فتنہ الخوارج اور پاک، افغان تعلقات

قادر خان یوسف زئی
15اگست 2021کو کابل پر کنٹرول کے بعد افغان طالبان نے ایک بار پھر افغانستان پر حکمرانی کی، جس کے بعد ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ افغان طالبان نے اپنے سپریم لیڈر، ہیبت اللہ اخوندزادہ کی قیادت میں ایک سخت گیر نظام قائم کیا، جس میں ایک مخصوص تشریح کے مطابق قوانین نافذ کیے گئے۔ اس حکومتی ڈھانچے نے شہری آزادیوں، خصوصاً خواتین کے حقوق پر سخت پابندیاں عائد کیں، جس پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی گئی۔ اقوام متحدہ نے ان پالیسیوں کو ’’ جنسی امتیاز‘‘ قرار دیا ہے۔ افغان طالبان کی سخت گیر پالیسیاں ملک میں موجود ثقافتی اور سماجی تنازعات کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ اندرونی طور پر، افغان طالبان کے اندر مختلف گروپوں کے درمیان نظریاتی اختلافات اور شدت پسندی کے درجات نے حکومتی ڈھانچے کو کمزور کر دیا ہے۔
عالمی پابندیوں اور بین الاقوامی مالیاتی امدادی نظام کے غیر موثر ہونے سے معاشی ترقی رک گئی ہے۔ اسمگلنگ اور برآمدات پر انحصار کے باوجود، طالبان حکومت اقتصادی بحالی کے لیے موثر اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عالمی بینک نے اگلے چند سالوں میں افغانستان کے لیے صفر نمو کی پیش گوئی کی ہے، جس سے ملک میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ افغان طالبان نے چین اور روس جیسی علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی، مگر انہیں ابھی تک عالمی برادری کی جانب سے تسلیم نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ میں شرکت کے باوجود، افغان طالبان کی عبوری حکومت کو قانونی حیثیت نہیں دی گئی، جس کی بنیادی وجہ ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، خاص طور پر خواتین کے حقوق کی پامالی ہے۔ طالبان کی سخت پالیسیاں اور جمہوری عمل کی کمی نے ان کی حکمرانی کو عالمی سطح پر غیر مقبول بنا دیا ہے۔
پاکستان کے ساتھ افغان طالبان کے تعلقات بھی مختلف چیلنجز کا شکار رہے ہیں۔ فتنہ خوارج سمیت مختلف انتہا پسند گروپوں کی موجودگی نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو ہوا دی ہے۔ افغان طالبان کی طرف سے ان دھڑوں کو کنٹرول کرنے میں ناکامی نے پاکستان کے اندرونی سلامتی کے مسائل کو بڑھا دیا ہے۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ افغان عبوری حکومت کی طرز حکمرانی اس کی سرحدوں کے اندر مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ افغان طالبان کو اپنی صفوں میں موجود شدت پسند دھڑوں سے بھی چیلنجز کا سامنا ہے، جو ان کی حکومتی اتھارٹی کو کمزور کر سکتے ہیں۔ الخوارج جیسے گروہوں کی طرف سے جاری حملے طالبان کی حکومت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں۔ حکومتی ڈھانچے کی کمزوری، اقتصادی مسائل اور سلامتی کے چیلنجز طالبان کی حکمرانی کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ سے نازک رہے ہیں، لیکن دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ رشتے کی اہمیت کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ پاکستان نے افغانستان کے عوام اور حکومت کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں، خاص طور پر ان ادوار میں جب افغانستان کو سب سے زیادہ مدد کی ضرورت تھی۔ باوجود اس کے کہ دونوں ممالک کی سرحدیں مشترک ہیں اور ثقافتی، مذہبی اور تاریخی رشتے بھی موجود ہیں، تعلقات کی موجودہ صورتحال کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، جس میں ایک بڑا مسئلہ الخوارج کی موجودگی ہے۔ پاکستان نے افغان طالبان کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ انہیں کالعدم دہشت گرد گروپ الخوارج کو اپنے ہمسایہ اور برادر ملک پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ یہ پیغام صرف ایک سفارتی بیان نہیں بلکہ اس میں پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کے لیے گہری تشویش پوشیدہ ہے۔ خارجیوں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں نے پاکستان کے اندرونی امن کو نقصان پہنچایا ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں، جہاں اس گروہ نے دوبارہ اپنی سرگرمیوں کو تیز کیا ہے۔
پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف عاصم منیر نے خارجیوں کی ریاست مخالف اور شریعت مخالف سرگرمیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ گروہ نہ تو شریعت کو تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی پاکستان کے آئین کو۔ اس لیے ملک بھی انہیں پاکستانی نہیں مانتا۔ اس بیان میں نہ صرف دہشت گردوں کی غیرقانونی سرگرمیوں کی مذمت کی گئی ہے بلکہ پختون عوام کی قربانیوں اور حب الوطنی کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ پاکستان اپنے داخلی مسائل کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہے اور اس سلسلے میں افغانستان سے بھی تعاون کی امید رکھتا ہے۔ پاکستان کے لیے افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش صرف ایک سفارتی ضرورت نہیں بلکہ خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔
پاکستانی قیادت نے افغان طالبان کو یہ باور کرایا ہے کہ فتنہ الخوارج یعنی ٹی ٹی پی کے فتنے کو ختم کرنے میں پاکستان کا ساتھ دیں، جیسے ماضی میں پاکستان نے افغانستان کی مدد کی ہے۔ یہ پیغام اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور اشتراک وقت کی ضرورت ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب خطے میں دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے پختون عوام کی قربانیوں اور ان کی حب الوطنی کو خراج تحسین پیش کیا، جو کہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان کے مختلف طبقات نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ پختون عوام نے ہمیشہ ملک کے دفاع اور سلامتی میں اہم کردار ادا کیا ہے، اور یہ قوم کسی صورت بھی ایسے دہشت گرد گروہوں کو تسلیم نہیں کرتی جو شریعت اور آئین پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی موجودہ صورتحال میں پیچیدگیاں ضرور ہیں، لیکن دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ رشتہ اور مشترکہ مفادات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی جانب سے خارجیوں کے خلاف سخت موقف اور افغان طالبان سے تعاون کی درخواست اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ بہترین تعلقات کا خواہاں ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنے داخلی امن و استحکام کو بھی اولین ترجیح دیتا ہے۔ افغان طالبان کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں، تاکہ دونوں ممالک کے درمیان موجود دیرینہ تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جا سکے۔ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے تین سال بعد بھی افغانستان کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ بگڑتی ہوئی معیشت، وسیع پیمانے پر انسانی بحران، اور بین الاقوامی سطح پر تنہائی نے افغان طالبان کی حکمرانی کو شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور انتہا پسند گروپوں کی موجودگی ان کے اقتدار کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ افغان طالبان کی حکومت کو درپیش ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، ورنہ افغانستان اور خطے کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔





