کس کس کا ماتم کریں

تحریر : سیدہ عنبرین
ملک بھر میں روزانہ 300سے زائد حادثات میں سو سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ نصف سے زیادہ حادثات امیروں کے شاہانہ انداز زندگی کے زیر اثر ایک تاثر کے تحت وقوع پذیر ہوتے ہیں، جس میں وہ سمجھتے ہیں وہ کچھ بھی کر لیں کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، حتیٰ کہ وہ کسی کو اپنے قدموں روند ڈالیں یا انہیں اپنی گاڑی تلے کچل ڈالیں، یہ سب ان کا حق ہے، غریب آدمی کو ان کے شوق تیز رفتاری کے سامنے جینے کا بھی حق نہیں ہے۔
اس شوق تیز رفتاری اور دولت و ثروت کے ساتھ ساتھ بااثر ہونے کے گھمنڈ نے ایک اور باپ بیٹی کی جان لے لی ہے۔ امیر ترین خاندان کی لگژری گاڑی میں سوار ایک لڑکی نے پاپڑ بیچ بیچ کر گھر کا خرچ چلانے والے باپ اور اس کے ساتھ تعلیم کے ساتھ ساتھ ملازمت کرنے والی بیٹی کو اپنی گاڑی تلے دور تک گھسیٹا، جس کے سبب وہ دونوں موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
کراچی شہر میں پیش آنے والا یہ واقعہ سیکڑوں افراد نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ پبلک پریشر کے سبب مقدمہ بھی درج ہوا، مگر اس کے بعد کیا ہو گا، اظہر من شمس ہے۔
بدقسمت بیٹی ایم بی اے کر چکی تھی، وہ پی ایچ ڈی کرنا چاہتی تھی، سی ایس ایس کرنا چاہتی تھی لیکن نوکری کرنے پر مجبور تھی، باپ کے پاپڑ بیچنے سے حاصل ہونے والی کمائی سے تو پیٹ بھرنے کیلئے پاپڑ ہی خریدے جا سکتے تھے، گھر کا کرایہ، پانی، بجلی، سوئی گیس کے بل اور مہنگی ترین اشیائے خورونوش کیلئے ادائیگی کرنے کے بعد ملاوٹ شدہ اشیا خریدنا اور ایک کلو کی ادائیگی کے بعد 900گرام چیز ملنا وہ ظلم علیحدہ ہیں، جنہیں وہ روزانہ کی بنیاد پر برداشت کر رہی تھی، یہ ظلم آج ہر پاکستانی کے ساتھ ہو رہا ہے، کسی حکومت کی ادھر توجہ نہیں۔ حادثے میں باپ بیٹی کو کچلنے کے بعد اس لڑکی کی گاڑی دو موٹر سائیکل سواروں پر چڑھ گئی، جو زخمی ہوئے۔
پولیس کی کارکردگی ملاحظہ فرمائیے، جس نے دو جانیں لینے والی ملزمہ کا میڈیکل کرانا مناسب نہیں سمجھا، وہ حادثے کے وقت حالت نشہ میں نظر آئی، موقع پر موجود درجنوں افراد نے اس کی ویڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر ڈال دی، جس میں صاف نظر آ رہا ہے کہ لڑکی ہوش و حواس میں نہیں، مقدمہ درج ہونے کے فوراً بعد متمول خاندان کے وکلا تھانے پہنچ گئے اور ضمانت کیلئے موقف اختیار کیا کہ ملزمہ کا ذہنی توازن درست نہیں، لہٰذا حق ضمانت دیا جائے، حادثے میں دو جانیں نہ گئی ہوتیں، حادثے کا شکار ہونے والوں کی دو، چار ہڈیاں ٹوٹی ہوتیں جس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کیلئے معذور ہو سکتے تھے تو جب بھی فوراً ضمانت مل جاتی، عوام کا غیض و غضب دیکھ کر ایک روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کا فیصلہ ہوا، جس کے بعد ملزمہ کو ایئر کنڈیشنڈ روم میں شفٹ کر دیا گیا اور فائیو سٹار سہولتیں ملنا شروع ہو گئیں، مبینہ طور پر ملزمہ انہی کے زیر اثر نظر آتی تھی، اس نے حادثے کے فوراً بعد نادم ہونے کی بجائے الٹی سیدھی حرکتیں شروع کر دیں، جو مختلف ویڈیو کلپس میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ عین ممکن ہے وہ پاگل پن کی ایکٹنگ کر رہی ہو۔
افسوسناک حادثے کا انجام ہمارے سامنے ہے، خبر آئے گی کہ مرنے والے کے اہلخانہ نے ملزمہ کو خدا کی خوشنودگی کیلئے معاف کر دیا، جس کے بعد ملزمہ کو ایک اور حادثہ کرنے، ایک اور خاندان کو اپنی قیمتی گاڑی تلے کچلنے کا لائسنس مل جائے گا، پھر ایک اور حادثہ، اس کے بعد ایک اور حادثہ، ہم لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھتے رہیں گے اور کچلنے والے عام انسانوں کو کچلتے رہیں گے اور باعزت بری ہوتے رہیں گے۔
کار ساز کراچی کے قریب ہونے والا یہ حادثہ ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا حادثہ نہیں ہے، حادثوں کا ایک تسلسل ہے، جو صرف اس وجہ سے نہیں رک سکا کہ آج تک ٹریفک حادثے میں لوگوں کو روندنے والوں کو سزا نہیں ملی، وہ ذہنی توازن خراب ہونے کے بہانے بری کر دیئے گئے یا پھر انہیں غریب لوگوں نے اس لئے اللہ کی راہ معاف کر دیا کہ وہ بااثر ملزمان کے سامنے کھڑے ہونے کے وسائل نہ رکھتے تھے، انہیں ڈرا دھمکا کر مقدمے کی پیروی سے روک دیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ گاڑی کے نیچے آ کر مرنے والا تو مر گیا، ہم تمہاری قبر بھی اس کے ساتھ بنا دیں گے، ہمارے یہاں قانون اتنا طاقتور ہے کہ طاقتور کے ساتھ کھڑا ہوکر انصاف تقسیم کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست ایسے مقدمات میں خود مدعی بنے اور ملزم کو سزا دلوائے۔
اس حادثے نے ماضی کے کئی زخم تازہ کر دیئے۔ اسلام آباد میں ایسے ہی طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک عورت کے بیٹوں نے تیز رفتار گاڑی فٹ پاتھ پر چلنے والے 3نوجوانوں پر چڑھا دی، جو کسی دور افتادہ گائوں سے نوکری کی تلاش میں انٹرویو دینے آئے تھے، حادثے کے بعد ملزمان گاڑی بھگا لے جانا چاہتے تھے، لیکن لوگوں نے راستہ نہ دیا، اس عورت اور اس کے خاوند نے دولت کے زور پر اپنے ملزم بیٹوں کیلئے راستہ بنایا، کسی کو کوئی سزا نہ ملی۔
بلوچستان کے شہر اور دارالحکومت کوئٹہ سے میں لگژری گاڑی میں سوار ایک ممبر صوبائی اسمبلی تیز رفتاری سے جا رہے تھے اور ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ فون پر بھی مصروف تھے، انہوں نے چوک میں ڈیوٹی پر مامور ٹریفک کانسٹیبل پر گاڑی چڑھا دی، جو موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔ ملزم ممبر صوبائی اسمبلی اس حادثے کے بعد رکے نہیں بلکہ فرار ہو گئے، سی سی ٹی وی کی مدد سے ان کا سراغ مل گیا تو انہوں نے پھر بھی ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہوئے اپنی جگہ اپنے ڈرائیور کو پیش کر دیا اور قانون کی آنکھوں میں مرچیں جھونکنے کی پوری کوشش کرتے ہوئے کہا کہ حادثے کے وقت وہ گاڑی ڈرائیو نہیں کر رہے تھے لیکن ملنے والی فوٹیج نے ان کا جھوٹ بے نقاب کر دیا، تمام تر ثبوت ملنے کے باوجود قانون ان کے ساتھ کھڑا رہا، وہ ایک لمحہ کیلئے بھی گرفتار نہ کئے گئے، بالآخر اس الزام سے بری ہو گئے، مرنے والے کی موت کی خبر تین سطروں میں شائع ہوئی، ملزم کے بری ہونے کی خبر جعلی حروف میں شائع ہوئی، ایسے درجنوں کیس ہیں جہاں فیس دیکھا جاتا ہے، کیس کو کوئی نہیں دیکھتا، جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں قانون بنایا گیا کہ حادثے کے نتیجے میں کسی کی جان لینے والے کو سزائے موت دی جائے گی، جتنے روز یہ قانون رہا، ملک بھر میں کوئی ٹریفک حادثہ نہ ہوا، پھر چند ہفتے کے اندر اندر قانون بنانے والوں نے لوگوں کی جان لینے والوں کے اصرار پر یہ قانون ختم کرا دیا۔ کس کس کا ماتم کریں۔







