Column

تعلیمی حصول میں ڈومیسائل لازم کیوں

تجمل حسین ہاشمی
لفظ ’’ غیر مقامی ‘‘ کی سمجھ کے لیے آپ کو چند سال غیر مقامی رہنا پڑے گا۔ آپ بلوچستان، سندھ، کے پی کے اور پنجاب کے ان علاقوں میں وقت گزار کر دیکھیں۔ جہاں آج بھی لوگ چٹنی سے روٹی کھاتے ہیں، میں نے لوگوں کو پانی کے ساتھ روٹی کھاتے دیکھا ہے۔ جہاں پر انسانوں کے لیے کچھ نہیں ہے۔ وہاں ایسا کچھ میسر نہیں، جس کے بدلے میں وہ بھاری ٹیکس دے رہے ہیں۔ بس صرف ایک ہی نعمت’’ آزادی‘‘ ہے یا پھر خدا کا فضل، ہوا، پانی اور زمین، جس سے ان کا گزار بسر ہے۔ اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسری جگہ پر خود کو سٹیل کرنا کتنا تکلیف دہ ہے، اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اس عمل سے گزرتا ہے۔ حکومت کی اپنی مجبوریاں ہیں، قوم کیا کر سکتی ہے، ہر دفعہ ووٹ دے کر انتظار کرتے ہیں کہ حالات بدل جائیں گے۔ 77سال تو انتظار میں گزار گئے ہیں۔ پھر وہ ہجرت نہ کریں تو کیا کریں۔ سندھ حکومت کی طرف سے تو سختی ہو چکی ہے۔ دوسرے صوبے سے وابستہ افراد صوبہ سندھ سے تعلیمی مراعات حاصل نہیں کر سکتے۔ ایک ہجرت آبائو اجداد کی تھی۔ ہمارے ہاں وہ مہاجر ہیں اور دنیا مہاجر کو خارجی کہتی ہے۔ وہاں خارجی کی کیا حیثیت ہے سب کو معلوم ہی۔ اپنے ہی ملک میں روزگار کمانے والوں کو غیر مقامی بنا کر جرم کیا جا رہا ہے۔ اس فرسودہ نظام اور کوٹہ سسٹم نے اپنے ہی ملک میں تفریق کو پیدا کیا ہے۔ اس تفریق میں ایک اور لفظ ’’ غیر مقامی ‘‘ کا اضافہ کر کے
ایک مسلمان بھائی کو دوسرے کے مخالف کھڑے کر چکے ہیں، غیر مقامی کون ہیں، ان کی داستان سنیں، ان کے درد سنیں، کہ غیر مقامی ہونا کتنا تکلیف دے عمل ہے۔ کوئی اپنا گھر بار، بچوں کو چھوڑ کر دوسرے صوبوں میں تنہا رہ کر کیسے شب روز گزارتا ہے۔ اس احساس کو تو وہی خوب جانتا ہے۔ اگر حکومتیں دیہاتوں میں چھوٹی صنعتوں کا تحفظ کرتی، روزگار کا بندوبست کرتیں، شہری اور دیہی وسائل کی تقسیم میں انصاف کرتیں تو کوئی غیر مقامی نہیں بنتا۔ سب کو اپنے صوبوں میں روزگار ملتا، وہ بھی رات اپنی فیملی کے ساتھ رہتے۔ صوبہ سندھ میں ڈبل ایڈریس والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ بچوں کے تعلیمی حصول میں ڈومیسائل لازمی ہے جو کہ اس وقت نا ممکن ہے۔ سندھ میں سرکاری سطح پر شناختی کارڈ پر ڈبل ایڈریس رکھنے والوں کیلئے کوئی سرکاری مراعات نہیں ہیں۔ کئی ایسے کیس دیکھے جن کا پتہ بھی کراچی کا ہے لیکن شناختی کارڈ کے کوڈ دوسرے صوبے کے ہیں، ان شہریوں کو بھی تنگ کیا جا رہا ہے۔ ان سے اچھے خاصے پیسے بٹورے جا رہے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹیز کے ایڈمیشن کیلئے ڈومیسائل کی شرط نے والدین کے لیے مشکلات بڑھا دی ہیں۔ رشوت کا بازار مزید گرم ہو گیا ہے۔ حکومت سندھ کو تعلیم مقاصد کیلئے ڈومیسائل کی شرط کو ختم کرنا چاہئے۔ یہ انتہائی ضروری ہے۔ سندھ حکومت اگر افرادی تعداد سے قومی فنڈز میں اضافہ کی طلب میں ہے تو یہ پالیسی تعلیمی حصول میں انتہائی پیچیدہ اور رکاوٹ کا باعث ہے ۔ ڈبل ایڈریس والوں پر’’ غیر مقامی ‘‘ کا لیبل لگا دیا گیا ہے۔ حکومت سندھ کی پالیسی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ان غیر مقامی افراد کے حالات کا کون ذمہ دار ہے۔ لوگ کیوں اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسرے شہروں صوبوں کا رخ کرتے ہیں۔ کبھی موقع ملے تو چند دن بلوچستان میں گزاریں، جہاں نہ بجلی ہے اور نہ ہسپتال ، تعلیم نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ موبائل نیٹ ورک نہیں ہے۔ روزگار کے لیے کوئی صنعت نہیں ہے۔ کیا ان کو جینے کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے شہری علاقوں میں روزگار کریں۔ کھیتی باڑی میں کیا بچت ہے۔ صرف عزت کی روٹی لیکن زندگی گزارنے کے لیے روٹی کے ساتھ دیگر سہولیات کی بھی ضرورت پڑتی ہے، جو آج تک حکومتیں نہ دے سکیں۔ فساد کیوں جنم لیتا ہے ؟ لوگ باغی کیوں ہوتے ہیں ؟ ۔ خود کش کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ انسان اپنے بچوں کو کیوں قتل کرتا ہے؟ ان سوالوں کے جواب حکومت کے پاس نہیں ہیں۔ برائی کی جڑ ناخواندگی ہے لیکن یہ سب جاننے کے بعد بھی اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ غیر مقامی الفاظ کی آبکاری وسائل اور سہولتوں میں تفریق کا نتیجہ ہے۔ کوئی غیر مقامی سننا نہیں چاہتا۔ کوئی لندن جانا نہیں چاہتا، کوئی خارجی کہلوانا نہیں چاہتا لیکن اپنے بچوں اور بہتر مستقبل کے لیے لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر خارجی، غیر مقامی بنتے ہیں۔ مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ جب جسم کے ایک حصے میں درد ہوتا ہے تو سارا جسم درد میں رہتا ہے۔ مسلمان کی مثال بھی ایک جسم کی مانند ہے۔ اگر کوئی سمجھے تو بہتر ہے۔ حضورؐ کے سچے دین پر لوگ عمل نہیں کرتے۔ پانچ وقت اللہ کے اعلان پر لوگ مسجد نہیں جاتے اور اللّہ سے نیکی کی توفیق مانگتے ہیں۔ جب حقوق کا تحفظ، انصاف نہیں ہو گا وہاں شر، فساد اور لاقانونیت کی آبکاری ہو گی۔ وہاں لوگ ایک دوسرے پر خنجر چلائیں گے۔ نفسانفسی کی انتہا ہو گی۔ قرآن سنا کر لوگوں کو مطمئن نہیں کر سکتے، کیوں کہ آپ کا عمل بھی لازم ہے۔ خالی پیٹ انسان کو کفر کے قریب کرتا ہے، کیوں کہ وہی قرآن عدل و انصاف کی بات کرتا ہے، وہی حقوق کی بات کرتا ہے۔ انسانیت کی بات ضٗکرتا ہے۔ اسی قرآن کے احکامات پر حضرت عمرؓ نے مثال قائم کی۔ بنیاد اسلامی ہے اور انصاف سرکاری سطح پر کہیں نظر نہیں آتا۔ پہلے چور چور کا پرچار کرتے ہیں، پھر حاکم بنا دیتے ہیں، کیسا قانون ہے ؟۔ طاقت ور اور غریب، شہری اور دیہاتی کی زندگی میں بہت بڑا فرق ہے۔ اس فرق کی ذمہ دار ریاست ہے، اس فساد کی آبکاری حکومت کر رہی ہے۔ قرضوں کے پیسوں سے روڈ بنا کر ترقی کے نعرے لگوانے والوں کو شرم سے مر جانا چاہئے۔ آج بھی 70سال پہلے والے مسائل ہیں۔ نعروں کا جواب دینے والوں کو سمجھ ہونی چاہئے۔ قرضے قوم کے فخر نہیں بلکہ ان کے سکون کے قاتل ہیں۔ سودی نظام حرام ہے۔ سود پر قرض لے کر اسلام کی باتیں کرنا چھوڑو، ہمت کرو، چھوڑو دو بنگلے، چھوڑو پروٹوکول، لائو نظام مصطفیٰ ؐ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب تو کہتی ہیں کہ میں حضرت عمرؓ کی حکمرانی کی پیروی کرتی ہوں۔ حضرت عمرؓ تو رات بھر قوم کے دکھوں کا ازالہ کرتے تھے۔ وزیر اعلیٰ کے پروٹوکول، اخراجات اور قوم روٹی کی محتاج، کب تک ایسے چلے گا۔ اگر حکومتیں نہیں سمجھ رہیں، طاقتور نہیں سمجھ رہے تو غریب کب تک اپنے بچوں کا قاتل ٹھہرے گا، قوم کب تک ان بیانوں پر چلے گی، ریاست کے کندھوں پر غریبوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اور اقتدار سے جڑے خاندان پرسکون ہیں ۔
کیا ریاست کو معلوم نہیں کہ کون کتنا ایماندار ہے۔ کس کا احتساب کتنا ضروری ہے، ملک کو دیوالیہ سے بچا کر اقتدار پر قبضہ رہنے والوں کی پشت پناہی سے نظام نہیں چلے گا۔ فی الحال تمام سرکاری سطح پر بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کی جانے والی کوششوں جام نظر آتی ہیں، وہ 48تاجر سفیر بھی کہیں نظر نہیں آ رہے لیکن یقینا ان کو پروٹوکول تو مل رہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button