Column

وقت

تحریر : علیشبا بگٹی
فلم کا نام In Timeہے۔ اس کی کہانی عجیب ہے۔ اور واقعات کم ہیں۔ لیکن اس میں ایک ’’ پیغام‘‘ بہت ہی زبردست خوفناک اور حقیقت پر مبنی ہے۔ جو دہشت میں ڈال دیتا ہے۔ فلم کے تمام کرداروں کے لیے انسان کی حقیقی عمر بائیں بازو پر درج ہوتی ہے۔ ہدایت کار اس بات کو یقینی بناتا ہے۔ کہ آپ کو دکھائے کہ کس طرح آپ کی عمر کے سیکنڈ، منٹ اور گھنٹے ختم ہو رہے ہیں۔ اور خوفناک بات یہ ہے کہ وہ پیسوں کے بجائے اپنی عمر کو مالیاتی لین دین میں استعمال کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ جب وہ اپنی روزمرہ کی ضروریات حاصل کرتے ہیں۔ تو وہ اپنے بازو پر موجود بقیہ عمر کے وقت کے ذریعے ادائیگی کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی کو کچھ خریدنا ہو تو اسے 30منٹ یا ایک گھنٹہ یا ایک دن اپنی عمر سے دینا ہوتا ہے۔ تاکہ وہ وہ چیز حاصل کر سکے۔ یا اگر وہ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنا چاہتا ہے۔ تو اسے اپنے بازو کی گھڑی سے کچھ وقت دینا ہوتا ہے۔ تاکہ وہ اپنی منزل تک پہنچ سکے کیونکہ وہاں پیسوں کا کوئی لین دین نہیں ہوتا۔ صرف عمر کا لین دین ہوتا ہے۔ مصنف نے حقیقت کی مشابہت میں ایک چیز اور شامل کی ہے جو حقیقی زندگی سے بہت ملتی ہے۔ یہ کہ اس عمر کی گھڑی میں طبقاتی تقسیم بھی ہوتی ہے۔ مطلب عمر کے غریب اور عمر کے امیر۔ یعنی کچھ لوگوں کے پاس 100سال سے زیادہ کا وقت ہوتا ہے اور کچھ لوگ دن کے حساب سے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ جب ان کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ تو وہ مر جاتے ہیں۔ ایک منظر میں دکھایا گیا ہے کہ بیٹا اپنے ماں کا انتظار کر رہا ہوتا ہے تاکہ اسے اپنے بازو سے کچھ وقت دے سکے۔ اس کی ماں کی عمر میں صرف ایک گھنٹہ اور آدھا بچا ہوتا ہے اور اس کی عمر کی بیٹری ختم ہونے والی ہوتی ہے جس کے بعد وہ خود بخود مر جائے گی۔ جب ماں بس میں سوار ہوتی ہے تو ڈرائیور کہتا ہے ’’ میڈم۔ کرایہ آپ کی عمر کے دو گھنٹوں کے برابر ہے اور آپ کے پاس صرف ایک گھنٹہ اور آدھا ہے‘‘۔ اس نے لوگوں کی طرف حیرت اور التجا کی نظر ڈالی۔ لیکن کسی نے پروا نہ کی اور نہ ہی کسی نے اسے کچھ منٹ دئیے۔ ماں بس سے اتر کر دوڑتی ہے تاکہ اپنے بیٹے سے مل سکے جس نے اپنی عمر سے دس سال دینے کا ارادہ کیا ہوتا ہے تاکہ وہ زندہ رہ سکے۔ دور سے دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی طرف دوڑتے ہیں۔ منٹس گزر رہے ہوتے ہیں۔ سیکنڈ گزر رہے ہوتے ہیں۔ جب وہ ملتے ہیں اور ماں اپنے بیٹے کو گلے لگاتی ہے تو وہ فوری مر جاتی ہے کیونکہ اس کی عمر کا آخری سیکنڈ ختم ہو جاتا ہی۔ یہ فلم کا سب سے تکلیف دہ منظر ہے۔ بس میں ماں کی نظر اور لوگوں کا بے پرواہی سے اسے نظر انداز کرنا بہت دکھ بھرا ہے۔ کسی بھی شخص کے لیے ممکن تھا کہ وہ اسے کچھ منٹ دے دیتا جس سے وہ اپنے بیٹے کے حساب سے دس سال مزید جی سکتی۔ لیکن حقیقت میں کوئی آپ کو اپنی عمر نہیں دے سکتا۔ فلم نے ایک عظیم پیغام دیا ہے۔ چاہے آپ نے اپنی زندگی میں کتنی بھی نیکیاں یا بدیاں کی ہوں۔ جب آپ گرتے ہیں یا کسی مشکل کا سامنا کرتے ہیں۔ تو آپ کو کوئی بھی نہیں ملے گا۔ جو آپ کی مدد کرے یا جب آپ کی زندگی پوری ہوتی ہے پھر کوئی بھی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو اپنی عمر کے کچھ لمحے دے کر آپ کو بچا سکے تاکہ آپ دوبارہ کھڑے ہو سکیں۔ کوئی بھی آپ کی مدد نہیں کرے گا۔ تاکہ آپ اپنی مشکل سے نکل سکیں۔ ایک دن آپ گریں گے اور آپ کی بیٹری ختم ہو جائے گی اور آپ کا وقت ختم ہونے کے قریب ہو جائے گا۔ اس وقت صرف آپ کی محنت کوشش اور خواب ہی آپ کو بچا سکتے ہیں۔ دو لوگ ہی ایسے ہوں گے جو آپ کے لیے اپنی عمر کی بیٹری خالی کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ آپ کی اولاد اور آپ کے والدین۔ صرف وہی لوگ ہیں جو آپ کو اپنی عمر کے لمحے دینے کے لیے تیار ہوں گے کیونکہ وہ آپ کو اپنی زندگی کے ہر لمحی کے قابل سمجھتے ہیں۔ یہ فطرتی محبت ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ کبھی بھی اپنی زندگی کے لمحے کو بیکار حسرت غم انتقام یا پچھتاوے میں ضائع نہ کریں۔ اگر کوئی شخص جس کے بازو پر عمر کی گھڑی ہوتی اور وہ اپنی عمر کے سیکنڈز اور دنوں کو گرتے ہوئے دیکھتا تو وہ اپنی زندگی کے فیصلوں پر غور کرتا۔ حدیث میں دعا اور نیکی کو تقدیر بدلنے اور موت کا وقت ٹالنے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ وقت ایک اہم عامل ہے۔ ہم اسے آسانی سے کھو دیتے ہیں۔ وقت کا وہ پہلو ہے جو آپ کی کلائی کی باندھی گھڑی، دیوار پر لگا کلینڈر بتا رہا ہے یہ Linear timeکہلاتا ہے یہ وقت ہے جو ہم انسانوں کی طے کردہ مقدار ہے۔ مختلف میسان اور ہائپران Mesons and Hyperonsعموماً ایک سیکنڈ کا دس کروڑواں حصہ زندہ ہی رہتے ہیں۔ ان کے نظام زندگی یا زمانی ترتیب زندگی کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ہیں۔ کیوں کہ یہ سارا عمل اتنے مختصر وقفے میں ہوتا ہے کہ ہم اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ تاہم یہ اس کا اپنا وقت ہوتا ہے۔ جس کا آغاز و انجام ہے۔ اسی طرح انسان کا وقت اس کی اپنی زندگی کے پیمانے سے ہوتا ہے۔ آخر موت ہے۔ نظام شمسی کا اپنا وقت ہوتا ہے اور سب اوقات محدود اور متعین ہوتے ہیں۔ چنانچہ کائنات وقت متعین انہی اندر ہی اپنا وجود رکھتا ہے۔ ان سے باہر یا ان سے ماورا نہیں۔ ایسا سوچنا خام خیالی ہے۔ وقت کی لامتناہیت، متعین وقت کے اندر وجود رکھتی ہے۔ اگر موجودہ نظام شمسی ختم جائے گا تو اس کے ساتھ صرف اس مادی نظام سے منسلک وقت ختم ہوگا۔ لیکن پھر بھی ایک وقت ہوگا۔ جو نئے مادی سلسلہ ہائے سے منسلک ہوگا۔ کیوں کہ یہ وقت کائنات کا واحد مطلق وقت نہیں ہے۔ بلکہ ایک مادی نظام کا وقت ہے۔ جس چیز کو مغربی ماہرین کائنات کہہ رہے ہیں کہ وقت کیا ہے؟ ایک ٹھوس وقت مادی سلسلہ ہائے عمل کا نام ہے۔ یہ ہمیشہ متناہی اور متعین ہوتا ہے اگر ایک عمل مرتا ہے تو دوسرا شروع ہوجاتا ہے۔ صرف یہی نہیں۔ یہ تبدیلی مقداری نہیں ہوتی ہے۔ ایک مرحلے پر کیفیتی تبدیلی بھی رونما ہوتی ہے اور آئندہ بھی لامتناہی ایسا ہی ہوتا رہے گا ۔۔ تاہم یاد رہے کائنات میں مہنگی اور قیمتی ترین چیز وقت ہے۔ اگر آدمی کے پاس وقت نہیں تو وہ ایک سوئی بھی حاصل نہیں کر سکتا اور اگر وقت ہو اور آدمی اپنی کوشش بھی جاری رکھے تو سونے کی کان تک بھی رسائی حاصل کر سکتا ہے ۔ حضورؐ کا فرمان ہے: ’’ دو نعمتیں ایسی ہیں، جن کے سلسلے میں بہت سے لوگ دھوکے میں ہیں، ایک صحت و تندرستی دوسرے فارغ اوقات‘‘۔
عربی کی کہاوت ہے: ’’ وقت تلوار کی مانند ہے، اگر تم اس کو نہ کاٹو گے تو وہ تمہیں کاٹ دے گا‘‘۔
وقت کسی نہ کسی حالت میں گزر ہی جاتا ہے۔ گزرا ہوا وقت ماضی کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ ماضی پھر یادوں اور تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل بے دردی سے اپنے اوقات ضائع کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ وقت ضائع کرنے کے مواقع اب ہر انسان کے ہاتھ اور جیب میں موبائل فون کی شکل میں موجود ہے۔ جس کو بھی دیکھو موبائل ہاتھ میں لئے مصروف ہے۔ انسان جب وقت کو صرف عیش کوشی اور خرمستیوں میں ضائع و برباد کر دیتا ہے تو جہنم کا ایندھن بن کے رہ جاتا ہے۔ انسان کا جو وقت اللہ کیلئے ہو۔ اور اللہ کی یاد میں ہی گزرے۔ تو حقیقت میں وہی زندگی ہے۔ اس کے علاوہ کہیں بھی وقت گزارے تو وہ اس کی زندگی میں شمار نہیں ہوتا۔

جواب دیں

Back to top button