گرفتاریاں اور وسوسے

امتیاز عاصی
سابق کور کمانڈر بہاولپور اور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کی گرفتاری نے سیاسی اور عوامی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ افواج پاکستان کے قوانین کے تحت کوئی حاضر سروس یا ریٹائر افسر غیر قانونی کاموں میں ملوث پایا جائے تو اس کے خلاف تادیبی کارروائی کوئی نئی بات نہیں۔ بدقسمتی سے سوشل میڈیا کی یلغار نے عوام کا میڈیا پر اعتماد ختم کر دیا ہے۔ عجیب تماشا ہے خبر کی صداقت کا ادراک کئے بغیر اسے چلانا کہاں کی صحافت ہے۔ جسے کوئی روزگار نہیں ملتا یو ٹیوب چینل بنا کر جو دل چاہے خبر چلا دیتے ہیں۔ اللہ کے بندوں خبر بارے تصدیق کر لیا کرو۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ جب کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو پہلے تصدیق کر لیا کرو‘‘۔ سابق آئی جی جیل خانہ جات مرزا شاہد سیلم بیگ کو ملازمت سے ریٹائر ہوئے دو سال گزر گئے ۔ پرائیویٹ چینلز اور یو ٹیوبرز نے ان کی گرفتاری کی خبر چلا دی، جس کے بعد انہیں یہ وضاحت کرنا پڑی وہ اپنے گھر میں موجود ہیں، انہیں کسی نے گرفتار نہیں کیا ہے۔ خبر آنے کے بعد ان کے اہل خاندان اور عزیز و اقارب پر کیا گزری ہوگی اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اگرچہ بعض اداروں نے سنٹرل جیل راولپنڈی کے کچھ ملازمین کو گرفتار کیا ہے بلکہ ایک سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو حراست میں لینے کے بعد چھوڑ دیا ہے، جو اس امر کا غماز ہے ادارے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتے بلکہ انہی لوگوں کو حراست میں لیا جاتا ہے جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ پاکستان آرمی کے سابق اعلیٰ افسر فیض حمید کی گرفتاری ایک نجی ہائوسنگ سوسائٹی کی شکایت پر عمل میں لائی گئی ہے، جن کی شکایت پر کافی عرصہ سے انکوائری ہو رہی تھی، چنانچہ صفحہ مسل پر شہادت ملنے کے بعد ان کی گرفتاری ہوئی ہے جو انہونی بات نہیں۔ فوج کے ایک سابق اعلیٰ افسر کی گرفتار ی سے پتہ چلتا ہے ملک میں کسی ادارے کا کوئی بڑے سے بڑا افسر قانون سے بالاتر نہیں۔ اخبارات کا مطالعہ کریں یا ٹی وی چینلز کے سامنے بیٹھیں جیسے طوفان برپا ہو گیا ہے۔ اب فلاں فلاں کی گرفتاری کا امکان ہے۔ سوال ہے جب کسی کی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی تو یہ بات
ڈھکی چھپی نہیں ہوگی بلکہ سب کو اس کا علم ہو جائے گا۔ کسی معاشرے میں رہنے والوں کے ایک دوسرے کے ساتھ روابط ہونا جرم نہیں ہے۔ انسان جس معاشرے میں رہتا ہے اس کے اچھے اور برے سبھی لوگوں سے علیک سلیک ہوتی ہے۔ سیاست دانوں کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا ہماری روایت بن چکی ہے۔ بعض حلقے جنرل فیض حمید کی گرفتاری کو عمران خان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دراصل ہم میں صبر نہیں افواج پاکستان میں آئی ایس ایس پی آر کے ادارے کا یہی کام ہے جب کوئی خبر ہوتی ہے وہ تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز کو بھیج دیتا ہے یا ڈی جی آئی ایس ایس پی آر پریس کانفرنس میں خبر کی تمام تفصیلات سے آگاہ کر دیتا ہے۔ تعجب ہے کسی کو اس بات کا احساس نہیں ہمارا ملک کس طرح جا رہا ہے ہم معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار تو پہلے سے ہیں اب افسران کی گرفتاریوں اور ممکنہ گرفتاریوں کی خبریں چلا کر جانے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک جیل میں بانی پی ٹی آئی کو سہولتیں فراہم کرنے کی بات ہے یا ان کے کسی سے جیل کے اندر سے روابط کا معاملہ ہے وہ سب کچھ سامنے آجائے گا کسی کو اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں سب سے پہلے ملک کو دیکھنا ہے ملک ہے تو ہم بھی ہیں سب پاکستانیوں کو افواج پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا مظاہر کرنا چاہیے۔ آج اگر ہم سکون کی نیند سے سوتے ہیں وہ ہماری مسلح افواج کا مرہون منت ہے۔ سرحدوں پر جن خطرات کا ہمیں سامنا ہے اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا ملک کے دشمن ہمہ وقت تاک میں رہتے ہیں جونہی موقع ملتا ہے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ روایت بن چکی ہے جب کوئی افسر اپنے عہدے پر ہوتا ہے اس کے اردگرد خوشامدیوں کو مجمع لگا ہوتا ہے جیسے ہی کسی پر مشکل وقت آتا ہے اس کے قریب تر لوگ اسی پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے بعد بعض حلقے الیکشن کمیشن میں ان کی مداخلت کا پرچار کر رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سابق جج شوکت صدیقی نے جنرل فیض حمید کی سرکاری امور میں مداخلت کر کھل کر اظہار کرکے مثال قائم کی ہے ورنہ ہمارے ہاں رواج ہے جب کوئی ملازمت سے ریٹائر ہو جاتا ہے تو اس کی کمزوریوں کو اچھالا جاتا ہے۔ جیلوں میں خفیہ اداروں کے ملازمین مامور ہوتے ہیں ایک موقع پر سنٹرل جیل راولپنڈی سے دہشت گردی کے مقدمات سے بری ہونے والوں کو رہائی کے وقت گرفتار کیا گیا تو سپیشل برانچ کی رپورٹ پر اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو ملازمت سے معطل کر دیا گیا تھا لہذا عمران خان کے جیل میں کسی سے رابطے ہوں گے تو یہ بات متعلقہ اداروں کے علم میں ہوگی جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ہم بات کر رہے تھے خبروں کی صداقت کا پتہ چلائے بغیر ان کی اشاعت یا سوشل میڈیا پر اس کی مشتہری سے ایسے ٹی وی چینلز اور اخبارات پر عوام کا اعتماد اٹھ جانا یقینی ہے۔ ایک وفاقی وزیر کا بیان ہے جنرل فیض نے ان سے فلان مہینے میں معافی مانگی تھی کوئی کچھ کہہ رہا ہے کوئی کچھ۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا آخر لوگ کیا کرنا چاہا رہے ہیں۔ ہمیں اس وقت جتنی یکجہتی کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ دشمن ملک ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں۔ میڈیا سے وابستہ اداروں کو چاہیے خواہ ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہو جھوٹی خبریں چلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ جھوٹی خبریں چلانے سے ان کی اپنی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ ویسے بھی جن حضرات کی جنرل فیض حمید سے مخاصمت ہو کسی دشمن پر مشکل وقت آنے پر شادیانوں کی بجائے اپنے معاملات کو اللہ سبحانہ تعالیٰ کے سپرد کرنا چاہئے، جس کی عدالت میں ایک روز بے لاگ فیصلے ہوں گے۔







