اب تو سمجھ جائیے

صفدر علی حیدری
وہ ایک لاوارث بچہ تھا جو لیاری کی گلیوں میں پل کر جوان ہوا۔ اسے باکسنگ کے کھیل سے عشق تھا۔ وہ لیاری کی گلیوں میں مکے لہراتا ہوا جوان ہوا اور ایک دن پاکستان کا دوسرا کھلاڑی بنا جس اولمپکس میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ کسی انفرادی کھیل میں محمد بشیر پہلوان کے بعد وہ دوسرا سورما تھا۔ جی ہاں یہ حسین شاہ تھا جو ملک کے لیے بہت کچھ کرنے کا خواہش مند تھا مگر ۔۔۔۔۔ سرپرستی نہ ہونے کے سبب جاپان چلا جاتا ہے اور وہاں کے قومی باکسرز کا کوچ بن جاتا ہے، جہاں باکسرز کی ٹریننگ کرتا ہے ۔ 1988ء گرمائی اولمپکس میں اس نے جو برونز میڈل جیتا وہ اولمپکس میں پاکستان کے ایونٹ میں پاکستان کا سب سے پہلا میڈل تھا۔ سید حسین شاہ، پچھلے پچاس برس میں انفرادی سطح پر اولمپکس میں کوئی میڈل لینے والے واحد کھلاڑی ہیں۔ میں حسین شاہ کو کبھی نہیں بھولا مگر آج وہ مجھے ایک اور حوالے سے یاد آئے ہیں ۔ جب انہوں نے اولمپکس میں میڈل جیتا تو اسے ایک پلاٹ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جو بد قسمتی سے آج تک نہیں ملا۔
قومی ہیرو ارشد ندیم کے بہت سے چاچے مامے نکل آئے ہیں۔ ن لیگ بھی کسی سے پیچھے نہیں پیچھے نہیں رہی بلکہ کئی قدم آگے ہے اور سب کو پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ پرچیاں لکھ کر اور سرگوشیاں کر کے اس نے اس جیت کا کریڈٹ لینے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ خدا کے لیے جس کی محنت ہے اسے اس کا کریڈٹ لینے دیں۔ انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی بھونڈی کوشش مت کریں۔
ارشد کے لیے بڑے بڑے انعامات دئیے جانے کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اسے مل بھی جائیں۔ حسین شاہ کی طرح اسے طویل اور ناکام انتظار نہ کرنا پڑے ۔ بات مگر یہاں پر رکتی نہیں ہے اور نہ رکنی چاہیے۔ سب نے دیکھ لیا کہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ( وسائل کی شدید کمی اور وسائل کی شدید زیادتی کے باوجود ) کرکٹ سے ہٹ کر دوسرے کھیلوں ( خصوصاً انفرادی ) پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پچھلے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ سکول کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر کھیلوں کو خصوصی مقام دیا جائے۔ تعلیم صرف چند کتابیں رٹ لینے کا نام نہیں۔ نہ ہی وہ پہلے والا دور ہے کہ ’’ کھیلو گے کودو گے ہو گے خراب ‘‘، اب تو تعلیم بھی تکنیکی اور فنی علوم میں دینا کا وقت ہے۔ ایٹم بم سے تباہ حال جاپان کی ترقی دنیا بھر کے لیے ایک بڑی مثال ہے ۔
جنوبی پنجاب میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ چھوٹے چھوٹے علاقوں میں اکیڈمیاں بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔ ایک مرکزی اکیڈمی ارشد ندیم کے شہر ( میاں چنوں ) میں بنانے کی ضرورت ہے جہاں دیگر شہروں سے نمایاں اتھلیٹ لائے جائیں ، ان کے وظیفے مقرر کیے جائیں تاکہ ان کو مالی پریشانی سے چھٹکارا ملے اور وہ یک سوئی سے کھیل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ملک کا نام روشن کر سکیں ۔
ملک میں ضلعی، صوبائی اور ملکی سطح پر گیمز ہر سال منقعد کروائے جائیں ۔ قومی گیمز میں جیتنے والے کھلاڑیوں کو بیں الاقوامی مقابلوں میں بھیجا جائے تاکہ وہ عالمی سطح پر پاکستان کی نہ صرف نمائندگی کر سکیں بلکہ اپنی اچھی کارکردگی سے ملک و قوم کا نام روشن کر سکیں۔ ارشد ندیم خوش قسمت تھا کہ وہ وسائل کی کمی کے باوجود اعلی ترین مقام پر پہنچا ۔ ہر انسان اس کے جیسا دلیر، جفاکش اور مضبوط اعصاب کا مالک نہیں ہوتا ۔ وہ اپنی مثال ہے اور اس جیسا کوئی دوسرا نہیں کہ ایسے مشکل حالات کے موجود اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت سکے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ملک میں ٹیلنٹ کو قحط پڑا ہوا ہے۔
باصلاحیت کھلاڑیوں کو میرٹ کے تحت منتخب کر کے مرکزی اکیڈمی میں بھیجا جائے ۔ ان کو معاوضہ دیا جائے ، وظیفہ مقرر کیا جائے تا کہ وہ اپنے کھیل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے آگے بڑھ سکیں ۔ جو کھلاڑی قومی سطح پر منتخب ہوں ان کو مختلف سرکاری محکموں میں نوکریاں دی جائیں ۔ اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ یک سو ہو کر آگے بڑھیں گے اور ملک و ملت کا نام عالمی سطح پر روشن کریں گے۔
ارشد ندیم کے ٹیلنٹ اور اس کی کامیابی سے ہمارے ارباب بست و کشاد کو یہ سمجھ جانا چاہیے کہ کھیل کھیل ہوتا ہے اور ہر کھلاڑی قابل احترام ہوتا ہے۔
مانا کرکٹ نے کئی کھیلوں کو نگل لیا ہے مگر یہ ہماری ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہم سب کھیلوں پر ( خصوصی طور پر ان کھیلوں پر جن میں ہمارے ہاں بڑا ٹیلنٹ پایا جاتا ہے ) یکساں توجہ دیں تاکہ پاکستان مختلف کھیلوں میں آگے بڑھ سکے اور ان کھیلوں کے حوالے سے اس کا نام عزت و احترام سے لیا جائے ۔
قوم بھی اب کرکٹ سے ہٹ کر سوچ رہی ہے۔ موقع اچھا ہے قوم کی راہ متعین کر دیجئے، اسی میں ہماری عزت ہے۔







