Column

وفاق اور آفاق

تحریر : محمد ناصر اقبال
جنت نظیر کشمیر کے سرسبز نظاروں جبکہ وہاں پہاڑوں پر اشجار کی قطاروں کے جمال کاکیاکہنا، شہیدوں کے لہو سے سیراب ہو نیوالی زمین واقعی بڑی شاداب ہوتی ہے۔اگر آج چمن میں بہار ہے توان مجاہدوں ،غازیوں اورشہیدوں کوفراموش نہیں کیا جاسکتا جوقیام پاکستان کے فوری بعدسودوزیاں سے بے نیازجنت نظیر کشمیر کی آزادی کیلئے سردھڑ کی بازی لگانے چلے آئے تھے ، کلمہ توحید کی بنیاد پرہونیوالے اس معرکے میں ہراوّل دستہ کی حیثیت سے شریک غیور پٹھانوں کی شجاعت اور ان کے صادق جذبوں کوہم کس طرح بھول سکتے ہیں۔بھارت کے غاصبانہ قبضہ سے جموں وکشمیر کی آزادی تک پاکستان کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔قائدؒ نے بجافرمایا تھا ’’ کشمیر ہماری شہ رگ ہے‘‘، لہٰذاء اس پردشمن کا پنجہ اور شکنجہ ہرگز برداشت نہیں کیاجاسکتا۔جس طرح پاکستانیوں نے بزورشمشیر بھارت سے کشمیر چھینا تھا اس طرح باقی ماندہ کشمیر بھی بزورشمشیر آزاد ہوگاکیونکہ یاران ِجہاں کاکہنا ہے جنت ہے کشمیر اورجنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو عارضی زندگی کے دوران بھی جنت نظیر کشمیرمیں مقیم ہیں اور محشر کے بعدان کی ابدی زندگی بہشت میں گزرے گی ۔ جنت نظیر کشمیر کا ہر منظر ہماری نظرسے ہوتا ہوا ہمارے دل میں اتر جاتا ہے، آتے جاتے پہاڑ اوراشجاربھی ہمارے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔راقم کے نزدیک وہ بشرقابل فخر نہیںجوشجر سے والہانہ محبت نہ کرتاہو،یہ درخت فطرت کے حسن کوچارچاندلگاتے ہیں۔ شجرکاری دونوں جہانوں کیلئے منفعت بخش سرمایہ کاری ہے۔اللہ تعالیٰ کوبھی درخت بیحد پسند ہیں ،جب ہم ایک بار’’ سبحان اللہ‘‘ پکارتے ہیں توہماری جنت میں ایک درخت لگادیا جاتا ہے ۔ اگرآپ نے زمین پر جابجا آگ اور کشت وخون کے باوجود بہشت دیکھنی ہو تو آزادکشمیرکارخ اوروہاں خوبصورت نظاروں کواپنی نگاہوں میں قیدکریں۔کشمیر کاسحر آپ کے قلوب سے نفرت اور منافرت کا زہر نکال دے گا۔آج اگرکشمیر کے لوگ مہنگائی کے روگ سے محفوظ اور شادوآباداورشاداب ہیں تواس کے پیچھے شہیدوں اورغازیوں کی قابل رشک قربانیاں کارفرما ہیں ۔آزاد کشمیر کے منتخب اورکشمیریوں کے محبوب وزیراعظم کی حیثیت سے سردار تنویرالیاس خان نے صحت ،مالیات اوربلدیات سمیت مختلف شعبہ جات میں جودوررس انتظامی اصلاحات کی تھیں ان کے ثمرات سے بھی کوئی انکار نہیںکرسکتا۔
منفرداسلوب کے کالم نگار اورپاکستانیت کے علمبردار مظہر برلاس اپنے ساتھ دورہ کشمیر کی دعوت دیں تو پھر اشجار سے محبت کاداعی انسان انکار کر نے کاتصور بھی نہیں کرسکتا ۔ 13 اگست کو لاہورپریس کلب سے سینئر کالم نگاروں کاایک گروپ ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی صدر مظہر برلاس کی رفاقت اور قیادت میں راولہ کوٹ آزاد کشمیر پہنچا جہاں ہمارے میزبان اورمہربان ہارون دائود نے پرجوش انداز سے ہمارا شانداراستقبال اور انتہائی خلوص سے ہمارے اعزازمیں ضیافت کااہتمام کیا۔ورلڈکالمسٹ کلب کے مرکزی وائس چیئرمین ڈاکٹر شوکت ورک، منیر احمد بلوچ ،نعیم مصطفیٰ ، شفقت حسین ،نصیرالحق ہاشمی ،روہیل اکبر،شعیب احمد،لقمان شیخ، محمودشیراز،ابرارخان ایڈووکیٹ اور عادل علی بھی قلم قبیلے کے اس کارواں میں شریک تھے۔ ان احباب کی صحبت ،والہانہ محبت اورمختلف موضوعات پرصحتمندوسودمند بحث نے ہمارے سفر کو نہایت شانداراوریادگار بنادیا۔ وہاں13اور14اگست کی درمیانی رات ہم نے آزادکشمیر کے سابقہ وزیراعظم ، سنجیدہ اورسلجھے ہوئے سیاستدان سردارتنویرالیاس خان کے سردار پیلس میں جشن یوم آزادی کی مناسبت سے پاکستانیت اورآتش بازی کاشاندار مظاہرہ دیکھا۔سردارتنویرالیاس خان کی خصوصی کاوش سے آزادکشمیر میں ہرسمت سبزہلالی پرچم کی بہاراوربھرمارتھی ۔آزاد کشمیر کی شاہراہوں پر پاکستان اور افواج پاکستان کے ساتھ اظہاریکجہتی اوراظہارمحبت پرمبنی پوسٹرزاورسٹیمرز نمایاں تھے ۔ملک دشمن قوتوں کا منفی پروپیگنڈاتواُس وقت ملیامیٹ اورنیست ونابود ہو گیا جب وہاں ہر زندہ ضمیر اورباشعورکشمیری کے ہاتھوں میں پاکستان کاسبزہلالی جھنڈا جبکہ ’’ ہم ہیں پاکستان‘‘ کاسیاسی ایجنڈازبان ِزدعام تھا۔
وادی کشمیر میں پاکستانیت کی مثبت قومی سوچ کواپنے خون اورجنون سے سیراب کرنیوالے سردار تنویرالیاس خان کی شخصیت اوران کاطرز سیاست روحانیت کاغماز ہے۔وہ سرکاری تقریبات اورعوامی اجتماعات میں اپنے خطابات کاآغاز درود ِابراہیمی سے کرتے اوراس کے فیوض وبرکات سمیٹ رہے ہیں،سروکونین سیّدنا محمدخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحبہٰ وبارک وسلم اوردرود وسلام سے والہانہ عشق قابل رشک ہے۔سردار تنویرالیاس خان کی صورت میں جنت نظیر کشمیر کوبینظیر قیادت ملنا یقینا فیڈریشن کیلئے تازہ ہواکاجھونکا ہے ، انہوں نے کشمیریوں کوسمیٹ لیا اورانہیں فلسفہ پاکستانیت کی بنیاد پر متحدومستعد کردیا ہے۔آزاد کشمیر میں تعمیری تبدیلی اوردیرپاخوشحالی کیلئے جس نیت ،انتظامی بصیرت،قائدانہ صلاحیت اورسیاسی استقامت کی ضرورت ہے وہ سردار تنویرالیاس خان کے سوا کسی دوسرے کشمیری سیاستدان میں نہیں۔ آزاد کشمیر میں حالیہ پرتشدد مظاہروں کے بعد وہاں سنجیدہ قیادت اورتعمیری سیاست کاقحط پڑگیا تھا ،بیرونی اوراندرونی دشمن آگ پرتیل چھڑک جبکہ وفاق کے حامیوں کوجھڑک رہے تھے ،اس صورتحال میں آزادکشمیر کے مردِدرویش ،نبض شناش اورفرض شناس سیاستدان سردار تنویرالیاس خان نے منافقانہ اورمجرمانہ خاموشی کاسینہ پھاڑتے ہوئے پاکستا نیت کاعلم بلندکیا اور اپنے ہم وطنوں کو’’ ہم ہیں پاکستان ‘‘کاسیاسی فلسفہ سمجھایا ۔سردار تنویرالیاس خان کوکشمیر کی تعمیر اورکشمیریوں کی نظریاتی طورپر تطہیر کرنے کامنفرداعزازبھی حاصل ہے۔انہوں نے مساجد اورمدارس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے معلمین کووہ بلندمقام دیا جوناگزیراوران کافطری حق تھا ۔ان کے طرزِ سیاست بارے کسی شاعرنے کیاخوب کہا ہے !
ہم کو ہی جرأت اظہارکاسلیقہ ہے
صدا کاقحط پڑاتوہم ہی بولیں گے
14اگست کی شام میجرصابر شہید اسٹیڈیم میںپوراکشمیر امڈآیا تھا،راقم نے آج تک بے شمار عوامی اجتماعات دیکھے ہیں لیکن یہ ان میں ایسا واحداورمنفرد اجتماع تھا جواپنے آغاز سے اختتام تک منظم رہا، شرکاء کیلئے بڑے پیمانے پر طعام کابھی اہتمام کیا گیا تھا۔پنڈال میں برقی قمقمے جگمگا رہے تھے لیکن آج کے کامیاب عوامی اجتماع کے سالار اور سردار کے قومی وسیاسی نظریات اور پرجوش جذبات کی ’’ تنویر ‘‘سے ہر سو روشنی بکھرتی چلی جا رہی تھی ،سردارتنویرالیاس خان کی آمد پرآتش بازی کاشاندار مظاہرہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔صابر شہید اسٹیڈیم میں منعقدہ اجتماع جبکہ منٹوپارک لاہورمیں23 مارچ1940ء کومنعقدہونیوالے تاریخی اجتماع میں کئی قدریں مشترک تھیں ،لاہورمیں قیام پاکستان جبکہ راولاکوٹ آزاد کشمیر میں استحکام پاکستان کے حق میں قرارداد پاس کی گئیں ۔ راولا کوٹ کے اجتماع میںمرکزی سٹیج پر دھڑے باز اور یارباش مظہر برلاس کا ’’ چہرہ ‘‘ بھی نمایاں تھا،ان کاقلم اسلامیت ،انسانیت اور پاکستانیت کاعلم ہے۔مظہر برلاس ہر کسی کیلئے دستیاب نہیں ہوتے اوروہ ہر کسی کومشورہ بھی نہیں دیتے،ان کے ساتھ سیاسی موضوعات پر مشاورت میں فہم وفراست اورلیاقت و بصیرت کے کئی راز پنہاں ہوتے ہیں۔سردارتنویرالیاس خان کی زیرصدارت اجتماع سے آزاد کشمیر کی سیاست کو درست سمت اورپاکستانیت کوتقویت ملی ۔بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح ؒ اوربابائے حریت سیّد علی شاہ گیلانی کے سیاسی افکار کے علمبردارسردارتنویرالیاس خان کی آواز کے ساتھ آزادکشمیرکاہرفردہم آواز تھا۔
پنڈال میں آمد سے قبل قلم کاروں کامختصر کارواں سیروسیاحت اورکچھ نیا سیکھنے کی نیت سے بنجوسہ جھیل کے مقام پرپہنچا ،جہاں ہماری پرجوش پاکستانیوں سے ملاقات اوربات چیت ہوئی ۔میں نے دانستہ انہیںکشمیری نہیںکہا کیونکہ بنیادی طور پر ہمارے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے اورہم اپنے محبوب وطن پرجان چھڑکتے ہیں ،ہمارا محبوب وطن ہماری وفائوں کامحورومرکز ہے۔ باقی جہاں تک صوبوں کاتعلق ہے تویہ انتظامی تقسیم ناگزیر تھی لیکن ہم بحیثیت قوم بھرپور اتفاق اوروفاق کے بغیر کا میابی کاآفاق نہیں چھوسکتے۔ یادرکھیں جوکوئی اپنے طورپر ریاؕست میں ریاست بنائے گا وہ راہ راست پرنہیں ہوسکتا اوران گمراہ کرداروں کیخلاف ریاست کاہر راست اقدام یقینا جائز ہو گا۔ یاد رکھیں جوبھی وفاق کی پیٹھ میں نفاق کاخنجر پیوست کرنے کی مذموم جسارت کرے گا نظریہ پاکستان کے امین اور علمبردار نوجوان اس بدکرداراورغدار کا محاصرہ اوربھرپور محاسبہ کریں گے ۔تاریخ کی شہادت سے معلوم ہوتا ہے جو شخصیات قیام پاکستان کی جدوجہد میں شریک اوراس کے ساتھ وفادار تھیں ان کے بچے آج بھی پاکستان کے وجود سے فیضاب اورسیراب ہورہے ہیں جبکہ قدرت نے پاکستان کے ساتھ
غداری اورہم وطنوں کے ساتھ ریاکاری کرنیوالے کرداروں کو بدترین ذلت اورہزیمت کی علامت بنادیا ،بنگالی طلبہ کے سیاسی انتقام کانشانہ بننے والی بدصورت اورشخصی آمریت کی علامت حسینہ واجدکاحالیہ انجام بھی آپ نے دیکھ لیا ۔تاریخ میرجعفر اورمیر صادق نامی غداروں کو نہیں شیرمیسور ٹیپوسلطان ،میجر عزیز بھٹی اورمیجر صابرسے شہیدوں کویاد رکھتی اوربیشک ا ن پررشک کرتی ہے۔
سردار تنویرالیاس خان کے جواں سال بیٹیوں کی سیاسی تربیت میں بھی پاکستانیت کے رنگ جھلک رہے تھے۔
،ان کی زیراستعمال گاڑیوں کے تین طرف پاک فوج کامونوگرام نمایاںتھا ۔وہ اپنے والد سردارتنویرالیاس خان کے ہم نشین اور جانشین ہیں ،ان کااپنے والد کے ساتھ پنڈال میں پہنچنا ایک اچھا پیغام تھا ورنہ بیشتر سیاستدان سیاسی جدوجہد کے کٹھن مراحل میں اپنے بچوں کوعوام سے دوررکھنا پسندکرتے ہیں۔’’ ہم ہیں پاکستان‘‘ کے عنوان سے عوامی اجتماع کیلئے راولا کوٹ کے میجر صابر شہید اسٹیڈیم کاانتخاب ہمارے سیاسی نصاب کا روشن باب ہے۔جو بانیان پاکستان اورافواج پاکستان کے شہداء کی تعظیم،ان کی یادیں تازہ اوران کے درجات کی بلندی کیلئے دعائوں کااہتمام کرتے ہیں ان کی شخصیت،سیاست اورسیاسی وراثت کبھی بانجھ نہیں ہوسکتی۔آج آزادکشمیر میں سردارتنویرالیاس خان کادن تھا ،یہ ان کاپاورشو بلکہ ون مین شو تھا۔آزاد کشمیر میں حالیہ پرتشدد مظاہروں کے بعد وہاں جو اضطراب اورسیاسی طور پر سراب تھا ،سردار تنویرالیاس خان کا اپنے منتخب لفظوں اورصادق جذبوں سے کشمیریوں کے زخموں پرمرہم رکھنا وہاں دندناتی اورچنگھاڑتی ناامیدی کوایک پائیدارامید اورنوید میں تبدیل کرگیا ۔ یادرکھیں جس طرح’’ موج ہے دریامیں اور بیرون دریاکچھ نہیں‘‘، اس طرح ہماری ایٹمی ریاست متعدد عالمی درندوں سے ہماری حفاظت کی ضمانت ہے،اگر کوئی اس حفاظتی حصارسے باہرگیا تووہ انتہائی خوار ہوگا ۔پاکستان کے پاس ایک پروفیشنل اور طاقتور فوج ہے ،ریاست کے پاس شہرقائد سے سندر گوادر تک سمندرہے ،ریاست کے پاس زراعت اور معدنیات کی دولت ہے۔یادرکھیں ہمارا ہرصوبہ منفردخصوصیات رکھتا ہے اورریاست کے پاس کسی صوبہ کاکوئی متبادل ، ہم ایک دوسرے کی ضرورت اورطاقت ہیں۔ مخصوص بلکہ منحوس عناصر کے سطحی اورجذبانی فیصلے ہمارے درمیان فاصلے پیداکرتے ہیں، ان بدبخت عناصر کی باتوں پرہرگزکان نہ دھریں۔ امریکہ ،اسرائیل اورانڈیا کی ہمارے ساتھ دشمنی صوبائیت نہیں بلکہ اسلامیت اور پاکستانیت کی بنیاد پر ہے،ہمیں وفاق کی مضبوطی کیلئے نفاق سے بچنا ہوگا۔ایک دوسرے سے دوری ہماری انفرادی اور اجتماعی کمزوری بنے گی، منفی سیاست کی آڑ میںریاست پرخودکش حملے اورایک دوسرے کیخلاف اشتعال انگیز جملے استعمال نہ کریں ۔صمیم قلب سے دعا ہے اللہ ربّ العزت اپنے اسم اعظم کے وسیلے سے ہمیں مادروطن پاکستان کو اپنی عقیدتوں ، دعائوں اوروفائوں کامحوربنانے کی توفیق دے۔ آمین!

جواب دیں

Back to top button