ColumnImtiaz Aasi

مزاحمتی سیاست سے دست برداری

تحریر : امتیاز عاصی
ایک دور تھا سیاسی جماعتوں کے رہنما مزاحمتی سیاست کرتے تھے، وقت گزرنے کے ساتھ سیاست دانوں نے مزاحمتی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ دراصل مزاحمتی سیاست میں انہیں پولیس کی لاٹھیاں، آنسو گیس اور جیلوں میں جانا پڑتا ہے۔ وہ ایوان میں رہتے ہوئے اپوزیشن کریں تو پولیس کی لاٹھیوں ، آنسو گیس اور جیل جانے سے محفوظ رہتے ہیں۔ ہم اپنے کالموں میں کئی بار لکھ چکے ہیں سیاست دانوں کو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا انہیں اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ جو سیاست دان ایوان میں رہ کر اپوزیشن کرتے ہیں انہیں دو طرح کے فائدے ہوتے ہیں ایوان میں حاضر رہ کر ارکان کے لئے مختص لاکھوں روپے ماہانہ الاونس سے محروم نہیں رہنا پڑتا اور جیل جانے سے بچے رہتے ہیں۔ وہ سیاسی رہنما جن کا مطمع نظر مزاحمتی سیاست ہوتا ہے وہ پولیس کی لاٹھیوں اور جیلوں میں جانے سے خائف نہیں ہوتے ہے وہ ورکرز کے ساتھ سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ درحقیقت حکومت انہی جماعتوں سے خائف ہوتی ہے جو سٹریٹ پاور کے ساتھ سڑکوں پر ہوتی ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے اتحاد بارے خبریں گردش کر رہی تھیں بالاآخر جے یو آئی نے پانسا بدلا ہے اور مزاحمتی سیاست سے دست بردار ہونے کا اعلان کیا ہے۔ دراصل مولانا فضل الرحمان کو اپنی سٹریٹ پاور کا گھمنڈ ہے۔ وہ عمران خان کی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں کئی روز دھرنا دینے کے باوجود خالی ہاتھ لوٹے تھے۔ مولانا کے نزدیک وہ پی ٹی آئی سے مل کر حکومت کے خلاف تحریک چلاتے تو ان سمیت جے یو آئی کے رہنمائوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑ سکتی ہے۔ پی ٹی آئی تو پہلے معتوب ہے ایک معتوب سیاسی جماعت سے مل کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے نقصانات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری صورت میں پی ٹی آئی سے مل کر حکومت کے خلاف تحریک کا حصہ بنتے ہیں تو طاقت ور حلقے ناراض ہو سکتے تھے۔ ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو جے یو آئی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی اتحادی رہ چکی ہے۔ جے یو آئی کے امیر خسارے کے سودے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہ علیحدہ بات ہے ان والد محترم نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اپوزیشن کی تحریک میں اہم کردار
ادا کیا تھا جس میں ایک طرف انہیں وزارت اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا ملال تھا دوسری طرف اس وقت کی متحدہ اپوزیشن کو طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل تھی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے سیاسی جماعتیں طاقتور حلقوں کی آشیر باد کے بغیر کسی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی سکت نہیں رکھتیں۔ یہ بات اظہر من التمش ہے الیکشن کے نتیجہ میں اقتدار میں آنے والی حکومتوں کو طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے بہت کم سیاست دان ایسے ہوتے ہیں جو طاقت ور حلقوں کی ناراضگی کا خطرہ مول لیں۔ حالیہ سیاسی صورت حال پر نظر ڈالیں تو جماعت اسلامی، اے این پی اور جے یو آئی کسی اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔ جماعت اسلامی اپنے طور پر عوام کے مسائل کے لئے جدوجہد میں لگی ہے۔ گو ابھی تک صورت حال واضح نہیں ہے حکومت نے جماعت اسلامی کے مطالبات تسلیم کرنے کا حتمی فیصلہ کیا یا نہیں امیر جماعت اسلامی پر عزم ہیں وہ مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں تحریک کا ازسر نو آغاز کر سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کاپی ٹی آئی سے اتحاد نہ ہونے کی وجہ ظاہر ہے اس کے بانی کے خلاف ان گنت مقدمات ہیں وہ جیل میں
ہیں۔ سیاسی رہنمائوں کو مستقبل قریب میں پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں اس صورت حال میں کوئی جماعت پی ٹی آئی سے کیسے اتحاد کر سکتی ہے۔ گو پی ٹی آئی اور بعض علاقائی جماعتوں کے مابین اتحاد موجود ہے لیکن وہ حکومت کے لئے کسی خطرے کا باعث نہیں ۔ جہاں تک عمران خان اور اس کی جماعت کی مقبولیت کی بات ہے اس سے انکار ممکن نہیں ۔ پی ٹی آئی کے پاس ووٹ بنک موجود ہے قیادت کے فقدان کے باعث عمران خان کی جماعت حکومت کے خلاف کوئی بڑی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کسی حکومت کے خلاف تحریک طاقتور حلقوں کی حمایت کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی۔ خبروں کے مطابق مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے وہ بنگلہ دیش والے حالات پیدا نہیں کرنا چاہتے ہیں بہت اچھی بات ہے۔ کوئی مانے نہ مانے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے خلاف سیاسی جماعتوں کی تحریک کو طاقت ور حلقوں کی حمایت حاصل تھی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا بعض غیر مرئی قوتوں کے سیاسی عمل دخل کے باعث سیاسی جماعتیں حکومت کے خلاف متحد نہیں ہو تیں۔ جہاں تک دھرنوں کی بات ہے باوجود اس کے عمران خان نے نواز شریف حکومت کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں طویل دھرنا دیا مسلم لیگ نون کی حکومت برقرار رہی لہذ ا دھرنوں اور جلسوں سے حکومت کو ختم نہیں کیا جا سکتا تاوقتیکہ سیاسی جماعتوں کو طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل نہ ہو۔ سیاست دان طاقتور حلقوں کی سیاست میں مداخلت کا رونا روتے ہیں تو یہ کیا دھرا سیاست دانوں کا اپنا ہے لہذا سیاسی رہنمائوں کو طاقت ور حلقوں کو سیاست میں مداخلت کا موقع فراہم کرنے کے الزام سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مولانا فضل الرحمن کی اس بات پر غور کریں وہ ریاست کو غیر مستحکم نہیں کرنا چاہیں گے بہت اچھی بات ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے ملکی ترقی میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔ مولانا نے ایک بات واضح کر دی مسائل کے حل کے لئے وہ دیگر جماعتوں سے اتحاد کر سکتے ہیں جو اس امر کا بات کا غماز ہے جے یو آئی پی ٹی آئی سے اتحاد نہیں کرے گی۔ سیاست دانوں کو ملک و قوم کے مسائل کی فکر ہوتی تو ہمارے ملک کا شمار مقروض ترین ملکوں میں نہ ہوتا ہمارے ملک کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا۔ جس ملک کے سیاسی رہنمائوں کی سیاست کا مقصد اپنے اثاثوں میں اضافہ کرنا ہو ایسے ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ مولانا اب کسی جماعت سے اتحاد کئے بغیر تحریک چلائیں گے عوام کو اس کا انتظار کرنا ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button