Column

صدیوں کا بیٹا، محسن ملت محمد علی جناحؒ

ایم فاروق قمر
شیکسپیئر نے کہا تھا، ’’ کچھ لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے کاموں سے خود کو عظیم بنا لیتے ہیں‘‘۔ اگر یہ بات قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے لیے کہی جائے تو غلط نہیں ہوگی
’’ جناح آف پاکستان‘‘
کے مصنف پروفیسر اسٹینلے لکھتے ہیں، ’’ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے۔ محمد علی جناحؒ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دِکھائے‘‘۔
انسان اپنی فطرت سے ایک آزاد مخلوق ہے اور اس کی منشا یہی ہے کہ وہ آزاد رہے۔ دیگر مخلوقات میں اسے اعزاز بخشا ہے اور سب سے مکرم ومعزز قرار دیا ہے۔ اس لیے اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو ایک الگ ریاست 14اگست 1947ء کو پاکستان کی صورت میں عنایت فرمائی۔ پاکستان محض ایک ملک کا نام نہیں بلکہ ایک عظیم نظریہ کی سر بلندی کا پیغام ہے۔ یہ فقط ایک خطہ زمین نہیں بلکہ یہاں کا ذرہ ذرہ اسلامی غیرت کا امین ہے۔ یہ صرف ایک ریاست نہیں بلکہ خدائے قدوس کی عظیم امانت ہے۔
پاکستان 14اگست کو معرضِ وجود میں آیا تھا اور یہ وطن بہت قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ اس کے حصول میں اَن گنت جانیں قربان ہوئیں، تحریکِ پاکستان کے کارکنان نے اپنا دن رات ایک کرکے اس وطن خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔ اکابرینِ تحریکِ پاکستان ہوں یا عام کارکنان، سب نے مل کر کام کیا اور ہندوستان کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرایا۔
23مارچ 1940ء کا دن ہماری قومی تاریخ میں وہ سنہرا دن ہے کہ جس دن آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور کے منٹو پارک ( اقبال پارک) میں منعقد ہونے والے اپنے اجلاس میں قراداد لاہور ( پاکستان) متفقہ طور پر منظور کی تھی۔ اس دن یعنی 23مارچ کو یوم پاکستان کے طور پر بہت جوش خروش سے منایا جاتا ہے کیوں کہ قرارداد لاہور کی منظوری کے بعد مسلمانانِ برصغیر نے 7سال کے قلیل مدت میں وطن عزیر کے حصول میں کومیابی حاصل کی۔ اس کامیابی کے پس منظر میں وہ دو قومی نظریہ کار فرما تھا جس کے نقوش اس وقت واضح ہوئے تھے جب 1883ء میں امپیریل کونسل میں ایک قانون منظوری کیلئے پیش کیا گیا۔ اس قانون کی سر سید احمد خاں نے مذمت کی اور اعتراض اٹھایا کہ ممبران کے انتخاب کیلئے جداگانہ انتخاب کا طریقہ کار متعارف کروایا جائے۔ بصورت دیگر ہندو اپنی عددی اکثریتی کی بنا پر غالب رہیں گے اور مسلمانوں کو کبھی اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ سر سید احمد خاں کے اس استدلال کے حوالے سے علامہ اقبالؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس 1930ء الہ آباد میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے مزید وضاحت کرتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ان کی اکثریت کی بنیاد پر ہندوستان کے شمال مغربی خطوں پر مشتمل ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا۔
1930ء کی دہائی کے وسط تک مسلم راہنما مسلم اکثریتی صوبوں کیلئے زیادہ سے زیادہ خودمختاری کے حصول کیلئے ہندوستان کی فیڈریشن کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے مسلمانوں کیلئے زیادہ سے زیادہ سیاسی تحفظات کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں تھے۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں انڈین نیشنل کانگرس نے آٹھ میں سے چھ صوبوں میں حکومت بنائی۔ جن صوبوں میں انڈین نیشنل کانگرس کی حکومت تھی وہاں ان کا طرز حکمرانی اس چیز کی نشاندہی کر رہا تھا کہ اگر مستقبل میں کانگرس کا مرکز پر غلبہ ہو گیا تو مسلم اکثریتی صوبوں کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کانگرس کی وزارتیں اور مسلم ثقافت پر ان کے مبینہ حملے، ہندو مہا سبھا کی سرگرمیاں، کانگرس کا ترنگا لہرانا، بندے ماترم گانا، وسطی صوبوں میں ودیامندر اسکیم، وردھا اسکیم وغیرہ اس طرح کے اقدامات تھے جو مسلمانوں کیلئے پریشانی کا سبب تو تھے ہی لیکن ساتھ مسلم راہنما کو اپنی سیاسی پالیسی پر ازسرنو غور کرنے پر راغب کر رہے تھے۔
9مارچ 1940ء کو قائداعظم محمد علی جناحؒ کا مضمون لندن کے ایک ہفت روزہ میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں انہوںنے لکھا کہ
’’ انگلستان جیسی یکساں قوموں کے تصور پر مبنی جمہوری نظام ہندوستان جیسے ملک جہاں بہت سی قومیں آباد ہیں پر نافذ کرنا غلط ہوگا۔ اکثریتی اصول پر مبنی پارلیمانی نظام کا لامحالہ مطلب عددی حوالے سے بڑی قوم کی حکمرانی ہوتا ہے 1935ء کے الیکشن کے بعد قائم ہونے والی حکومت کے تجربے نے یہ ثابت کیا ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا معاشی و سیاسی پروگرام کچھ بھی ہو، ہندو عام اصول کے طور پر اپنی ذات پات کے ساتھ، اور مسلمان اپنے مذہب کو ووٹ دے گا۔ ہندوستان بھر میں مسلمانوں پر حملے کیے گئے۔ مسلم قیادت والی اتحادی وزارتوں کو ختم کرنے کی ہر کوشش کی گئی۔ ملک میں ہر جگہ جھگڑا و فسادات کیے گئے شکایات اتنی بڑھ گئیں کہ مسلمانوں نے تحقیقات کیلئے شاہی کمیشن کی درخواستیں دیں۔ اگر تاج برطانیہ کی یہ خواہش ہے کہ ہندوستان ایک مطلق العنان ہندو ریاست بن جائے، تو مجھے یقین ہے کہ مسلمانان ہند کبھی ایسی پوزیشن کے سامنے سر تسلم خم نہیں کریں گے اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ مزاحمت کریں گے۔ اس لیے ایسا آئین تیار کیا جانا چاہیے جو اس بات کو تسلیم کرے کہ ہندوستان میں دو قومیں ہیں جنہیں اپنے مشترکہ مادرے وطن کی حکمرانی میں برابر شریک ہونا چاہیے‘‘۔
3اکتوبر 1939ء کو دوسری عالم گیر جنگ چھڑ گئی اسی سال 22 اکتوبر کو کانگریسی وزارتوں نے استعفے دے دئیے قائد اعظمؒ کی اپیل پر 22 دسمبر کو مسلمانوں نے پورے ملک میں یوم نجات منایا جس میں دوسری غیر مسلم اقلیتیں بھی شریک ہوئیں، چند مہینے بعد مسلمانوں نے اپنا راستہ چن لیا۔
اس سیاسی و سماجی پس منظر میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زیر صدارت 22 تا 24مارچ 1940ء کا منٹو پارک ( اقبال پارک) لاہور میں منعقد ہوا اس اجلاس میں ملک بھر سے لاکھوں افراد شریک تھے۔
23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں جلسہ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اجلاس کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس میں پہلی مرتبہ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد بھی شریک ہوئی۔ اس قرارداد میں میاں بشیر احمد کو سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ میاں صاحب کی نظم ’’ ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناحؒ‘‘ انور غازی آبادی نے پڑھی جس کو شرکاء نے سب سے زیادہ پسند کیا۔ یہ نظم سالہاسال زبان زد عام رہی اس نظم کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ نے جن چیزوں کا تذکرہ محض تصور کے طور پر کیا تھا یا انہیں مستقبل میں حاصل کرنے کی امید دلائی تھی۔
1940ء کے اس جلسہ میں میاں بشیر احمد نے اس نظم کے ذریعے یہ بتانا چاہا کہ جس مرد مومن کا اقبال نے خواب دیکھا اس کی تعبیر محمد علی جناحؒ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور صرف 7سال بعد پاکستان معرض وجود میں آگیا جس نے اقبالؒ کے تصور کو حقیقت کا رنگ دے دیا۔
اگر ملت کو جسم سمجھا جائے تو جناح اس کی روح ہیں اور انہی کی پکار پر ملت دوبارہ متحد ہوئی یہ نظم بہت مقبول ہوئی 1940ء کی نوجوان نسل نے اس کو اپنی اگلی نسل میں منتقل کیا اور یہ آج بھی اسی طرح مقبول ہے جس طرح پہلے مقبول تھی۔
اجلاس میں خطبہ استقبالیہ بطور چیئرمین مقامی استقبالیہ کمیٹی سر شاہنواز خان ممدوٹ نے دیا۔ اس اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور دیگر سرکردہ رہنمائوں نے خطاب کرتے ہوئے ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات کا ذکر کیا اور انڈین نیشنل کانگریس کی سازشوں کا پردہ فاش کیا۔
قرارداد کے مسودے کی تیاری کے لیے خصوصی ورکنگ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی مذکورہ کمیٹی نے غور و فکر کہ بعد متفقہ طور پر قرارداد کے مسودے کے متن کو منظور کیا۔ اس قرارداد میں مسلمانان ہند کے کے لئے ایک الگ وطن کی سفارش کی گئی تھیں۔
قائداعظمؒ کی زیر قیادت مسلم لیگ نے اجلاس لاہور منعقدہ 1940ء میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین قراردیا اور یہی نصب العین بعد میں مطالبہ پاکستان کے نام سے مشہور ہوا۔
قرار داد کو وزیراعلیٰ بنگال اے کے فضل الحق نے جنرل سیشن میں پیش کیا۔ اس کی حمایت یوپی سے چودھری خلیق الزمان، پنجاب سے ظفر علی خاں، مغربی صوبے سے سردار اورنگزیب خان، سندھ سے سر عبداللہ ہارون، بلوچستان سے قاضی محمد عیسیٰ اور دیگر رہنمائوں نے حمایت کا اعلان کیا۔ اس طرح برطانوی ہند کے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کی قرارداد منظور کی گئی جو پاکستان کی تاریخ کی ایک اہم تاریخی دستاویز ہے۔
تحریکِ پاکستان کے ممتاز اراکین کی فہرست میں ایک نام پروفیسر اصغر سودائی کا بھی ہے، جن کا نعرہ ’’ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ ابھی تک زندہ جاوید ہے۔1944ء میں اپنے طالب علمی کے دور میں تحریک پاکستان کے دوران انہوں نے ایک نظم ’’ ترانہ پاکستان‘‘ کہی تھی اور یہ بے مثال مصرع اسی نظم کا ہے۔ مذکورہ بالا نعرہ مسلم لیگ کیلئے نعرہ زبردست اہمیت کا حامل بن گیا۔ پاکستان کی مذہبی جماعتیں آج بھی اپنے جلسوں میں یہی نعرہ استعمال کرتی ہیں۔ تحریک پاکستان اور یہ نعرہ لازم و ملزوم بن گیا۔
1946ء کے عام انتخابات جو پاکستان اور اسلام کے نام پر لڑے گئے ان انتخابات میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبہ نے قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر اپنا گھر بار چھوڑ کر پنجاب، سندھ بلوچستان اور سرحد کے شہروں اور دیہاتوں میں پہنچے اور مسلم لیگ کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ اس سلسلے میں مسلمان خواتین بھی پیچھے نہیں رہیں۔
مسلمان خواتین نے بھی اپنے اندر آزادی کے جذبے کو بیدار کیا۔ ایک نوجوان طالبہ فاطمہ صغریٰ نے سول نافرمانی کی تحریک دوران 1946ء میں یونین جیک اتار کر اپنے دوپٹے سے بنا مسلم لیگ کا جھنڈا لاہور سول سیکرٹریٹ پر لہرایا دیا۔
اس طرح مادرِ وطن کی آزادی کیلئے نوجوانوں نے ہر اوّل دستے کے طور پر اپنے بزرگوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر جدوجہد کی اور ایک آزاد وطن کے خواب کی تعبیر پائی۔
حالیہ سالوں میں جب سے انڈیا میں بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار آئی ہے تو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ہونے والے مظالم میں اضافہ ہوا ہے، ان پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ مودی کی حکومت مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے انتہائی بہیمانہ مظالم کر رہی ہے۔ آزادی ایک نعمت ہے اگر اس کی اہمیت جاننا ہو تو فلسطین اور کشمیر کے لوگوں کو دیکھیں۔ ہندوتوا کے دہشت گرد پورے انڈیا میں مسلمانوں کی بستیاں جلا رہے ہیں، یہ اقدامات مسلمانوں کی نسل کشی کے زمر ے میں آتے ہیں۔ ہندوتوا کا بڑھتا ہوا جنون اور یہ دہشت گردی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے بزرگوں کی دورس نگاہ اور فہم نے ہندوتوا کی اس مکروہ ذہنیت کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا۔ یہ آزادی ہمیں بہت مشکل سے ملی ہے، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔
ہم اپنے ان قومی ہیروز کی عظمت کو سلام کرتے ہیں جن کی جدوجہد و قربانیوں کی بدولت آج ہم ایک آزاد ملک میں جی رہے ہیں۔ آئیے ہم سب اپنے آپ سے عہد کریں کہ:
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

جواب دیں

Back to top button