامات میں تبدیل نہیں ہو سکے۔ ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے افغان طالبان کی مبہم پالیسی نے اس صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے، جو پہلے سے ہی نازک تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ جس کا فائدہ اٹھانے کے لئے نام نہاد قوم پرست تنظیموں و علاقائی سطح پر سیاست کرنے والی جماعتوں نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ شروع کی ہوئی ہے اور نسل پرستانہ جذبات میں نفرت کو ہوا دے کر ریاست کے لئے حالات کو مشکل بنایا جا رہا ہے۔ خاص پر پی ٹی ایم جیسی فتنہ تنظیم کے قوم پرست جماعتوں کے ساتھ رابطے اور انہیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے نام پر شراکت دینے کا سلسلہ حساس نوعیت کا ہے۔ قومی دھارے سے خود کو دور رکھنے والی جماعتوں کی دوڑ اور تمام تر سیاست فروعی مفادات کے حصول کے لئے ہے ، نوجوانوں کو برین واش کرنے کے لئے زمینی حقائق کے بر خلاف ایسی حکمت عملی پر کام کیا جارہا ہے ، جس سے نوجوانوں میں احساس محرومی پیدا کرکے ریاست مخالف جذبات پیدا کئے جاتے ہیں، جس کا اظہار وہ سوشل میڈیا پر کرکے منفی پراپیگنڈے کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔ ان حالات کا فائدہ ملک دشمن عناصر بھرپور طریقے سے اٹھاتے ہیں اور فیک نیوز کی بھرمار کرکے اصل حقیقت کو سامنے آنے نہیں دیتے۔
اس وقت مسائل کی سب سے گہری جڑ افغان مہاجرین ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے، لیکن حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے اس مسئلے کو نئے سرے سے اجاگر کیا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے پیش نظر، پاکستانی حکومت نے غیر قانونی افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا عمل شروع کیا ہے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا، لیکن ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھا گیا۔اس پر بھی عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر نے لسانی نفرت پر مبنی سیاست کی اور ایک بار پھر سندھ میں بسنے والے مہاجر قوم اور افغان مہاجرین کا موازنہ غلط مفروضے کی بنیاد پر کیا ۔ سندھ میں رہنے والے مہاجرین کا طبقہ تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں مستقل طور پر پاکستان میں آباد ہوئے ، اپنی شناخت کے لئے ’’ مہاجر‘‘ قومیت کے نظریئے کو اپنایا ، جبکہ افغان مہاجرین اپنے ملک میں خانہ جنگیوں اور غیر ملکیوں کے قبضے کی وجہ سے پاکستان میں پناہ گزین ہوئے کہ وہ پاکستان میں ضم ہونے کے بجائے ایک دن واپس اپنے وطن واپس جائیں گے ، ایمل ولی نے تعصب اور لسانیت کی سیاست کو فروغ دیا جس کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا ، بالخصوص نام نہاد پی ٹی ایم سے بڑھتی قربتوں سے ان کی جماعت پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے کہ ان کی وفاداری اپنے آبا و اجداد کے برخلاف کیوں اور کس ایجنڈے کے تحت، کس کے لئے ہے ۔ موروثی سیاست کے جانشین میں سیاسی پختگی اور بیان کے حوالے سے بچگانہ رویہ عوامی نیشنل پارٹی میں موجود سینئر رہنمائوں کے مزاج سے متصادم ہے۔ واضح ر ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل نہ صرف پاکستان بلکہ خود افغانستان کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ اگر عبوری حکومت واقعی افغانستان کی نمائندہ حکومت ہے تو انہیں اپنی عوام کو واپس بلا کر ان کی بحالی اور آبادکاری کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔
ان چیلنجز کے پیش نظر، پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اندرونی اور بیرونی دبا کے باوجود، ریاست کو اپنی سلامتی کے تحفظ اور علاقائی استحکام کے لیے سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ چین کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ، شمال مغربی سرحدوں پر دہشت گردی کے خلاف اپنی کوششوں کو مزید منظم اور موثر بنانا ہوگا۔ افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے، پاکستان کو اس بات پر زور دینا ہوگا کہ افغان عبوری حکومت اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔ خوارج جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا افغان طالبان کی عبوری حکومت کے لیے ایک اہم امتحان ہے، اور پاکستان کو اس معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ بالخصوص نام نہاد قوم پرست تنظیموں و جماعتوں کے کردار کو قومی سطح پر بے نقاب کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ قوم پرستی کی سیاست کرنے والی جماعتوں میں موجود دور اندیش رہنمائوں کو خاموش رہنے کے بجائے منفی پراپیگنڈوں کو روکنا چاہیے۔
ریاست کو ان پیچیدہ حالات میں تزویراتی دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، تاکہ وہ اپنے عوام کی سلامتی اور ملکی سالمیت کو برقرار رکھ سکے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ خارجہ پالیسی میں سخت فیصلے کیے جائیں اور بین الاقوامی سطح پر اپنے مفادات کا دفاع کرتے ہوئے، قومی سلامتی کو اولین ترجیح دی جائے۔ نوجوانوں کو گمراہ کن ایجنڈوں سے دور رکھنے کے لئے زمینی حقائق سے آگاہ کریں۔ نام نہاد قوم پرستوں کے مذموم ایجنٹوں پر وطن دوست حلقوں کو روایات کے مطابق اس حقیقت کو تسلیم کرانا ہوگی کہ پاکستان ایک اپنا وجود رکھتا ہے، اور کسی کے مذموم مقاصد کو بے امنی کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا۔





