درشنی پہلوان

تحریر : رفیع صحرائی
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
مرزا غالب کا یہ شعر بار بار ذہن میں آ رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا 22اگست کو اسلام آباد میں ہونے والا جلسہ تمام تر دعووں، نعروں اور دھمکیوں کے باوجود ملتوی ہو گیا ہے۔ 21اگست کی رات کو جب چیف کمشنر اسلام آباد نے جلسے کی منسوخی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا تو پی ٹی آئی کی لیڈرشپ خم ٹھونک کر میدان میں آ گئی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ جلسہ ہر حال میں ہو گا۔ جناب علی امین گنڈا پور سب سے زیادہ پرجوش تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اس جلسے کے ذریعے وفاقی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ تجزیہ نگار اس جلسے کو بیرسٹر شیر افضل مروت کے لیے ایک بڑا امتحان قرار دے رہے تھے کہ انہوں نے معتوبی کے بعد بحال ہونے پر سینے پر ہاتھ مار کر اس جلسے کے انعقاد اور کامیابی کا دعویٰ کیا تھا۔ پی ٹی آئی میں گروپ بندی واضح ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ٹانگیں کھینچنا معمول بن گیا ہے۔ شیر افضل مروت کو علیمہ خان، عمر ایوب اور بیرسٹر گوہر سمیت ٹاپ لیڈرشپ پسند نہیں کرتی۔ عمران خان حسبِ معمول ’’ لڑا اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ انہوں نے خود ہی شیر افضل مروت کے لیے پارٹی کے دروازے بند کرنے کا اشارہ دیا اور جب دیکھا کہ شیر افضل مروت کی اکڑ ختم ہو گئی ہے تو انہیں گلے سے لگا لیا اور اسلام آباد جلسے کی کامیابی کا ٹاسک سونپ دیا۔ علیمہ خان گلے لگانے والی بات کو جھوٹ قرار دے چکی ہیں۔ بہرحال پارٹی کے اندر مخالفین نے بغلیں بجائیں کہ مروت اس مشکل ٹاسک کو پورا نہ کر پائیں گے اور بانی پی ٹی آئی کی نظروں سے گر جائیں گے۔
بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق حکومت نے جلسے کا اجازت نامہ منسوخ کر دیا تو پی ٹی آئی کی ساری لیڈرشپ نے سکھ کا سانس لیا کہ صرف مروت ہی نہیں وہ سب بھی ایک بڑے امتحان میں ناکام ہونے سے بال بال بچ گئے۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے ورکرز نے اس جلسے میں شمولیت کے لیے اس جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا۔ خصوصاً پنجاب میں ورکرز کی بہت تھوڑی تعداد انفرادی حیثیت میں اسلام آباد جلسے میں شرکت کے لیے روانہ ہوئی۔ اس سے پہلے تو ان جلسوں میں شرکت کے لیے پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں سے قافلے نکلا کرتے تھے۔ گو اجازت نامے کی منسوخی کے باوجود جلسے کے انعقاد کے کھوکھلے دعوے ضرور کیے گئے مگر واقفانِ حال جانتے تھے کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ حکومت جب جلسہ کرنے سے روک دیتی ہے تو بڑے بڑے دل گردے والے بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یہاں تو سب درشنی پہلوان اکٹھے ہیں جو دعوے تو بہت بڑے بڑے کرتے ہیں مگر بات زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھتی۔ گفتار کے یہ غازی عملی میدان میں بزدل ثابت ہوئے ہیں۔ یہ سب بظاہر انقلابی ہونے کے دعوے دار ہیں مگر ان کی حالت پی ٹی آئی کے اس ہیجڑا نما ورکر جیسی ہے جو پولیس کے کریک ڈائون پر میڈیا کے سامنے کمر لچکا لچکا کر کہہ رہا تھا کہ اگر یہ ہمیں اس طرح ماریں گے تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے۔
اعظم سواتی، بیرسٹر گوہر اور عمر ایوب اس وقت پی ٹی آئی کی ٹاپ لیڈر شپ میں شامل ہیں جنہوں نے اڈیالہ جیل کے باہر جلسے کے التوا کا اعلان کیا۔ اگر اس لیڈرشپ میں جان ہوتی تو اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی کا سہارا تلاش کرنے نہ جاتی۔ اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ پی ٹی آئی بطور نظریاتی سیاسی پارٹی اپنا وجود نہیں رکھتی۔ یہ صرف عمران خان کا فین کلب ہے۔ وہی اس کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی کے بغیر انسان یا جانوروں کا وجود کینچوا بن کر رہ جاتا ہے۔ یہی حال پارٹی اور لیڈر شپ کا ہو گیا ہے۔
مجھے یاد ہے دو سال قبل 2022ء میں یہی دن تھے۔ پورا ملک شدید ترین سیلاب کی زد میں تھا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر سڑکوں پر بیٹھے تھے۔ کھڑی فصلیں اور بہت بڑی تعداد میں مویشی سیلاب کی نذر ہو گئے تھے۔ ملک میں اناج، دودھ اور سبزیوں کی قلت ہو گئی تھی اور مہنگائی عروج پر پہنچ گئی تھی۔ عمران خان سڑکوں پر تھے اور حکومت کے خلاف تحریک چلا رہے تھے۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ ملک کے حالات سیلاب کی وجہ سے بدترین ہو چکے ہیں، آپ اپنے احتجاجی جلسے ملتوی کر دیں مگر وہ نہ مانے اور قریباً ستر جلسوں کی پوری سیریز منعقد کر ڈالی تھی۔ آج اس پارٹی کا عمران خان کی عدم موجودگی میں یہ حال ہے کہ ایک جلسہ بھی نہیں کر سکی۔
پی ٹی آئی کو پیشکش کی گئی ہے کہ وہ متبادل کے طور پر 8ستمبر کو جلسہ کر لے۔ انہیں سند کے طور پر 8ستمبر کو جلسہ کرنے کی اجازت دینے کا نوٹیفکیشن بھی دے دیا گیا ہے۔ یہ دراصل اسے لالی پاپ دیا گیا ہے۔ ورنہ اجازت نامہ تو 22 اگست کے لیے بھی جاری کیا گیا تھا۔ اعظم سواتی اور عمر ایوب نے8ستمبر کو بھرپور جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ 8ستمبر کو بھی پی ٹی آئی اسلام آباد میں جلسہ نہیں کر پائے گی۔ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ بھی اچھی طرح سمجھتی ہے کہ 9مئی ان کے گلے کا ہار بن چکی ہے۔ وہ اس ہار کو اپنے گلے سے اتارنے کی جتنی بھی کوشش کر لیں یہ ہار نہیں اترے گا۔ انقلاب ہمیشہ خون مانگتا ہے۔ یہ لیڈر ورکروں سے خون مانگتے ہیں مگر امتحان کے وقت خود پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں۔ کہاں ہے آج شہباز گل جو خود کو ’’ جٹاں دا منڈا‘‘ کہا کرتا تھا مگر امتحان آیا تو امریکہ بھاگ گیا۔ شہزاد اکبر اور زلفی بخاری آج کہاں ہیں۔ مراد سعید کون سے بل میں چھپا ہوا ہے۔ جنوبی محاذ والے دودھ پینے والے مجنوں چُوری اور دودھ کھا پی کر ڈکار مار کر گھونسلا چھوڑ گئے ہیں۔ ورکرز کو کیا پڑی ہے اپنی جانیں قربان کریں جب کہ عمران خان کی اپنی اولاد اس کے لیے باہر نہیں نکلتی۔ باقی لیڈروں کی اولادیں پی ٹی آئی کے جلسوں سے کوسوں دور رہتی ہیں۔ خود عمران خان کا یہ رویہ ہے کہ9مئی کو باہر نکلنے والے اپنے ورکرز سے اظہارِ لاتعلقی اختیار کر کے ان کے لیے سزاں کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کا ورکر بددل ہے۔ لیڈرشپ جلسے کا وزن اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی کہ اگر بھرے مجمعے میں سے چند افراد نے بھی جوش میں آ کر غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کر دی تو ایک اور 9مئی گلے کا ہار بن جائے گا۔ موجودہ لیڈروں میں اتنا دلیر کوئی بھی نہیں جو اپنے آپ کو بَلی کا بکرا بنا کر پیش کرے۔ دوسری طرف حکومت کا عزم یہ نظر آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں جلسہ نہیں کرنے دینا۔ جب حکومت ایسی ٹھان لے تو پھر عمران خان کو بھی رانا ثناء اللہ پسپا کر دیا کرتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ پی ٹی آئی پنجاب میں بھی کوئی احتجاجی جلسہ نہیں کر پائے گی۔





