
سی ایم رضوان
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ( ریٹائرڈ) فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل جاری ہے اور اس وقت متعدد گرفتاریاں اس بناء پر ہو رہی ہیں کہ جو افسران ان کے ساتھ وقتاً فوقتاً خلاف قانون کام کرتے رہے یا پھر مستقل طور پر وہ خلاف قانون کاموں میں فیض حمید کے دست و بازو رہے تھے۔ جوں جوں عوام کے علم میں اس معاملے کی تفصیلات آ رہی ہیں لوگوں کی نظر میں فوج کی ہائی کمان کا مورال بلند ہو رہا ہے کہ اس کے اندر چند عناصر ایسے موجود تھے جو اس کی بدنامی کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے عوام کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آج کون لوگ ہیں جو جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو اپنا اثاثہ قرار دے رہے ہیں۔ بہرحال جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی گرفتاری سے قبل آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے فیض حمید کے خلاف ایک تفصیلی کورٹ آف انکوائری ہوئی تاکہ ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی درستی کا پتہ لگایا جا سکے۔ اس کے نتیجے
میں پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیض حمید کے خلاف مناسب تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ فیض حمید کے حوالے سے ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کے خلاف ورزی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرنے سے متعلق جو بیان جاری کیا گیا ہے اس میں تمام قانونی پہلو پورے ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ٹاپ سٹی سے متعلق ابتدائی سماعت کے بعد درخواست گزار کو متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کی روشنی میں ہی 24اپریل کو فوج کی قیادت نے ان الزامات کی تحقیقات کے لئے ایک میجر جنرل کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی تھی۔
بادی النظر میں اس درخواست میں جو الزامات عائد کیے گئے ہیں اس سے متعلق ہی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی تحقیقات کی ہیں۔ آرمی ایکٹ کے سیکشن 92میں کسی بھی فوجی افسر کی ریٹائرمنٹ کے 6ماہ کے بعد اگر ان کے خلاف کوئی الزام ہو تو ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ تاہم آرمی ایکٹ کے سیکشن 31اور 40اس سے مستثنیٰ ہے۔ آرمی ایکٹ کا سیکشن 31فوجی افسران اور اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے سے متعلق ہے جبکہ سیکشن 40 مالی بدعنوانی اور فراڈ کے زمرے میں آتے ہیں اور اگر کسی بھی فوجی افسر یا اہلکار پر اس طرح کے الزامات ہوں تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہوسکتی ہے۔
یاد رہے کہ ٹاپ سٹی ہائوسنگ سوسائٹی کے مالک معیز احمد خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں جو درخواست دائر کی گئی تھی۔ اس کے مطابق 12مئی 2017کو پاکستان رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ کیس کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معیز احمد خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا گیا تھا۔ درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل ( ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی اور اس دوران سابق ڈی جی آءی ایس آئی نے نجی ہاسنگ سوسائٹی کے مالک کے رشتہ دار کے کزن کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لئے بھی رابطہ کیا۔ اس درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملاقات کے دوران جنرل ( ر) فیض حمید نے درخواست گزار کو کہا کہ واقعے میں چوری کیا گیا یا چھینا گیا 400تولہ سونا اور نقدی کے سوا کچھ چیزیں واپس کر دیں گے۔ درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈئیر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈئیر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4کروڑ نقد ادا کرنے اور ایک نجی چینل کو سپانسر کرنے پر مجبور کیا۔ مذکورہ بالا تمام الزامات سے انداز لگایا جا سکتا ہے کہ فیض حمید اپنی محکمانہ حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کس طرح کی بدمعاشیاں کرتا تھا اور فوج کے امیج کو کس طرح برباد کر رہا تھا۔
جہاں تک کورٹ مارشل کے تکنیکی پہلوئوں کا تعلق ہے تو کورٹ آف انکوائری ایک تفتیشی عمل ہے۔ جس طرح سویلین اداروں میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی جاتی ہے اسی طرح فوج میں کورٹ آف انکوائری عمل میں لائی جاتی ہے۔ اگر فوجی افسر کی جانب سے بدعنوانی یا کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کرنے کا معاملہ سامنے آئے تو سیکٹر کمانڈر اس معاملے کی تحقیقات کے لئے کورٹ آف انکوائری کا حکم دیتا ہے۔ کورٹ آف انکوائری کوئی ایکشن لینے کی مجاز نہیں ہے البتہ اس کی سفارشات کی روشنی میں کورٹ مارشل کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ کورٹ مارشل کی کارروائی کے متعلق کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کی سربراہی میں ایک عدالت قائم کی جاتی ہے جس میں دو ممبروں کے علاوہ جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ کا نمائندہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اس عدالت کے سربراہ کو پریذیڈنٹ کہا جاتا ہے۔ کسی بھی شخص کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کی صورت میں اس فوجی افسر کی گرفتاری کے 24گھنٹوں کے اندر اندر چارج شیٹ فراہم کی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد ملزم پر الزامات کی کاپی بھی فراہم کر دی جاتی ہے۔ جب کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہوتی ہے تو اس میں درخواست گزار یا مدعی کو پراسیکیوشن کے گواہ کے طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کیس میں کورٹ آف انکوائری میں جو شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں ان کی روشنی میں بھی مزید گواہوں کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران ملزم کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنی صفائی میں گواہان بھی پیش کرنا چاہے تو اسے ایسا کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔
یہ نہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل ( ر) فیض حمید پہلے فوجی افسر ہیں جن کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہو رہی ہے بلکہ اس سے قبل بھی متعدد جرنیل اس سزا کے حقدار قرار پا چکے ہیں لیفٹیننٹ جنرل ( ریٹائرڈ) اسد درانی نے انڈین خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ مل کر ایک کتاب لکھی تھی جس میں پاکستانی حکام کے بقول ایسا مواد بھی شامل تھا جو کہ پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق ہے۔ ’’ سپائی کرانیکلز‘‘ کے مصنف جنرل اسد درانی کو 25 سال قبل فوج سے بے دخل کیا گیا تھا۔ اصغر خان کیس میں ان کا نام آنے کے بعد انہیں آئی ایس آئی سے جی ایچ کیو بلوا لیا گیا تھا اور پھر جب دوبارہ یہ سامنے آیا کہ وہ سیاسی امور میں مداخلت کر رہے ہیں تو انہیں قبل از وقت ریٹائر یعنی فوج سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ ’’ سپائی کرانیکلز‘‘ کتاب کی اشاعت کے بعد پاک فوج حکام نے انہیں جی ایچ کیو طلب کیا اور ان کے خلاف ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس انکوائری کے بعد انہیں فوجی ضابطوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا، جس کے نتیجے میں ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا گیا اور ان کی ریٹائرمنٹ کی تمام مراعات بھی واپس لے لی گئیں۔ اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال (2012)جو کہ پاکستان آرمی کے ایک سینئر افسر تھے، ان پر جاسوسی کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا اور 14سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان پر آئی ایس آئی کی اہم معلومات انڈین خفیہ ایجنسی را کو فراہم کرنے کا الزام تھا۔
سابق فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ نے مئی 2019ء میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو سنائی گئی قید بامشقت کی سزا کی توثیق کی تھی تاہم ڈھائی برس کے عرصے بعد ہی انہیں رہا کر دیا گیا۔ بریگیڈئیر علی خان (2011) بریگیڈئیر علی خان کو شدت پسند تنظیم حزب التحریر کے ساتھ روابط رکھنے کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا۔ ان پر پاکستان آرمی کے اندر بغاوت پھیلانے کا بھی الزام تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل ضیا الدین بٹ (2001)حاضر سروس ڈی جی آئی ایس آئی جنہیں نواز شریف نے آرمی چیف تعینات کیا تھا، جنرل پرویز مشرف کے حکم پر انہیں گرفتار کر کے ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہوئی۔ بعد میں انہیں نظربند کیا گیا اور فوجی عہدے سے برخاست کر دیا گیا۔ آرمی نے بطور ادارہ جنرل ضیا الدین بٹ کے بارے میں تین انکوائریاں کرائیں مگر بعد ازاں انہیں ان الزامات سے بری کر دیا گیا کہ وہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے کی وزیراعظم کی منصوبہ بندی کا حصہ تھے۔ اسی طرح بریگیڈئیر نیاز (1958)جنرل ایوب خان کے دور میں بریگیڈئیر نیاز کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور حکومت کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا۔
اب تک کے کورٹ مارشل کے نتائج اور ان سے متعلق عوامی آرا سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر کورٹ مارشل فوج کے حق میں نیک نامی کا باعث نہیں ہوتا البتہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید جیسے اعلانیہ غنڈے کے خلاف یہ کورٹ مارشل فوج کے مورال کی بلندی کا باعث ہو گا۔







