پاکستان

اڈیالہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ کی بازیابی کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر

اڈیالہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ محمد اکرم کی اہلیہ میمونہ ریاض نے اپنے شوہر کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں درخواست دائر کر دی ہے۔

محمد اکرم پر اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی سہولت کاری کا الزام ہے اور وہ اس وقت سکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہیں۔

سنیچر کے روز ہونے والی سماعت کے دوران درخواست گزار کی وکیل ایڈووکیٹ ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ 14 اگست سے اکرم سے متعلق کوئی اطلاع نہیں ہے۔

مزاری نے کہا کہ ان کی مؤکلہ نے تھانہ صدر بیرونی پولیس کو اپنے شوہر کے اغوا کے مقدمہ کے اندراج کی درخواست دی لیکن تاحال مقدمہ درج نہیں ہوا ہے۔

عدالت نے صدر بیرونی پولیس کو 20 اگست کیلئے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے۔ درخواست گزار کی وکیل کے مطابق اگلی سماعت 19 اگست کو ہوگی۔

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ اکرم کو عدالت میں پیش کیا جائے اور ان کے اغوا کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔

درخواست میں عدالت سے اپیل کی گئی ہے کہ محمد اکرم کو وکیل تک رسائی فراہم کی جائے، ان پر لگے الزامات بتائے جائیں اور ان کے گھر والوں کو ان سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔

’ویگو میں آئے نقاب پوش افراد نے بتایا کہ ان کا تعلق ’محکمے‘ سے ہے‘

محمد اکرم کی بازیابی کے لیے ان کی اہلیہ کی جانب سے دائر درخواست میں بتایا گیا ہے کہ 14 اگست کے روز علی الصبح تقریباً پانچ بجے اڈیالہ کی آفیسرز کالونی میں واقع ان کے گھر کی گھنٹی بجی۔

میمونہ کا دعویٰ ہے کہ بیل کی آواز سے ان کی آنکھ کھلی تو ان کے شوہر نے کہا کہ ’گھنٹی بجانے کے انداز سے نہیں لگتا کہ بیل بجانے والے جیل کے عہدیداروں میں سے ہے بلکہ یہ شاید انٹیلی جنس والے ہیں۔‘

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ جب وہ دورازے پر گئیں تو ویگو میں آئے نقاب پوش افراد نے انھیں بتایا کہ ان کا تعلق ’محکمے‘ سے ہے اور ان سے اکرم کو باہر بھیجنے کا کہا۔

ہائی کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق اکرم نے مین گیٹ پر موجود لوگوں کو مطلع کیا کہ وہ ان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں لیکن اس سے پہلے انھیں اپنے کپڑے تبدیل کرنے اور بیت الخلا استعمال کرنا ہے۔

درخواست گزار کے مطابق مسلح افراد اس وقت تک گھنٹی بجاتے رہے جب تک اکرم اپنے دو بیٹوں، ایک بیٹی اور بیوی کے ساتھ مرکزی دروازے پر نہیں آگئے۔

میمونہ کا کہنا ہے کہ ان کے ’بچے اپنے والد کی جبری گمشدگی کے گواہ ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اکرم نے مسلح اہلکاروں سے درخواست کی کہ جانے سے پہلے انھیں سپرنٹینڈنٹ اڈیالہ جیل سے مختصر ملاقات کی اجازت دی جائے تاہم ان کی درخواست مسترد کر دی گئی اور مسلح نقاب پوش اہلکار انھیں ان کے اہل خانہ کے سامنے گھسیٹ کر لے گئے۔

اکرم کی اہلیہ نے دعوی کیا ہے کہ ان کے بڑے بیٹے نے اپنے والد کو اغوا کیے جانے کے واقعہ کا کچھ حصہ اپنے موبائل فون سے ریکارڈ کر لیا تھا تاہم انٹیلی جنس اہلکاروں کی دھمکی پر بچے نے فون پھینک دیا جسے وہیں توڑ دیا گیا۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ اس دوران انھوں نے کمانڈ سنٹر سے رابطہ کرنے کی کوشش لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اکرم کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے 15 اگست کو اپنے شوہر کے اغوا کی ایف آئی آر درج کروانے کے لیے تھانہ صدر بیروونی سے رجوع کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے انھیں ڈائری نمبر یا درخواست کی وصولی دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اپنے سینیئر افسران سے بات کیے بغیر ایسا نہیں کر سکتے ہیں۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ 15 اگست کی رات تقریباً 10:30 بجے ان کے گھر پر بنا کسی وارنٹ کے چھاپہ مارا گیا اور وہاں موجود تمام آلات غیر قانونی طور پر ضبط کر لیے گئے۔

میمونہ کا کہنا ہے کہ چھاپے کے وقت وہ اپنے بچوں کے ساتھ گھر پر اکیلی تھیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ پٹیشنر کے شوہر کی گمشدگی کے حالات سے ثابت ہوتا ہے کہ اکرم ریاستی جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔

خیال رہے کہ دو روز قبل محکمہ جیل خانہ جات کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ حراست میں لیے جانے والے دیگر افراد میں ایک ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ اور ایک اسسنٹ سپرنٹینڈنٹ شامل ہیں۔

محکمہ جیل خانہ جات کے اہلکار کے مطابق اڈیالہ جیل سے ہٹائے گئے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سے حاصل ہونے والی ابتدائی معلومات کی بنیاد پر مزید 6 ملازمین سے پوچھ گچھ کی جائے گی جس میں مذکورہ ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ کے 2 اردلی، 3 وارڈر اور ہیڈ وارڈز بھی شامل ہیں۔

ان افراد کے بارے میں یہ تاثرعام ہے کہ وہ سابق ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ پولیس کے نہ صرف قریبی ساتھی تصور کیے جاتے ہیں بلکہ مبینہ طور پر مالی معاملات میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔

محکمہ جیل خانہ جات کے اہلکار کے مطابق ان افراد کے زیرِ استعمال موبائل فونز کو بھی تحویل میں لے کر انھیں فرانزک کے لیے لیبارٹری میں بھجوا دیا گیا ہے اور ابتدائی رپورٹ کے مطابق حراست میں لیے گئے تین افراد کے موبائل سے کچھ یورپی ممالک کے نمبروں پر بنائے گئے واٹس ایپ نمبروں کا بھی معلوم ہوا ہے۔ جن میں سے کچھ موبائل نمبروں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ نمبر پاکستان تحریک انصاف کے کچھ رہنماوں کے بھی ہیں جو اس وقت بیرون ملک مقیم ہیں۔

محکمہ جیل خانہ جات کے اہلکار کے مطابق حراست میں لیے جانے والے افراد کے پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت میں رہنے والے سابق وزرا سے بھی قریبی تعلق رہا ہے۔

اہلکار کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے جانے والے ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ گDذشتہ چار سال سے اڈیالہ جیل میں ہی تعینات تھے جبکہ مجموعی طور پر اپنی سروس کے 15 سال ان کی تعیناتی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہی رہی ہے۔

سابق ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ پولیس کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی اٹک سے اڈیالہ جیل منتقلی کے بعد ان کی سکیورٹی پر تعینات کیا گیا تھا

جواب دیں

Back to top button