Column

ڈوب مرنے کا مقام

سیدہ عنبرین

کون سی آزادی اور کیسی مبارک، ملک کی ذمہ دار ترین شخصیت نے واضح الفاظ میں بتایا کہ جاری مالی سال کا بجٹ آئی ایم ایف نے بنایا، ان کے حکم پر متعدد ٹیکس لگائے گئے، ان کے کہنے پر سال میں جانے کتنی بار بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے، ملک کئی ہزار ارب نہیں، کھربوں روپے کا مقروض ہو چکا، سادہ لفظوں میں کہہ سکتے ہیں ملک کا باجا بج گیا، لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، جشن آزادی کے نام پر باجے بجانے والوں کا زوق و شوق ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، بجلی کے بلوں کے نام پر قوم کا لہو نچوڑ لیا گیا۔ وفاقی وزیر محترم نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ کروڑوں یونٹ بجلی کے اضافی بل بھیجے گئے، اس بات کو کئی ماہ گزر چکے ہیں، ڈاکوئوں کے خلاف کسی کارروائی کی کوئی خبر نہیں، چند ہزار ارب روپے سے نیا ڈیم بن سکتا تھا وہ نہ بنایا گیا، کئی ہزار ارب روپے پرائیویٹ پاور پروڈیوسر کو اس بجلی کیلئے ادا کر دیئے گئے جو نہ بنی نہ قوم نے استعمال کی، پھر بھی رٹ لگا رکھی ہے ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔ اندازہ کیجئے اگر تحفظ کی قسم نہ کھائی ہوتی تو آج ہم اور ہمارا ملک کس حال میں ہوتے، نیا سبز باغ یہ ہے کہ تقسیم کار کمپنیوں کو پرائیویٹائز کیا جا رہاہے، یہ کہانی سنتے بھی کئی برس بیت گئے، جو کام فقط چھ ماہ میں ہو سکتا تھا وہ برسوں بعد نہ ہو سکا، شاید پسند کا گاہک نہیں مل رہا۔ اہم سوال آج بھی سامنے کھڑا ہے بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اگر پرائیویٹ سیکٹر کو بیچ دی گئیں تو کیا ان کی لوٹ مار ختم ہو جائے گی؟۔ اس سوال کا جواب کے الیکٹرک کے معاملات میں مل جائے گا، لوٹ مار کم نہیں ہوئی بڑھ گئی، لیکن اب حکومت کہہ سکتی ہے اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں، یقیناً حکومت کا کوئی قصور نہیں لیکن کیا ڈاکوئوں کو پکڑنا بھی حکومت کی ذمہ داری نہیں، ایک ادارہ کیا بیچا، اپنے تمام اختیارات بھی ساتھ بیچ دیئے گئے۔ کے الیکٹرک کے مالکان میں ایک نقوی صاحب تھے، جو پی ایس ایل کرکٹ میں بڑھ چڑھ کر بولی دیتے اور پھر ایک کرکٹ ٹیم کے مالک بن کر اربوں روپے ادھر سے ادھر کرتے نظر آئے، ان کی کمپنی نے متعدد مرتبہ اضافی بلنگ کی، جب شور بڑھا تو عوام کی اشک شوئی کیلئے چند سیاسی بیانات ضرور جاری کئے گئے، عملی طور پر کچھ نہ ہوا۔ اضافی بل بھیجنے کا سلسلہ رکا نہیں، لیکن بات ثابت ہونے کے باوجود لوٹی ہوئی رقم لٹنے والوں کو نہ ملی۔ اگر کمی ایڈجسٹ کی بھی گئی تو بہت کم، انہی نقوی صاحب کو لندن میں منی لانڈرنگ کے معاملے میں دھر لیا گیا۔ انہوں نے گرفتاری کے بعد پہلا فون اس وقت کے وزیراعظم کو کیا، پھر حکومت پاکستان حرکت میں آئی اور برطانوی حکومت سے انہیں چھوڑنے کے حوالے سے لابی کرنے کی خبریں آئیں۔ اندازہ کیجئے ایک مجرم کو چھڑانے کیلئے کس طرح پر کوششیں ہوتی ہیں، برطانوی حکومت نے کوئی پریشر قبول نہ کیا اور ملزم کو امریکہ کے حوالے کر دیا، کیونکہ وہ امریکہ میں بھی اپنے کسی کارنامے کے سلسلے میں مطلوب تھے۔
بجلی کے بلوں میں لوٹ مار یعنی کیش پیمنٹ کا بوجھ عوام پر آج نیا نہیں ہے، یہ گھنائونا کھیل کئی برس سے جاری ہے۔ کچھ ایسے پلانٹ بھی تھے جن کے معاہدے کی ٹرم پوری ہو چکی تھی، لیکن ان کے معاہدے کو بہتر کرنے کی بجائے انہی نرخوں پر کام جاری رکھنے کی اجازت و سہولت دیتے ہوئے معاہدے رینو کر دیئے گئے۔ حکومت پاکستان کے ایک بہت قابل وزیر نے فرمایا جس کے پاس پاور پراجیکٹس کے حوالے سے کوئی پلان ہے وہ آگے آئے، ایسی پیشکشیں سنتے بھی عرصہ ہو گیا، کسی کو کون آگے آنے دیتا ہے، مسئلے کا سادہ سا حل یہ تھا کہ سرکاری ملکیت میں چلنے والے پلانٹ بند کر کے معاہدوں کے مطابق پرائیویٹ پروڈیو سے بجلی بنوا لی جائے اور خریدی جائے، یوں لوڈ شیڈنگ بھی ختم ہو جائے اور کیش پیمنٹ سے جان چھوڑ جائے، مزید سہولت اس طرح دی جا سکتی ہے کہ بجلی کے بلوں سے ٹی وی فیس اور درجن بھر ناروا ٹیکس ہٹا کر قوم کو سکھ کا سانس دلایا جا سکتا ہے۔
نئے ٹیکسوں کی بھرمار سے ٹیکسٹائل سیکٹر میں چالیس سے زائد کارخانے بند ہو چکے ہیں، اتنے مزید آئندہ ماہ بند ہو جائیں گے۔ برآمدی ہدف حاصل نہ ہو سکے گا، پھر بجٹ میں دیئے گئے اہداف پورے کیسے ہوں گے؟، آج ہم خطے میں مہنگی ترین بجلی پیدا کرنے والا ملک ہیں، کارخانہ دار ایک مرتبہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ ہر ماہ نقصان برداشت کرنے کی بجائے بہتر ہے کاروبار کر کے منافع نہ کمائے۔
بنگلہ دیش میں حکومت بدلنے کے بعد نئی آنے والی حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج معاشی چیلنج ہے۔ حسینہ حکومت میں سو طرح کی خامیاں تھیں لیکن وہ بنگلہ دیش کی اقتصادی حالت کہ بہتر بنانے اور آبادی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہی، ہم ان دونوں محاذوں پر بری طرح ناکام رہے۔ اب بنگلہ دیش حکومت کی باگ ڈور ایسے ہاتھوں میں آئی ہے جو زیادہ بہتر انداز میں اپنی اقتصادیات کو آگے بڑھائیں گے، تاکہ حکومت کی تبدیلی کا جواز درست ثابت ہو، نئی حکومت اپنی ایکسپورٹ بڑھانے پر سب سے زیادہ توجہ دینے کا عزم رکھتی ہے، اس کا دوسرا ہدف دنیا بھر سے سرمایہ داروں کو اپنی جانب راغب کرنا ہو گا۔ بنگلہ دیشی حکومت غیر ملکی سرمایہ داروں کو پرکشش شرائط پیش کرے گی ، پس گمان ہے کہ پاکستان سے سرمایہ دار اور سرمایہ بنگلہ دیش منتقل ہونا شروع ہو جائے گا۔ ایک دہائی قبل بھی حکومت کی پالیسیوں کے سبب بنگلہ جانے کا رجحان دیکھنے میں آیا، کیونکہ وہاں بجلی سستی ہونے کے ساتھ ساتھ لیبر بھی سستی ہے اور دل لگا کر کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش میں تیار ہونے والے مال کی دنیا کے کونے کونے تک پہنچنے اور پسند کئے جانے کی ایک بڑی وجہ کوالٹی بھی ہے، وہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ نہیں، اب چین کی مصنوعات کے ساتھ مقابلے میں ہیں، جبکہ ہم اس معاملے میں بھی دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔
مڈل ایسٹ ہمارے لئے بہترین مارکیٹ تھا لیکن ہم مسابقتی نااہلی کے سبب کوئی مقام حاصل نہ کر سکے۔ خلیج کی سات ریاستوں میں پاکستانی مال کہیں نظر نہیں آتا، اول چائنا، دوئم بھارت اور تیسری پوزیشن بنگلہ دیش کی ہے۔
ہمارے یہاں ہر بجٹ کے موقع پر ایکسپورٹ کا ہدف بڑھایا جاتا ہے، لیکن اسے حاصل کرنے کیلئے اقدامات نہیں کئے جاتے، پورے ملک کے مجموعی کارخانہ داروں کی تعداد کا نصف کام چھوڑ کر یا تو بنگلہ دیش شفٹ ہو چکا ہے یا پھر اس نے رئیل اسٹیٹ میں اپنا پیسہ لگا دیا ہے، جہاں اسے اٹھارہ محکموں کے بابوئوں کا پیٹ نہیں بھرنا پڑتا۔
جناب شبر زیدی صاحب آن ریکارڈ بتا گئے کہ کئی ہزار افراد روزانہ صرف اس لئے دفتر آتی ہیں کہ نئی مرغی کو پھنسا سکیں۔ آزادی حاصل کئے سات دہائیاں بیت گئیں، آج جس مقام پر ہم ہیں وہ فخر کا مقام نہیں، ڈوب مرنے کا مقام ہے، کوئی عدالت کسی قومی مجرم کو طلب کر کے حساب لے گی سزا دے گی یا ہم ڈاکوئوں کو ڈرائی کلین ہوتا ہی دیکھتے رہیں گے۔ کچے کے ڈاکو ہوں یا پکے کے ڈاکو، کوئی ہمارے قابو نہیں آتا۔

جواب دیں

Back to top button