Column

عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہئے

تحریر : صفدر علی حیدری
’’ میرے بھائی عمران عارف کم آمدن کی وجہ سے اپنے بچوں اور بچیوں کو خود موٹر سائیکل پر سکول ، کالج ، یونیورسٹی لے کر جاتے اور واپس لاتے تھے۔ حادثے والے دن بھی وہ اپنی بیٹی آمنہ عارف کو شام کے وقت اس کے دفتر سے واپس گھر لا رہے تھے‘‘، یہ پروفیسر امتیاز عالم ہیں، کراچی میں کار ساز کے علاقے میں پیر کو ٹریفک حادثے میں ہلاک ہونے والے عمران عارف کے بھائی۔ وہ اقرا یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ یہ حادثہ اس وقت ہوا جب موٹر سائیکل پر سوار عمران عارف اور ان کی بیٹی آمنہ عارف کو عقب سے آنے والی ایک گاڑی نے ٹکر ماری جس کے نتیجے میں دونوں باپ بیٹی ہلاک ہو گئے ۔
اس حادثے نے ماضی کے ایک اہم ناک سانحے کی یاد تازہ کر دی۔ بجائے آگے بڑھنے کے کچھ پیچھے چلتے ہیں ۔ سترہ سال پیچھے۔18 اکتوبر 2007ء کو جب سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو طویل خود ساختہ جلا وطنی کے بعد وطن پہنچیں۔ عوام کے جم غفیر کے باعث بے نظیر بھٹو کے خصوصی ٹرک نے کار ساز تک کا منٹوں کا سفر کئی گھنٹوں میں طے کیا ۔ کئی گھنٹے کے سفر کے بعد جیالوں کا یہ کارواں کار ساز پہنچا تو 2زور دار دھماکے ہوئے ، ان دھماکوں نے تمام خوشیاں قیامت صغریٰ میں تبدیل کر دیں۔ دھماکے ہوتے ہی ایسی افرا تفری مچی کہ ہر طرف صرف چیخ پکار اور ایمبولینس کے سائرن کی گونج تھی ۔ اس افسوس ناک واقعہ میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہو گئے ۔ اور آج اسی کار ساز پر ایک الم ناک حادثہ پیش آیا ۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سروس روڈ پر ایک تیز رفتار گاڑی موٹر سائیکل سواروں کو کچل رہی ہے۔ اس گاڑی نے موٹر سائیکل سواروں کو کچلنے کے بعد آگے جا کر ایک اور گاڑی کو بھی ٹکر ماری تھی اور چار مزید افراد کو بھی زخمی کیا۔ اس واقعے کا مقدمہ پروفیسر امتیاز عالم کی درخواست پر ہی درج کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ 19اگست کو شام چھ بج کر 45منٹ پر انھیں حادثے کی اطلاع ملی تو وہ ہسپتال پہنچے جہاں علم ہوا کہ ٹکر مارنے والی گاڑی کی ڈرائیور ایک خاتون تھیں ۔ اس حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز اور تصاویر سامنے آئیں جن میں دیکھا گیا کہ مشتعل لوگ ایک خاتون کو گھیرے ہوئے ہیں جب کہ بعد میں انہیں پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔
کراچی پولیس کی ایس ایس پی شعبہ تفتیش علینہ راجپر کا کہنا تھا ’’ ابتدائی تفیش میں بظاہر ایسے لگ رہا ہے کہ خاتون تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہی تھیں جس وجہ سے حادثہ ہوا ‘‘۔ عدالت نے ملزمہ کو ایک روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہے جب کہ خاتون کے وکیل عامر منسوب ایڈووکیٹ نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ ملزمہ نفسیاتی مریضہ ہیں ۔ اس موقع پر پولیس نے عدالت میں جناح ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کا عارضی طبی سرٹیفکیٹ بھی پیش کیا۔ ایس ایس پی شعبہ تفتیش علینہ راجپر نے بتایا ہے کہ خاتون کی میڈیکل ہسٹری طلب کی گئی ہے اور ان کے طبی معائنے اور خون کے نمونوں کے جائزے کے بعد حتمی رائے دی جا سکتی ہے ۔
مرحومہ اپنے گھر کی معاشی حالت بہتر کرنا چاہتی تھی ۔ کتنی معصومانہ خواہش اور کتنی بے ضرر مگر ۔۔۔
جب اس نے امتیازی نمبروں سے معاشیات میں ڈگری حاصل کی تو اس کے بعد انہوں نے پروفیسر ڈاکٹر امتیاز عالم کے مشورے پر ہی اقرا یونیورسٹی میں بزنس کے شعبے میں یہ سوچ کر داخلہ کیا کہ انھیں بہتر نوکری مل سکے گی ۔ اس کے چچا کے بقول ’’ آمنہ عارف کو سسٹمز لمٹیڈ میں کنسلٹنٹ کی نوکری کی پیشکش ہوئی مگر وہ اپنے کیرئیر کے بارے میں بھی فکر مند تھیں۔ میں نے مشورہ دیا کہ وہ ملازمت کر لے اور ساتھ یونیورسٹی میں داخلہ بھی لے۔ وہ دن بھر دفتر میں مصروف رہتی اور شام میں پڑھائی کرتی ۔ اس کا ماسٹر مکمل ہونے کے قریب تھا ، 17ستمبر کو ایک انٹرویو تھا جس کے بعد ڈگری مل جاتی ، وہ بہت پرجوش تھی کہ ڈگری ملنے کے بعد ترقی مل جاتی اور تنخواہ ایک لاکھ روپیہ یا زیادہ ہو جاتی جس سے وہ گھر کے حالات بہتر کرنے کی امید رکھتی تھی‘‘۔
اسے اپنی ڈگری کا بہت انتظار تھا اور وہ خوش تھی کہ اس کو ڈگری ملنے کے بعد ترقی مل جائے گی۔ حادثے میں ہلاک ہونے عمران عارف کے والد شہزاد منظر روزنامہ مساوات کے اسٹنٹ ایڈیٹر رہے تھے اور جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں اخبار کو پیپلز پارٹی سے قربت کی وجہ سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بعد میں وہ قلمی نام تبسم سے جنگ اور اخبار جہاں میں بھی لکھتے رہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر امتیاز عالم کے بقول حادثے میں ہلاک ہونے والے ان کے بڑے بھائی عمران عارف موٹر سائیکل پر بچوں کے چپس اور پاپڑ سپلائی کرتے تھے۔ آمنہ عارف تین بچوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ آمنہ نے کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد دو سال قبل نوکری شروع کی تھی اور اقرا یونیورسٹی کی بزنس ڈگری بھی پوری ہونے کے قریب تھی۔ وہ اپنی یونیورسٹی کے اخراجات خود پورا کرتی تھی۔ بیچلر کے بعد اس نے اپنے والد سے ذاتی اخراجات کے لیے پیسے نہیں لیے بلکہ اپنی تنخواہ گھر پر خرچ کرتی تھی۔ وہ بہت محنتی اور لائق تھی۔ اس نے بہت کم عرصے میں کام پر عبور حاصل کر لیا تھا اور ہر پراجیکٹ میں بہت اچھے نتائج دیئے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں سیکھنے کی بہت صلاحیت تھی ۔
اس نے حال ہی میں ایک پراجیکٹ مکمل کیا تھا اور وہ ایک دوسرے پراجیکٹ پر کام شروع کر چکی تھی ۔ حادثے والے دن بھی وہ اسی پراجیکٹ پر کام کر رہی تھی۔
آمنہ کے چچا کا کہنا ہے’’ اگر آمنہ کی مزید تصاویر لگیں گی تو خاندان کو اچھا نہیں لگے گا ، جو لگ چکی ہیں وہ لگ چکی ہیں‘‘۔
اس واقعے نے مجھے شاہ زیب قتل کیس کی یاد دلا دی ۔ ایک بگڑے رئیس زادے نے اسے قتل کیا تو پورا ملک اس کے خلاف ہو گیا۔ سب چاہتے تھے کہ اس کو قرار واقعی سزا ملے مگر ۔۔۔ کو ہوا وہ کسی کے سان و گمان میں نہ تھا، شاہ زیب یہاں سے رخصت ہوا مگر اس کا قاتل آج بھی دندناتا پھرتا ہے۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ قانون امیروں کے لیے مکڑی کا جالا ہے۔ آج دولت پھر ایک بگڑی ہوئی مخلوق کو بچانے کے چکر میں ہے۔ قاتلہ کو نفسیاتی مریض بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس ملک میں انصاف نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ یہاں عدالتوں میں انصاف ملتا نہیں بکتا ہے۔ ہر روز اس کی کئی کئی مثالیں سامنے آتی ہیں ۔ آپ کو یاد ہو گا کہ کوئٹہ میں ایک ایم پی اے نے پولیس کانسٹیبل کو کچل کر مار ڈالا اور پھر کچھ ہی عرصے بعد مونچھوں کو تائو دیتا ہوا جیل سے باہر آیا اور اپنی مونچھوں کو تائو دے کر عدالت سے باعزت بری کا پروانہ لے کر نکلا، جہان شراب کی بوتلوں کو شہد ثابت کیا جاتا ہو وہاں سب کچھ ممکن ہے ۔
رینجرز کے اہلکار نتاشہ کو بچاتے ہوئے دکھائی دئیے تو ہم سمجھ گئے کہ اب آگے کیا ہو گا۔ نتاشہ کا شوہر دانش اقبال آئی پی پیز کے مالکان میں سے ایک ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اتنے مال دار شخص کی بیوی کو سزا دی جا سکے۔
یہ کیسا ملک ہے ، اور کیسا معاشرہ کہ یہاں غریب کا قتل ہوتا ہے یا انصاف کا۔ عدل سر چھپائے پھرتا ہے، تہذیب منہ چھائی رہتی ہے۔
اب قاتلہ کو بچانے کے لیے ہر حربہ آزمایا جائے گا۔ اسے نفسیاتی مریض تو پہلے کی قرار دیا جا چکا ہے۔ اس سے کام نہ بنا تو پیسے غریب کی مجبوریوں کی بولی لگائی جائے گی۔ کیا اس کے علاوہ بھی اس کہانی کا کوئی اور نتیجہ نکل سکتا ہے ؟ ڈاکٹر چنی لعل نے مریضہ کی ذہنی حالت کو درست قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ لواحقین اس کی ذہنی بیماری کے حوالے سے کوئی رپورٹ بطور ثبوت پیش نہیں کر پائے۔
کیا یہ ایک ابھی شروعات کہی جا سکتی ہے۔
ہماری دیرینہ خواہش کبھی پوری ہو گی جس کی ترجمانی ایک شاعر نے کی ہے
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہئے

جواب دیں

Back to top button