Column

ہر نئے حادثے پہ حیرانی۔۔۔ پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہوتی

تحریر :محمد ناصر شریف

محمد افضل المعروف باقی صدیقی پنجابی، پوٹھوہاری اور اردو زبان کے مشہور شاعر ہیں، ان کی وجہ شہرت مشہور غزل ’’ داغ دل یاد آنے لگے‘‘ ہے، ان کا ایک شعر ہے:
ہر نئے حادثے پہ حیرانی
پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہوتی
اقرا یونیورسٹی کے پروفیسر امتیاز عالم نے عمران عارف سے متعلق بتایا کہ ان کے بھائی کم آمدن کی وجہ سے اپنے بچوں اور بچیوں کو خود موٹرسائیکل پر اسکول، کالج اور یونیورسٹی لے کر جاتے اور واپس لاتے تھے، حادثے کے وقت وہ اپنی بیٹی آمنہ عارف کو دفتر سے گھر واپس لارہے تھے۔ آمنہ عارف نے امتیازی نمبروں سے معاشیات میں ڈگری حاصل کی تھی اور اس کے بعد اقرا یونیورسٹی میں بزنس کے شعبے میں یہ سوچ کر داخلہ لیا کہ انہیں بہتر ملازمت مل سکے گی۔ آمنہ سسٹمز لمیٹڈ میں کنسلٹنٹ کے طور پر کام کر رہی تھی، ساتھ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی، وہ دن بھر دفتر میں مصروف رہتی اور شام میں پڑھائی کرتی۔ آمنہ کا ماسٹر مکمل ہونے کے قریب تھا، 17ستمبر کو ایک انٹرویو تھا جس کے بعد ڈگری مل جاتی۔
وہ بہت پرجوش تھی کہ ڈگری ملنے کے بعد ترقی مل جائے گی اور تنخواہ ایک لاکھ روپیہ یا زیادہ ہو جائیگی جس سے وہ گھر کے حالات بہتر کرنے کی امید رکھتی تھی۔ آمنہ عارف کے سینئر ساتھی کا کہنا تھا کہ ان کو ڈگری کا انتظار تھا کہ ڈگری ملتے ہی ترقی مل جائے گی۔ حادثے میں ہلاک ہونے عمران عارف کے والد شہزاد منظر روزنامہ مساوات کے اسسٹنٹ ایڈیٹر رہے تھے اور جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں اخبار کو پیپلز پارٹی سے قربت کی وجہ سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بعد میں وہ قلمی نام تبسم سے جنگ اور اخبار جہاں میں بھی لکھتے رہے جبکہ عمران عارف موٹر سائیکل پر بچوں کے چپس اور پاپڑ سپلائی کرتے تھے۔ آمنہ تین بچوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔ گزشتہ روز دونوں باپ بیٹی ک ان کے اپنے خوابوں، ارمانوں، آہوں اور سسکیوں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
گل احمد انرجی لمیٹڈ کے چیئرمین دانش اقبال کی بیوی نتاشا نے شراب کے نشے میں دھت ہو کر کارساز روڈ پر اپنی پراڈو سے 5لوگ کچلے جن میں یونیورسٹی کی طالبہ آمنہ عارف اور ان والد بھی شامل تھے۔ دونوں جاں بحق ہوگئے۔ ملزمہ نتاشا اول تو ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے وکلا شاید اس کی ذہنی صحت کی خرابی کو ثابت کرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں۔ مقدمے میں سیکشن 322( قتل بالسبب ) قتل خطاء کی دفعہ 320شامل ہیں جو ایسی دفعات ہیں جن پر کسی سخت سزا کا ملنا محال ہی ہے اور ملزمہ تمام تر قانونی سقم کا فائدہ اٹھاکر بچ نکلنے میں کامیاب بھی ہوجائے گی۔ پہلے روز پولیس نے ملزمہ کو عدالت میں پیش نہیں کیا۔ تفتیشی افسر سب انسپکٹر عامر الطاف نے ملزمہ کی عدم پیشی اور ملزمہ کی عارضی میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں جمع کرا دی اور کہا کہ جناح اسپتال کے ماہر نفسیات ڈاکٹر چنی لعل نے ملزمہ کا معائنہ کرکے اسپتال میں داخل کرلیا ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق ملزمہ کی حالت ایسی نہیں کہ اسے عدالت لایا جائے، ملزمہ کی ذہنی حالت بہت خراب ہے لہٰذا ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ملزمہ کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔ سماعت کے دوران ملزمہ کے وکیل نے درخواست کی کہ میری موکلہ کو ضمانت دی جائے کیونکہ میری موکلہ کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ جناح اسپتال میں زیر علاج ہے۔ عدالت نے ملزمہ کو جسمانی ریمانڈ کے بجائے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ کیس کی ابتدائی سماعت کے بعد عام تاثر یہی ہے کہ نتاشا کو سزا نہیں ملے گی۔ اس کا شوہر، وکیل اور ہماری عدالتیں اسے ملک سے باہر بھیج دیں گی۔
لغت کی رو سے ایلیٹ طبقہ جسے اردو میں ’’ اشرافیہ یا طبقہ بالا‘‘ کہتے ہیں، انسانوں کا ایسا گروہ ہے جو اپنی صلاحیتیوں اور قابلیت کی بنا پر دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جائے۔ ماہرین ِسیاسیات و عمرانیات کی رو سے ایک ریاست میں ایلیٹ طبقہ ان گنے چنے افراد پر مشتمل ہوتا ہے جو زیادہ طاقت ، دولت اور اثر و رسوخ رکھتے ہوں۔ یہ ایلیٹ طبقہ حکومت کرتا اور ملکی وسائل سے مستفید ہوتا تھا۔ وہ عموماً خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا جبکہ عوام پائوں کی جوتی سمجھے جاتے ۔ قانون توڑنا اور مروڑنا اس کا وصف خاص تھا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کا اپنے ملکی نظام سے اعتبار ختم ہوگیا ہے اور اب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں جس کے پاس جتنا پیسہ ہوگا وہ اتنا ہی طاقتور ہوگا اور اس پیسوں کے حصول کی جنگ اس قدر طول پکڑ گئی ہے عام و خاص سب ہی جائز و ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہوئے اس کے حصول کے لئے سرگرداں ہیں کیونکہ یہ پیسہ ہی ہے جو پاور یا مستند اقتدار و اختیار تک پہنچاتا ہے۔
یہ بھی کسی المیے سے کم نہیں کہ ایلیٹ کلاس کی خواتین اور بچوں میں نشے کی عادت زور پکڑ رہی ہے، خصوصاً یہ لوگ آئس کا نشہ کر رہے ہیں۔ پوش علاقوں میں جس طرح کی محافل سجائی جاتی ہیں اور وہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کی روداد بھی تحریر میں نہیں لائی جاسکتی۔ اب ایلیٹ کلاس کو خود ہی اس جانب توجہ دینی ہوگی کہ وہ جس نشے کی لت میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں اور اخلاقی اقدار کی پستی کی جانب سفر کر رہے ہیں اس سے وہ خود کو اور اپنے خاندان کو کس طرح بچا سکتے ہیں۔
رہا عوام کا مسئلہ تو وہ ایک دو دن کسی حادثے پر غم و غصہ کرنے کے بعد کسی نئے حادثے سے دوچار ہوجائیں گے جیسا کہ اس واقعے کے دوسرے ہی دن یعنی منگل کو اسکوٹی چلاتے ہوئے خاتون سلپ ہوکر گری تو پیچھے سے آنیوالے ڈمپر نے انہیں کچل دیا ۔23سالہ سارہ بھی نجی کمپنی میں ملازمت کرتی تھیں اور اپنے گھر والوں کی کفالت کے فرائض انجام دیتی تھیں۔ اس حادثے کے بعد پھر وہی سوال اٹھ جاتا ہے کہ آیا دن و شام کے اوقات میں ہماری سڑکوں پر یہ ڈمپر کیوں دندناتے پھرتے ہیں اور وہی جواب کہ جیبیں بھرتی رہتی ہیں اور قانون کا مذاق بنتا رہتا ہے اور زندگیوں کے چراغ گل ہوتے رہتے ہیں۔
بدھ کو ایک اور اندوہناک خبر اس مضمون کو تحریر کرنے کے دوران ملی کہ ایرانی شہر یزد میں پاکستانی زائرین کی بس خوفناک حادثے کا شکار ہو گئی، جس کے نتیجے میں 35افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ دیگر 18زخمی ہوگئے ہیں۔ ایرانی میڈیا کے مطابق زائرین کی بس بریک فیل ہونے کے باعث بے قابو ہو کر دہشیر تفتان چیک پوائنٹ کے سامنے الٹ گئی، جس کے بعد بس میں آگ لگ گئی۔ یہ بس ان دو بسوں میں سے ایک ہے جو لاڑکانہ سے 110زائرین پر مشتمل قافلہ لیکر روانہ ہوئی تھی۔ یہ حادثہ بھی تیز رفتاری کا نتیجہ نکلا ، پتہ نہیں گاڑیوں کے سٹیئرنگ پر بیٹھا شخص کس جلدی یا ہیجان کا شکار ہوتا ہے وہ خود کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے اور دوسروں کے چراغ ہی گل کر دیتا ہے ، دکھ کی اس گھڑی میں ہماری تمام تر ہمدردیاں تمام غمزدہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ اللہ سب کو اپنی پناہ میں رکھے۔۔ ( آمین)

جواب دیں

Back to top button