متوقع اعلان

تحریر : محمد مبشر انوار
آخر کار جنگ بندی ہو گئی!!!
قرآن کریم میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے لیکن اس کے باوجود مسلم ممالک کی یہ مجبوری بن چکی ہے کہ کسی نہ کسی طور بہرحال نہ صرف یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں بلکہ کئی ایک ممالک اپنے دفاع کے لئے ان پر انحصار کرتے ہیں۔ بالعموم حلیف ریاستوں میں اقتدار کی کشمکش میں بھی یہود و نصاریٰ کا کردار انتہائی واضح ہے جبکہ کئی ایک ممالک ایسے ہیں کہ جہاں اقتدار کا سنگھاسن انہی کی مرہون منت ہے، اس پس منظر میں یہود و نصاریٰ کی پالیسیوں سے انحراف کرنا ،ان کے مفادات کے خلاف جانا، اپنے اقتدار کو لات مارنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے لہذا یہ ممالک ان پالیسیوں پر اکتفا کرنے یا ان پر عمل پیرا ہونے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ تاہم اس کے عوض ان حکمرانوں کو بہرصورت ان کے مفادات کو ترجیح بنیادوں پر تحفظ فراہم کرنا ہے، جبکہ مسلم دنیا میں بالخصوص مسلم حکمرانوں کے لئے، مسلم ممالک کے ساتھ تعاون بھی نہ صرف مشروط ہوتا ہے بلکہ وہ کسی مشکل میں پھنسے ہوئے مسلم ملک کی براہ راست مدد کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں، خواہ ان کی شدید ترین خواہش ہو لیکن وہ عملا مدد کرنے سے بالکل قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ انہی صفحات پر بارہا اس امر کا اظہار ہو چکا ہے کہ مشرق وسطی میں اسرائیلی ریاست کے ناجائز قیام کے بعد سے، فلسطینی مسلمان مسلسل ظلم و جبر و بربریت کا شکار رہے ہیں اور یہودی اپنے پشت پناہوں کی مدد سے فلسطینیوں کو اپنے ہی گھر سے بے دخل کر چکے ہیں، گزشتہ دس ماہ میں جو بربریت اسرائیل نے غزہ کے مسلمانوں پر ڈھا رکھی ہے، اسے کم تر الفاظ میں بھی صرف اور صرف نسل کشی کہا جا سکتا ہے، لیکن اس نسل کشی پر بھی عالمی برادری فوری کوئی ایکشن لینے میں دانستہ لیت و لال سے کام لیتی دکھائی دیتی ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف اسرائیل کو بھرپور وقت فراہم کرنا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسرائیل غزہ کے مسلمانوں کو اس قدر زچ کر دے کہ وہ اس چھوٹی سی پٹی سے بھی بے دخل ہو جائیں اور اسرائیل اس پٹی کو بھی اپنے تصرف میں لا کر سمندری وسائل پر براہ راست قابض ہو جائے، فلسطینی مسلمانوں کو اس خطے سے مکمل طور پر بیَ دخل کر دے۔ انسانی حقوق کے نعرے لگانے والوں سے یہ کیوں ممکن نہ ہوسکا کہ جب غزہ میں 32333نہتے مظلوموں کو شہید کر دیا گیا تھا، ساری دنیا ان کی بے حسی کے خلاف سراپا احتجاج تھی، امریکہ بھی سلامتی کونسل میں پیش کی جانیوالی قرارداد کو ویٹو نہیں کر سکا تھا، سلامتی کونسل نے جنگ بندی کی قرارداد منظور کر لی تھی، لیکن امریکی دہری پالیسی کے باعث اس قرارداد پر عملدرآمد تادم تحریر ممکن نہیں ہوسکا؟ کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ امریکی طاقت اس قدر کمزور ہے کہ اسرائیل کے خلاف منظور ہونے والی قرارداد پر عملدرآمد کروانا اس کے بس کی بات نہیں یا یہ سمجھا جائے کہ امریکہ دانستہ اس قرارداد پر عملدرآمد کروانے سے گریزاں رہا ہے اور اسرائیل کو وقت فراہم کرتا رہا ہے کہ کسی بھی طرح وہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کر لے یا اس کے پس پردہ امریکی مفادات بھی رہے ہیں؟۔
25مارچ 2024ء کو سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی قرارداد کے بعد اپنی ایک تحریر بعنوان ’’ آخرکار جنگ بندی ہو گئی!!!‘‘ کا ایک اقتباس قارئین کی نذر کر رہا ہوں، جس میں اس خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس جنگ بندی سے امریکہ کن مقاصد کی بار آوری چاہتا ہے، ’’ غزہ کے متاثرین نے اس دوران کس قدر بربریت کا سامنا کیا ہے اور کس قدر ثابت قدم رہے ہیں، اس پر ان کی ستائش کے لئے الفاظ ہی میسر نہیں کہ دنیا میں تقریبا دو ارب کی مسلم آبادی، ستاون اسلامی ممالک اور ان کی افواج، ان کی پشت پناہی کرنے سی قاصر دکھائی دی۔ البتہ سفارتی سطح پر مسلم ممالک اپنی بھرپور کوششیں کرتے دکھائی دیتے رہے جو بہر طور کسی بھی طرح امت مسلمہ کے شایان شان نہیں تھا کہ امت مسلمہ کا ماضی تو کسی غیر مسلم کے خلاف بربریت پر میدان میں دکھائی دینے کا تھا لیکن یہاں تو ان کے اپنے مسلم بھائی بہن تہ تیغ ہو رہے تھے مگر ستاون ممالک کی اسلامی افواج کہیں نظر نہیں آئی۔ جس پر غزہ کے مسلمانوں نے جو نوحے کہے، انہیں سن کر انسان کانپ جاتا ہے لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ انفرادی طور پر ہم بذات خود جس قدر مکلف ہیں، اس کی کاوش کرنے کی کوشش ضرور کی ہے، دل سے دعا رہی کہ اللہ کریم غزہ کے مسلمانوں کی مشکلیں آسان کرے۔ اسرائیل کے ماضی کو دیکھا جائے، اس کے مستقبل کے مقاصد کو سامنے رکھا جائے تو اسرائیل سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ چین سے بیٹھ جائے اولا تو جنگ بندی کی قرارداد پر عمل درآمد ہونا بذات خود ایک مشکل امر دکھائی دے رہا ہے اور اگر اس پر عملدرآمد ہو جاتا ہے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ اسرائیل اس جنگ بندی کو مستقلا قائم رکھے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر ذی شعور کے ذہن میں کلبلا رہا ہے کہ جنگ بندی کی اس قرارداد کو روبہ عمل لانے کے لئے اقوام متحدہ کیا لائحہ عمل اختیار کری گا؟ کیا یہاں اقوام متحدہ کی فوج تعینات کی جائیگی یا اسلامی ممالک کی فوج کو یہاں تعینات کیا جائے گا؟ کیا اسرائیل اس انتظام کو قبول کرے گا؟ بالفرض اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر عملدرآمد کرانے کے لئے ایسے انتظامات کر دئیے جاتے ہیں اور اسرائیل اپنے مستقبل مقاصد کے لئے کچھ عرصہ بعد دوبارہ غزہ پر جارحیت کر دیتا ہے تو کیا ہوگا؟ اسرائیلی ریاست تو کسی بھی قانون کو ماننے سے انکاری نظر آتی ہے وگرنہ اس کی اپنی حیثیت پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہوتا ہے کہ اسرائیل بذات خود ایک ناجائز ریاست کے طور پر مشرق وسطی میں خنجر کی طرح پیوست ہے اور خطے کے امن و امان کے لئے ایک مستقل خطرہ اور دھمکی ہے۔ بہرکیف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے قرارداد منظور ہونے کے بعد، اسرائیل اس وقت عالمی سطح پر تنہا دکھائی دے رہا ہے اور مستقبل میں امریکہ کس حد تک اپنے اس موقف پر قائم رہتا ہے یا مجوزہ انتخابات کے بعد، متوقع طور پر ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ابراہیم اکارڈ ؍ ڈیل آف دی سنچری، دوبارہ روبہ عمل نظر آئے گی اور کیا ابراہیم اکارڈ، واقعتا خطے میں امن و امان کی ضامن ہو سکے گی یا کیا اسلامی ممالک اس ابراہیم اکارڈ کو تسلیم کریں گی کہ اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں دیکھتے ہیں کہ یہ جنگ بندی کس حد تک اسرائیلی جارحیت کو نکیل ڈال پاتی ہے‘‘۔
قارئین! امریکی و اسرائیلی کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے، پانچ ماہ پہلے ہی، جب مسلم دنیا اس قرارداد پر انتہائی خوش دکھائی دیتی تھی کہ ان کی سفارتی مہم کامیاب ہو چکی ہے اور سلامتی کونسل نے جنگ بندی کی قرارداد منظور کر لی ہے، غزہ کے مسلمانوں کے لئے امن ممکن ہو جائے گا، ان خدشات کا اظہار کر دیا تھا کہ کیا واقعی مجوزہ قرارداد پر عملدرآمد ہو جائیگا؟ بدقسمتی سے گزشتہ پانچ ماہ ان خدشات کی تصدیق کرتے دکھائی دئیے اور اسرائیل نے کسی بھی موقع پر پسپائی اختیار نہ کی اور نہ ہی اس قرارداد کو درخور اعتناء جانتے ہوئے، اس پر عملدرآمد کرایا البتہ اس دوران اسرائیل کی جارحیت صرف غزہ تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا دائرہ کار سرحدوں سے باہر پھیلتا ہوا دکھائی دیا ہے اور اسرائیل نے ایک طرف لبنان میں حزب اللہ سے چھیڑ خوانیاں کی ہیں تو دوسری طرف ایران کو انگیخت کرنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں کہ کسی طرح یہ جنگ سرحدوں سے باہر پھیلے اور نہ صرف اسرائیلی جارحیت کو جواز مل سکے بلکہ ایران کے جوابی حملے سے امریکہ کو بھی اس جنگ میں کودنے کا موقع میسر ہو سکے، تاہم اب تک ایسا نہیں ہو سکا۔ دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر، عالمی دبائو شدت اختیار کر چکا ہے اور اسرائیل کی مزید پشت پناہی جاری رکھنا ممکن نہیں رہا لہذا امریکہ کی جانب سے سیکرٹری انتھونی بلنکن نے اسرائیل کو دو ٹوک انداز میں جنگ بندی کا کہہ دیا گیا ہے اور شنید یہی ہے کہ اس تحریر کی اشاعت تک جنگ بندی کا اعلان متوقع ہے، تاہم اس دوران اسرائیل کی جارحیت اور غزہ کے مسلمانوں پر جاری قہر نہیں رکے گا، جیسا کہ میڈیا میں خبروں سے ظاہر ہے۔ بعد ازاں متوقع اعلان جنگ بندی، صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے، امریکی انتخابات کے بعد یہاں مستقل امن قائم ہوتا ہے یا نہیں، ابراہیم اکارڈ جبرا مسلط کیا جاتا ہے یا کوئی اور صورت گری ہوتی ہے، اس پر حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔





