
سی ایم رضوان
پنجاب میں دو ماہ کے لئے بجلی کے بل کی قیمت میں 14روپے فی یونٹ کمی کی گئی ہے۔ حکومتِ پنجاب کے مطابق اس مد میں 45ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ اس اعلان کے بعد دیگر صوبوں کی حکومتوں پر بھی جہاں اس نوعیت کے ریلیف کی فراہمی کے لئے دبا بڑھ رہا ہے وہاں ان صوبوں کی حکومتیں اور دیگر سیاسی عناصر بھی تلملا اٹھے ہیں۔ معاشی ماہرین بھی اسے شاہی طاقت کا اظہار قرار دے کر کہہ رہے ہیں کہ اس طرح کے عارضی ریلیف اقدامات کے بجائے حکومت کو اصلاحات کرنا ہوں گی۔ یہ ریلیف توانائی کے شعبے میں موجود گڑبڑ کو ختم کرنے کا ذریعہ کبھی بھی نہیں بن سکتا اور سبسڈیز سے صرف وقتی ریلیف تو میسر آ سکے گا لیکن بعد ازاں اس کے نقصانات ہی سامنے آئیں گے۔ ایسے میں چودہ ارب روپے کی رقوم ریلیف میں دینا کرنسی نوٹوں کو ہوا میں اڑانے کے مترادف ہو گا۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ وطن عزیز میں اس وقت کئی جگہوں پر شہریوں کو گھروں کے کرائے سے زیادہ بجلی کے بل موصول ہو رہے ہیں اور ملک میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث حکومت پر شدید تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ حال ہی میں صرف ایک ماہ میں بجلی کی قیمت میں فی یونٹ پانچ روپے 89پیسے کا مزید اضافہ کیا گیا ہے۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ دراصل اس اقدام پر شدید تنقید سے بچنے کے لئے برسرِ اقتدار جماعت مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بجلی کے بلوں میں دو ماہ کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بجلی کے شعبے میں نقصان کے باعث بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافہ روکنے کے لئے کئی اقدامات کر رہی ہے لیکن اس شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کے شعبے میں سبسڈیز یعنی رعایتیں دینا کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے مزید مسائل جنم لیں گے۔
پنجاب حکومت کے اس انوکھے فیصلہ پر سندھ حکومت اور سندھ کی مختلف سیاسی جماعتیں بالخصوص ایم کیو ایم، جماعتِ اسلامی کھل کر تنقید کر رہے ہیں ایم کیو ایم کے قائد ڈاکٹر فاروق ستار نے تو صوبائی سول نافرمانی تک کے خدشات کا ذکر کر دیا ہے۔ بلاول بھٹو بھی پنجاب سے ترقی کا تقابل کرنے بیٹھ گئے ہیں اور جماعت اسلامی نے پھر سے سڑکوں پر آنے کی دھمکی دے دی ہے۔ سندھ کے دوسرے دو صوبوں کے شہری بھی اپنے لئے اسی قسم کے ریلیف پیکج کے لئے آواز اٹھا رہے ہیں۔ سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اس قسم کا ریلیف صرف پنجاب کی حد تک ہی کیوں دیا جا رہا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے چیمبر آف کامرس نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ بجلی بلوں میں ریلیف سندھ کے عوام اور تاجر برادری کی بقا کے لئے اشد ضروری ہے۔ ایک اعلامیے میں اس تنظیم نے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ملکی معیشت میں کراچی کے کردار کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومت سندھ میں بھی جلد از جلد بجلی کے بلوں میں ریلیف دے۔
ملک بھر میں بجلی بلوں میں عوام دشمنی پر مبنی اضافے کو اصولی طور پر آئی پی پیز کا کیا دھرا قرار دیا جاتا ہے جن کے تحت نجی بجلی گھر کام کر رہے ہیں اور یہ مطالبہ ہر طرف سے بڑی شدت سے کیا جا رہا ہے کہ نجی بجلی گھروں کے معاہدے ختم کر دیئے جائیں تو بجلی سستی ہو جائے گی۔ ان حالات میں پنجاب حکومت نادانی یا ہشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عارضی ریلیف کی فراہمی کا ڈول ڈال دیا ہے۔ بعض
عوامی حلقے تو ان کی ہشیاری کے حق میں یہ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ نجی بجلی کمپنیوں کے مالکان بھی یہی حکومتی ذمہ داران ہیں اور یہی سبسڈی دینے پر بھی اس لئے بضد ہیں کہ ریلیف میں دی گئی رقوم کمپنیوں کے ذریعے واپس انہی کے کھاتوں میں چلی جائیں گی اور دو ماہ کے بعد عوام کو ایڈجسٹمنٹ کے نام پر پھر سے یوں لوٹا جائے گا کہ ریلیف کی دی گئی رقوم ایک بار پھر ان بجلی کمپنیوں کے کھاتوں میں جائیں گی لہٰذا حکمران یہ ریلیف دے کر گھاٹے کا نہیں بلکہ ڈبل منافعے کا سودا کر رہے ہیں کیونکہ یہ ڈبل شاہوں کی حکومت ہے لہٰذا یہ سبسڈیز بجلی کی پیداواری لاگت کم کرنے کا شافی علاج ہر گز نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ تو طے ہے کہ پنجاب حکومت کے اس اقدام سے بجلی کی پیداوار سستی نہیں ہو گی۔ یہ سردست تو عوام کو وقتی ریلیف فراہم کرنے کی کوشش ہے اور اس کا اصل مقصد سیاسی فوائد کا حصول بھی نظر آتا ہے۔ بعض ماہرین معیشت کھپت بڑھانے والی سبسڈیز کے حق میں بالکل نہیں کیونکہ ان کے خیال میں بجلی کے شعبے کے اکثر مسائل سبسڈیز دیئے جانے ہی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ان ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ اصل میں اس اعلان سے بجلی کی پیداواری لاگت کم نہیں ہو رہی بلکہ ٹیکس دینے والے شہریوں کا پیسہ سبسڈیز یعنی رعایتیں دینے کی جانب موڑا گیا ہے جبکہ بجلی کے شعبے کے مسائل اس وقت حل ہوں گے جب توانائی کی پیداوار پر آنے والے خرچے کو کم کیا جائے گا۔ اس لئے سبسڈیز اس مسئلے کا حل نہیں ہو سکتیں بلکہ یہ پریشانی بڑھانے والی بات ہے۔ البتہ اس ریلیف پیکیج سے ایسے صارفین کو ضرور وقتی فائدہ پہنچ سکتا ہے جنہیں لائف لائن صارفین کہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ لائف لائن صارفین ایسے صارفین کو کہا جاتا ہے جن کا بجلی کا خرچہ انتہائی کم ہوتا ہے اور ان کا ماہانہ بل 100یونٹس تک ہو سکتا ہے۔ دوسرا یہ
کہ یہ رعایت صرف دو ماہ کے لئے ہے اور چونکہ اگست اور ستمبر کے بعد بجلی کی کھپت کم ہو جائے گی تو پھر بل بھی کم ہو جائیں گے۔ حالانکہ ایسے رعایتی پیکیج جون اور جولائی کی شدید گرمیوں میں زیادہ موثر ثابت ہو سکتے تھے جبکہ مجموعی صورتحال یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس شعبے میں اصلاحات لائے بغیر حالت تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ اب بھی دو ماہ بعد ہم دوبارہ اسی مسئلے میں پھر سے الجھے ہوں گے جبکہ ایک صوبہ میں ریلیف اور دیگر تین میں تکالیف سے جو سیاسی اودھم مچے گا اس کی خاک سے منہ علیحدہ طور پر کالے ہوں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس وقت بلوں میں سبسڈی دینے کا مقصد کم آمدن یعنی لوئر مڈل کلاس کو بلوں کی ادائیگی میں مدد فراہم کرنا ہے کیونکہ تمام جائزے اور سرویز بتا رہے ہیں کہ اس طبقے کے گھرانوں کو بالخصوص بجلی کے بلوں میں کافی مشکلات آ رہی ہیں۔ سمجھنے کی بات یہی ہے کہ دو ماہ کے لئے 14روپے کی چھوٹ دینے کے اس عرصے میں دوررس اصلاحات ہو سکتی ہیں۔ بجلی کے بلوں پر نافذ ٹیکسز، قرضوں کی ادائیگی کے لئے لگایا گیا سرچارج، آئی پی پیز کے مسائل، کارآمد پلانٹس کو گیس کی فراہمی نہ ہونے جیسے مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اس صورت میں اگر دیگر صوبوں کے عوام بھی ایسے مطالبات کرتے ہیں تو اس مطالبے میں وہ حق بجانب ہیں۔ لیکن اشد ضرورت یہ ہے کہ بجلی کی قیمت کو مستقل طور پر کیسے کم کیا جا سکتا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ بجلی بنانے والے بجلی گھروں یعنی آئی پی پیز کے کیپیسٹی چارجز کم کیے جائیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کئی علاقوں میں ناکارہ پلانٹس چلا کر مہنگی بجلی حاصل کی جا رہی ہے اور اس کا اثر پورے ملک کے عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس عمل سے اس پلانٹ سے بجلی حاصل کرنے والوں کو حکومت سبسڈی دے کر اس مسئلے کو وہیں حل کر سکتی ہے۔ لیکن پورے ملک پر اس کو تقسیم کر کے بجلی کے بلوں میں ڈالنا سراسر غلط ہے یہی وجہ ہے کہ ملک کا توانائی کا شعبہ بہت زیادہ ابتری کا شکار ہے۔
یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہر صوبہ اپنی مالیاتی پوزیشن کو دیکھ کر یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس کے پاس اس قسم کا ریلیف دینے کی کس قدر گنجائش ہے۔ اگر پنجاب نے یہ رقم اپنے ترقیاتی بجٹ کم کر کے اس جانب خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو کوئی اور صوبہ بھی اس پر فیصلہ سازی کر سکتا ہے لیکن چونکہ بجلی کے شعبے میں سبسڈی کے لئے فراہم کی گئی یہ رقم پنجاب کے ترقیاتی بجٹ سے فراہم کی جائے گی، اس سے صوبے کی معاشی شرح نمو پر اثر ضرور پڑے گا۔ ہو سکتا ہے کہ حکومتی عہدیداران نے آئی ایم ایف کے حکام کو اس امدادی پیکیج پر آمادہ کر لیا ہو اور انہیں اس کی ضرورت کا احساس دلوایا ہو گا لیکن آئی ایم ایف کو اس پر آمادہ کرنے اور دیگر معاملات سے بڑھ کر بجلی کے شعبے میں اصلاحات لانے کی زیادہ ضرورت ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کو وسائل کی تقسیم میں سب سے بڑا حصہ صوبہ پنجاب ہی کو ملتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے ترقیاتی منصوبوں کو کم کر کے بآسانی یہاں رقم خرچ کر سکتا ہے لیکن سندھ کے علاوہ دیگر دو صوبوں کی مالی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں۔ ایسے میں معاشی ماہرین اس مسئلے کے حل کے لئے نمائشی اقدامات کے بجائے دیرپا اقدامات اٹھانے پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس وقت قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں کو زیادہ سے زیادہ ترجیح دینے کی ضرورت ہے اور وفاقی سطح پر بجلی بنانے والے کارخانوں سے معاہدوں پر نظرِ ثانی اور حکومتی ٹیکسز کم کرنے کی ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں بجلی کے شعبے میں ہونے والے نقصانات اور گردشی قرضہ 2600ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے اور ہر ماہ اس میں اربوں روپے کا اضافہ ہو رہا ہے اور یہ مجموعی رقم ملک کے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہو چکی ہے اب اس سلسلہ میں بھی فوج پر تنقید فضول ہے۔





