عمر

علیشبا بگٹی
ایک بادشاہ نے اعلان کیا کہ جو شخص جھوٹ بولتے پکڑا گیا۔ اِس کو 5دینار جرمانہ ہوگا۔ لوگ ایک دوسرے کے سامنے بات کرنے سے بھی ڈرنے لگے۔ کہ اگر جھوٹ بولتے پکڑے گئے۔ تو جرمانہ نہ ہو جائے۔
ادھر بادشاہ اور وزیر بھیس بدل کر شہر میں گھومنے لگے۔ جب تھک گئے تو آرام کرنے کی غرض سے ایک تاجر کے پاس ٹھہرے۔ اس نے دونوں کو چائے پلا دی۔
بادشاہ نے تاجر سے پوچھا تمہاری عمر کتنی ہے ؟ تاجر نے کہا 20سال۔ بادشاہ نے پوچھا۔ تمہارے پاس دولت کتنی ہے۔ تاجر نے کہا 70ہزار دینار۔ بادشاہ نے پوچھا تمہارے بچے کتنے ہیں۔ تاجر نے جواب دیا، ایک۔
واپس آکر انہوں نے سرکاری دفتر میں تاجر کے کوائف اور جائیداد کی پڑتال کی تو پتہ چلا کہ یہ اس کے بیان سے مختلف تھی۔
بادشاہ نے تاجر کو دربار میں طلب کیا اور وہی تین سوالات دہرائے۔ تاجر نے وہی جوابات دئیے۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا۔ اس پر 15دینار جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ اس سے لیکر یہ سرکاری خزانے میں جمع کر دو۔ کیونکہ اس نے 3جھوٹ بولے ہیں۔
سرکاری کاغذات میں اس کی عمر 35سال ہے۔ اس کے پاس 70ہزار دینار سے زیادہ رقم ہے۔ اور اس کے 5لڑکے ہیں۔
تاجر نے کہا۔ زندگی کے 20سال ہی نیکی اور ایمان داری سے گزرے ہیں۔ اسی کو میں اپنی عمر سمجھتا ہوں۔ زندگی میں 70ہزار دینار میں نے ایک مسجد کی تعمیر میں خرچ کئے ہیں۔ صرف اسی کو اپنی دولت سمجھتا ہوں۔ اور 4بچے نالائق و بد اخلاق ہیں۔ ایک بچہ اچھا اور سمجھدار ہے۔ اسی کو میں اپنا بچہ سمجھتا ہوں۔
یہ سن کر بادشاہ نے جرمانے کا حکم واپس لے لیا اور تاجر سے کہا ہم تمہارے جواب سے خوش ہوئے۔ وقت وہی شمار کرنے کے لائق ہے۔ جو نیک کاموں میں گزر جائے۔ دولت وہی ہے جو نفع بخش ہو، جو راہ خدا میں خرچ ہو اور اولاد وہی ہے جو نیک ہو، سمجھدار ہو۔
ہم اس بات کا خیال رکھیں کہ زندگی کا کوئی لمحہ رائیگاں نہ ہو بلکہ وہ بندگی طاعت اور کارخیر میں گزرے۔ حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ وقت کو اگر کارِ خیر میں صرف نہ کیا جائے تو وہ انسان کو شر میں مبتلا کر دیتا ہے۔ زندگی کے لمحوں کو رائیگاں ہونے نہ دیں۔ کیونکہ ہماری زندگی کے لمحات کو صحیح مصرف میں خرچ کرنے یا نہ کرنے پر ہی جنت یا جہنم کی ابدی زندگی کا دار و مدار ہے۔ اس سے یہ بات عیاں ہوگئی۔ کہ وقت ہی عمر ہے۔ اگر ہم نے وقت کا کوئی حصہ ضائع کر دیا تو اپنی عمر عزیز کا ایک حصہ ضائع کر دیا۔ جس کے لئے لمحے لمحے کا ہم سے روز حشر حساب لیا جائے گا۔
حدیث ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ روز محشر میں حساب کی جگہ سے کسی بند ے کے قدم اس وقت تک کھسک نہیں سکیں گے جب تک اس سے اس کی عمر کے حوالے سے یہ نہیں معلوم کرلیا جائے گا کہ تو نے اس کو کس میں صرف کیا ہے؟‘‘۔
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے : ’’ سو کیا تم خیال رکھتے ہو کہ ہم نے تم کو بنایا کھیلنے کو‘‘۔
قرآن کریم میں ذات باری تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ’’ قسم ہے زمانے کی انسان بڑے خسارے میں ہے‘‘۔
عمر ایک ایسی جنس گراں مایہ ہے۔ جس کا بدل سیم و زر مال و دولت یا بیش قیمت جواہرات میں بھی تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی میں ہر وہ چیز قیمتی ہے جو دوبارہ نہ ملے۔ جیسے وقت اور عمر دوبارہ نہیں ملتا۔







