Column

’’ ہم ہیں پاکستان‘‘

 

روہیل اکبر
اس بار 14اگست کا دن آزاد کشمیر میں گزرا، 13اگست کو ہم تقریبا درجن بھر صحافی دوستوں کے ساتھ راولا کوٹ پہنچ گئے تھے، جیسے ہی آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہوئے تو’’ ہم ہیں پاکستان‘‘ کے الفاظ نے ہمارا بھر پور استقبال کیا۔ ان الفاظ کو سر زمین آزاد کشمیر میں پر دیکھ کر دل خوش ہو گیا اور یہ پوسٹر ہمیں پورے آزاد کشمیر میں ہر جگہ نظر آئے، جہاں جہاں ’’ ہم ہیں پاکستان‘‘ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے وہیں پر ایک نوجوان کی تصویر بھی لگی ہوئی تھی جو آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں، جسے کشمیر قوم اپنا رہنما اور نجات دہندہ بھی سمجھتی ہے، جی ہاں بالکل ٹھیک سمجھے آپ، وہ تصویر سردار تنویر الیاس کی ہی تھی، جنہوں نے اپنے دور حکومت میں کشمیریوں کے لیے وہ کام کر دئیے جو آج تک کسی اور وزیر اعظم کے حصے میں نہیں آئے، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ سردار تنویر الیاس کے کچھ کام تو بہت ہی اچھے، جنہیں ایک مثال بنا کر پورے پاکستان میں رائج کر دینا چاہیے۔ ایک تو انہوں نے پورے کشمیر کی مساجد کی بجلی مفت کردی اور ساتھ ہی علما کرام جو مساجد میں دین اسلام کا کام کر رہے ہیں ان کے سکیل میں بھی اضافہ کر دیا جبکہ ہمارے ہاں بجلی اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں اور مولوی حضرات مساجد کو تالے لگا رہے ہیں۔ اس لیے ہمارے حکمران اپنے جھوٹے وعدوں کا پاس رکھتے ہوئے 2سو یا 3سو یونٹ بجلی مفت کرنے کی بجائے صرف سستی کر دیں اور ساتھ میں آزاد کشمیر کی مثال سامنے رکھتے ہوئے مساجد کی بجلی مفت کر دیں۔ جیسے ہمارے حکمرانوں نے اپنے گھروں کی بجلی مفت شروع کر رکھی ہے۔ خیر میں بات کر رہا تھا آزاد کشمیر کی، جہاں ہم نے دو دن گزارے۔ خاص کر 14اگست کا دن راولا کوٹ اور اس سٹیڈیم میں گزرا جہاں سردار تنویر الیاس نے جلسہ کرنا تھا۔ پوری شہر کو ’’ میں ہوں پاکستان‘‘ کے بینروں کے ساتھ دلہن کی طرح سجایا گیا تھا اور جلسہ گاہ جلسہ شروع ہونے سے پہلے ہی بھر چکی تھی اور لوگ بے تابی سے اپنے محبوب قائد کا انتظار کر رہے تھے۔ اس جلسہ میں کسی سیاسی پارٹی کا کوئی بینر یا پوسٹر نہیں لگا ہوا تھا، بلکہ ’’ میں ہوں پاکستان‘‘ کے پیغامات کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا، جو ہر طرف نظر آرہا تھا جبکہ جلسہ گاہ میں بھی ہزاروں لوگوں کے پاس پاکستان اور آزاد کشمیر کے ہی جھنڈے تھے۔ آزاد کشمیر دنیا کا ایک خوبصورت خطہ ہے، جسے ہم جنت نظیر بھی کہتے ہیں، اس خطے کا ایک حصہ پاکستان کے پاس ہے جبکہ دوسرا حصے پر بھارت نے زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔ وہاں پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ہمارے کشمیری بھائیوں پر ظلم کے پہاڑ نہیں توڑے جاتے۔ مودی قصائی نے مقبوضہ کشمیر کو ایک جیل بنا رکھا ہے، بھارت نو لاکھ سے زائد فوج کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے اندر کشمیری قوم پر انسانیت سوز مظالم ڈھا رہا ہے۔ گزشتہ آٹھ دہائیوں سے بھارت نے کشمیریوں کو حق آزادی سے جبر کے ذریعے محروم رکھا ہوا ہے۔ 5اگست 2019ء کے بعد تو پورے مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے جیل میں بدل دیا ہے۔ تاریخ کے اس طویل لاک ڈائون نے پوری دنیا میں بھارت کا اصلی چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ آزاد کشمیر کے لوگ خوش قسمت ہیں کہ وہ آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں، وہ بھی افواج پاکستان کی وجہ سے، جو مسلسل اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کرکے دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی زندگیوں میں بھی خوشیاں بکھیر رہی ہیں۔ جلسہ میں بھی کچھ اسی طرح کے جذبات سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کے تھے، جن کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ آزادی کی قدر آج فلسطینیوں سے پوچھیں، جن کے بچے ذبح ہو رہے ہیں یا مقبوضہ کشمیر کے لوگوں سے پوچھیں جو 77سالوں سے مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔ ان کے گھروں کو قبرستان بنا دیا گیا ہے۔ بیٹیوں کی عصمت دری کی جا رہی ہے اور نوجوانوں کو پیلٹ گنوں کا نشانہ بنا کر ان کی آنکھوں کی بینائی چھینی جا رہی ہے۔ مسلم امہ کے عظیم لیڈر اسماعیل ہنیہ کو ایران کی سرزمین پر نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا، اسماعیل ہنیہ مسلم دنیا کے عظیم لیڈر تھے، جنہوں نے ہمیشہ فلسطین کی آزادی کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی آزادی کی آواز اٹھائی، اس لیے آج کا دن اس عہد کی تجدید کا دن ہے کہ ہم سب نے مل کر اس ملک کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہے اور آج کے دن ہم اقوام عالم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو ان کا حق خودارادیت دلوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان ہماری امیدوں کا محور و مرکز ہے، پاکستان ہمارے ایمان کا حصہ ہے، پاکستان ہے تو ہم ہیں، اس لیے ہم نے سبز ہلالی پرچم کو بلند رکھنا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم اپنی بہادر افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور افواج پاکستان کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اگر پاک فوج ہماری سرحدوں پر نہ ہوتی تو آج انڈیا آزاد کشمیر پر بھی اپنے پنجے گاڑ چکا ہوتا۔ اس لیے تمام کشمیری اپنی بہادر فوج کے شکر گزار ہیں کہ وہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ہمیں آزادی جیسی نعمت سے سرفراز رکھے ہوئے ہیں۔ سردار تنویر الیاس کے اس کامیاب جلسے کے بعد اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر عوام انہیں کس حد تک پیار کرتے ہیں، کشمیر کے عوام بڑے باوفا اور سمجھدار ہیں، انہیں علم ہے کہ کون انہیں وعدوں کا لالی پاپ دے رہا ہے اور کس نے ان کے برس ہا برس پرانے مسائل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ سردار تنویر الیاس دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا بھی جانتے ہیں اور اپنے عوام پر دل جان سے پیار کرنے کا ہنر بھی بخوبی جانتے ہیں۔ میں نے اس جلسہ میں شامل ہونے والے لوگوں کی عمروں سے اندازہ لگایا ہے کہ سردار تنویر الیاس کشمیریوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ کشمیری انہیں اپنا مسیحا اور نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔ اس موقع کی مناسبت سے میں ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی صدر مظہر برلاس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے جنت کے اس ٹکڑے کا ہمیں دورہ کرایا، جسے دیکھنے کے لیے دنیا کی آنکھیں ترس رہی ہیں، میں ورلڈ کالمسٹ کلب کے جنرل سیکرٹری ناصر اقبال خان کا بھی شکر گزار ہوں، جن کی سربراہی میں دو روزہ دورہ آزاد کشمیر خوش اسلوبی سے مکمل ہوا۔ اس دورہ میں لاہور کے سینئر اور تجربہ کار صحافیوں کے ساتھ ایک یاد گار سفر تھا، جو ہمیشہ یاد رہے گا۔ خاص کر نعیم مصطفیٰ، منیر احمد بلوچ، شفقت حسین اور شعیب احمد نے کسی موقع پر بوریت کا احساس نہیں ہونے دیا۔ لاہور سے منجوسہ جھیل اور پھر وہاں سے واپس لاہور تک ایک منٹ کے لیے بھی قہقہوں کا طوفان تھم نہ سکا جبکہ ڈاکٹر شوکت ورک، نصیر الحق ہاشمی اور ابرار احمد نے بھی خوب مزے مزے کی باتیں کی۔ ہمارے اس دورہ کشمیر کے بعد ایک بات تو صاف اور واضح نظر آرہی ہے کہ آزاد کشمیر میں ایک نئی سیاسی پارٹی بننے جارہی ہے، جو آنے والے دنوں میں حکمران پارٹی ہوگی اور اس کی کمان سردار تنویر الیاس جیسے محب وطن انسان کے پاس ہوگی، کیونکہ انہوں نے ’’ ہم ہیں پاکستان‘‘ کا جو نعرہ دیدیا وہ ہی ان کی جیت کے لیے کافی ہے۔

جواب دیں

Back to top button