پہاڑوں سے اترنے کی دعوت

امتیاز عاصی
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا پہاڑوں پر گئے نوجوانوں کو واپس آنے کی دعوت تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ وزیراعلیٰ نے نوجوان نسل کو بہکانے کا ذمہ دار سوشل میڈیا کو قرار دیا ہے۔ دراصل پہاڑوں پر جانے والے نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے خلوص نیت سے جدوجہد کی ضرورت ہے ساتھ انہیں زندگی کا تحفظ دینا بہت ضروری ہے ۔ بلوچستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو قیام پاکستان سے اب تک پانچ فوجی آپریشن ہو چکے ہیں اس کے باوجود حالات سازگار نہیں ہیں۔ بلوچستان کے حالات کو سازگار بنانے کے لئے وہاں کے رہنے والوں کو ان کے جائز حقوق دینا بہت ضروری ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم ماضی میں ہونے والے فوجی آپریشن اور پہاڑوں پر جانے والوں کو واپس لانے کے بعد ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر روشنی ڈالیں۔ بلوچستان کو آئین میں دیئے گئے حقوق کی فراہمی بہت ضروری ہے وہاں کے حالات کی خرابی میں آئینی حقوق سے محرومی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ بلوچستان کے حالات کی خرابی میں بیرونی قوتوں کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن ہماری سیاسی حکومتوں نے حالات کا ادراک نہ کرتے ہوئے وہاں کے رہنے والوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا۔ ریاست قلات جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کی سب سے بڑی ریاست تھی۔ ملک کے کل رقبہ کا چالیس فیصد ریاست قلات کا رقبہ تھا۔ ریاست قلات کے نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو پہاڑوں سے واپس لایا گیا، انہیں زندگی کی ضمانت دینے کے لئے قرآن پاک پر حلف دیا گیا جس کے بعد نواب نوورز خان کو عمر قید کی سزا دے دی گئی اور ان کا جیل میں انتقال ہو گیا۔ جب کہ ان کے پانچ ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی۔ اسی طرح زہری قبیلے کے سردر میر احمد یار خان کو قید کی سزا دینے کے بعد پنجاب کے ضلع چکوال کی تحصیل کلر کہار میں لا کر قید کیا گیا جہاں انہوں نے زندگی کے تیرہ برس گزارے۔ بلوچستان کے کئی لوگ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں خان آف قلات نوورز خان کا پوتا سیلمان لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کا پہاڑوں پر جانے والے بلوچوں کو واپس آنے کی دعوت احسن اقدام ہے لیکن تاریخی حقائق بہت تلخ ہیں پانچ مرتبہ آپریشن کے دوران پہاڑوں پر جانے والے لوگوں کو واپس لا کر سزائیں دی گئیں ایسے میں پہاڑوں پر جانے والوں کو واپس لانے کے لئے بہت زیادہ تگ و دو کرنی ہوگی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے ہمیں سب سے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہوگا اس مقصد کے لئے بلوچستان کے عوام کو آئین میں دیئے گئے حقوق کی فراہمی یقینی بنانا ضروری ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو بلوچستان کے عوام کو جس روز آئینی حقوق دیئے گے یہ بات یقینی ہے وہاں کے حالات سازگار ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے قیام پاکستان کے بعد پہلے اقدام کے طور پر بلوچستان کی ان چار آزاد ریاستوں کو وطن عزیز سے الحاق کرنے کی دعوت دی اس مقصد کے لئے بانی پاکستان ریاست قلات کے سردار نواب نوروز خان کے ہاں خود تشریف لے گئے اور انہیں ریاست کا پاکستان نے الحاق کرنے کی دعوت دی ۔ نواب نوروز خان نے خندہ پیشانی سے قائد کے حکم کی تکمیل کرنے میں دیر نہیں کی جس میں وفاق کے دائرہ کار میں تین امور رکھنے کے علاوہ باقی تمام امور صوبے کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ معاہدے کی رو سے وفاق کے پاس دفاع، کرنسی اور خارجہ امور ہونے تھے جب کہ بقیہ تمام امور صوبے کا اختیار تھا۔ بدقسمتی سے معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا جس کے بعد بلوچستان کے حالات روز بروز خراب ہوتے چلے گئے۔ جہاں تک بلوچستان کے آئینی حقوق کا تعلق ہے ابھی تک صوبہ آئینی حقوق سے محروم ہے۔ جیسا کہ آئین کی رو سے قدرتی وسائل پر صوبوں کا حق ہے لیکن صوبوں کے قدرتی وسائل پر وفاق کا قبضہ ہے۔ ریکوڈک کی مثال لے لیں پہلے جو معاہدہ ہو ا اس میں 25فیصد آمدن صوبے اور 25فیصد وفاق کی تھی، عمران خان کے دور میں اسی کمپنی سے دوبارہ معاہدے کے مطابق بلوچستان کو ریکوڈک کی آمدن کا 25کی بجائے 30فیصد دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ گوادر کی مثال لے لیں آئین میں سمندر کا تیرہ کلومیٹر ایریا میں صوبائی حکومت کو اختیار ہے جس کے بعد باقی سمندر پر وفاقی حکومت کا اختیار ہے لیکن گوادر کے تمام امور وفاق کے کنٹرول میں ہیں۔ جہاں تک بلوچستان کی ترقی میں صوبے کو پسماندہ رکھنے میں وہاں کے جاگیرداروں اور وڈیروں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بعض سرداروں کی بڑی بڑی جائیدادیں دبئی میں ہیں ایسی ایسی قیمتی گاڑیاں ان کی ہیں شائد پاکستان کے کسی بڑے کے پاس نہیں ہیں۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا وہ واقعی وہاں کے رہنے والوں کو ان کے حقوق دلانے میں مخلص ہیں تو پہاڑوں پر جانے والوں کی واپسی ممکن ہے۔ اس مقصد لے لئے پہلی بات یہ ہے کسی طریقہ سے پہاڑوں پر جانے والے نوجوانوں کا اعتماد بحال کیا جائے اور انہیں زندگی کی ضمانت دی جائے تو ان شاء اللہ بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ صوبے میں بے روزگاری کے خاتمے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات ہونے چاہئیں۔ وفاق کو صوبے کے آئینی حقوق دینے کے لئے پہل کرنی چاہیے۔ بلوچستان کا دیرینہ مطالبہ ہے انہیں آبادی کی بجائے رقبہ کے اعتبار سے این ایف سی ایوارڈ کا حصہ دیا جائے لہذا وفاق کو بڑے بھائی کی حیثیت میں بلوچستان کی ترقی کے لئے آبادی کی بجائے رقبہ کے لحاظ سے ایوارڈ کیا جائے۔ پینے کا پانی وہاں کا بہت بڑا مسئلہ ہے یہ بات درست ہے پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے پانی سطح زمین سے بہت زیادہ دور ہے تاہم لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولت کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے جلد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں بیرون ملک سرکاری وفود بھیج کر انہیں وطن واپس آکر ملکی ترقی میں ہاتھ بٹانے کے لئے قائل کیا جائے۔ سب سے اہم مسئلہ جو بلوچستان کے عوام کا ہے افغان پناہ گزنیوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ لاکھوں مہاجرین ایک پسماندہ صوبے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت یہ تمام اقدامات کرلئے تو ان شاء اللہ یہ بات یقینی ہے صوبے کے حالات بہتری کی طرف لوٹیں گے۔





