Column

تحریک آزادی کے مقاصد، جدوجہد اور ہم

یاور عباس
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمان انگریزوں کی صرف غلامی کرنے پر ہی مجبور نہ تھے بلکہ زیر عتاب رہے، برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا رہا، اعلیٰ سرکاری عہدے، کاروبار، تعلیم، سیاست سمیت ترقی کے تمام دروازے مسلمانوں کے لیے بند کر دئیے گئے اور ہندوئوں کو ہر معاملہ میں ترجیح دی جانے لگی ، آزادی کی تڑپ مسلمانوں کے اندر تب سے ہی تھی، چنگاری سلگتی رہی اور مسلمانوں پے در پے مصیبتوں کے پہاڑ کا سامنا کرتے رہے ، سر سید احمد خاں نے برصغیر کے مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں ترقی کرنے کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دی ، یوں سمجھیں کہ برصغیر پاک و ہند میں علی گڑھ کالج تحریک آزادی کی پہلی منظم کوشش تھی ۔ علی گڑھ کالج میں برصغیر کے طول و عرض سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ نے قریہ قریہ جاکر لوگوں کو شعور بانٹا اور تحریک آزادی کی مضبوط بنیاد رکھی، مسلم لیگ کے قیام میں انہی طلبہ کا بنیادی کردار ہے ، شاعر مشرق ، حکیم الامت، پروفیسر ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے آزادی کا جو خواب دیکھا اور خطبہ الٰہ آباد میں اس کا اظہار کرتے ہوئے آزاد وطن کو جو نقشہ کھینچا، قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں 14اگست 1947ء کو اس خواب کی تعبیر ہوگئی ۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان کو انگریزوں اور ہندوئوں کی غلامی سے نجات حاصل ہوگئی ۔
تحریک آزادی کے رہنما برصغیر میں صرف مسلم ریاست نہیں چاہتے تھے بلکہ انہوںنے یہ ملک ایک نظریہ کے تحت حاصل کیا ، وہ ایک ایسا آزاد ، خود مختار اسلامی خطہ چاہتے تھے جہاں اسلامی فلاحی ریاست کا عملی نمونہ دنیا کو پیش کیا جاسکے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ایک خطاب میں کہا تھا کہ ہم ایک ایسی ریاست چاہتے جو اسلام کی تجربہ گاہ ہو۔ تحریک آزادی کے مقاصد کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تحریک کے رہنمائوں کی جدوجہد محض اس لیے تھی کہ ایک ایسی ریاست ہو جہاں مسلمان امن و امان کے ساتھ رہ سکیں، مسلمانوں کو مذہبی، سیاسی، تجارتی ، ثقافتی کے حوالے سے مکمل آزادی حاصل ہو۔ اخوت ، مساوات اور رواداری کو فروغ ملے ، قائداعظم محمد علی جناح سے کسی نے پوچھا کہ طرز حکومت کون سا ہوگا تو آپ نے فرمایا کہ ہمیں سوشل ازم ، کمیونزم یا کسی بھی ازم کی ضرورت نہیں ہمیں 14سو سال قبل طرز حکمرانی کے جو اصول اسلام نے دئیے تھے ہم انہی پر عمل پیرا ہوںگے ۔ تحریک آزادی کے دوران ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوںنے جانی ، مالی قربانیاں محض اس لیے دی کہ ہم جو ملک حاصل کرینگے وہاں امیر اور غریب ایک ہی صف میں کھڑے ہوںگے، قانون کی حکمرانی ہوگی ، لوگ محبت سے رہیں گے، نہ صرف تمام مکاتب فکر کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی بلکہ اقلیتی کے حقوق کا بھی مکمل تحفظ کیا جائے گا۔ لوگوں کو معاشی تحفظ حاصل ہوگا، عوام پر عوام کی حکمرانی ہوگی، ریاستی ظلم کا خاتمہ ہوگا۔ لوگوں کو انصاف ملے گا، تعلیم کے دروازے ہر شہری کے لیے کھولے جائیں گے۔ لوگوں کو صحت کی سہولتیں میسر آئیں گی۔ یہی وہ خواب تھے جن کو حقیقت میں بدلنے کے لیے مسلمانوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا، لاکھوں لوگوں کو ہجرت کرنا پڑی، مائوں، بہنوں، بیٹیوں نے عزتیں بچانے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تاکہ آزاد وطن میں پیدا ہونے والے بچیوں اور عورتوں کی عزتیں محفوظ رہیں۔
14اگست1947ء کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر برصغیر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل آبادی کو پاکستان اور ہندو اکثریتی علاقوں کو بھارت کے حوالے کر دیا گیا، ریاستوں کو اختیار دی گیا کہ وہ مرضی سے الحاق کر لیں، کچھ ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا اور کچھ ریاستوں نے ہندوستان کے ساتھ مگر کشمیر کی ریاست کا فیصلہ تاحال متنازعہ چل رہا ہے کیونکہ کشمیری آبادی مسلمان تھی اور وہاں کے راجہ نے الحاق ہندوستان کے ساتھ کرلیا جس کی بناء پر آزادی کے پہلے برس ہی دونوں ملکوں کے درمیان 1948ء میں جنگ کا آغاز ہوگیا۔ ہندوستان کی درخواست پر اقوام متحدہ نے جنگ بندی تو کروا دی مگر تاحال مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں اقوام متحدہ نے کوئی سنجیدہ کردار ادا نہیں کیا بلکہ ہندوستان نے5اگست 2019ء میں کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کر دیا اس کو بھارت میں ضم کر دیا۔ مسئلہ کشمیر کی بناء پر دونوں ملک ایٹمی قوت بن گئے۔ جنگ کے خطرات 24گھنٹے منڈلاتے رہتے ہیں ۔
قیام پاکستان کے بعد اگرچہ ہم نے بے شمار ترقی کی ہے مگر ہم اپنے وطن پاکستان کو کرہ ارض پر وہ اسلامی خطہ نہیں بنا سکے جس کا خواب ہمارے آبائو اجداد نے دیکھا تھا ، بلکہ ہم نے آزادی کے 24سال بعد ہی اپنے ملک کو دو لخت کر دیا ، مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان معاشی، اقتصادی ، سیاسی لحاظ سے پسماندگی کی طرف سفر کرنے لگا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ آج ہم آئی ایم ایف کے غلام بن چکے ہیں، اپنے ملک کا بجٹ ہم خود نہیں بنا سکتا ، تعلیم و صحت کی سہولتیں برائے نام ہیں لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کروانے اور پرائیویٹ سکولز میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نصف سے زائد عرصہ براہ راست آمریت کا دور رہا۔ جمہوری ادوار میں بھی سیاستدان آمریت کے غلام ہی رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں آج بھی سیاسی بحران حل نہیں ہورہا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عہد کریں کہ ہم جہاں بھی ہیں جس پوزیشن پر بھی ہیں ، پاکستان کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی اپنی انا کو پس پشت ڈال کر عوامی رائے کا احترام کریں، منصفانہ، شفاف الیکشن کے ذریعے اقتدار کی منتقلی کا عمل مکمل کریں، ریاستی اداروں اپنی اپنی آئینی حدود سے تجاوز نہ کریں بلکہ ’’ جس کا کام اسی کو ساجھے ‘‘ کے مصداق اپنی اپنی ڈیوٹی پر توجہ دیں۔ پاکستان کے 24کروڑ عوام کو مذہبی، سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک ایسی تحریک کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہو سکے، عدالتیں نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے نہ کریں بلکہ انصاف کے تقاضے پورے کریں۔ ہماری مسلح افواج دفاعی سرحدوں کی حفاظت کی طرف پوری توجہ دے اور بیرونی دشمنوں کو ناکوں چنے چبوا دیں۔ سیاستدانوں پر سب سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کرپشن ترک کریں، توبہ کریں اور لوٹا ہوا مال سرکاری خزانے میں جمع کرا دیں، پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج، میڈیا اگر ملک کر ملک میں مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، غربت اور فرقہ واریت کے خاتمہ کی کوشش کرینگے تو ہمارا وطن کرہ ارض پر جنت کا ٹکڑا بن سکتا ہے اور جو خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا اس کی تکمیل صرف اسی صورت ممکن ہوسکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button