آزادی ایک نعمت ہے

ڈاکٹر محمد صابر میمن
چیف آپریٹنگ آفیسر ، شہید محترمہ بینظیر بھٹو انسٹیٹیوٹ آف ٹراما
ہمارا پیارا ملک پاکستان 14اگست1947ء کو معرض وجود میں آیا اور یہ وطن بہت قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ بر صغیر کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ آزاد مملکت کے حصول میں ان گنت لوگوں نے اپنی جانیں قربان کیں، تحریک پاکستان کے لاکھوں کارکنوں نے دن رات ایک کرکے اس وطن کے خواب کو حقیقت میں پرویا۔ تحریک پاکستان کے اکابرین اور عام کارکنان نے ملکر انتھک محنت ، کاوشیں کیں اور ہندوستان کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل کے وقت یہ سب خواب سا لگتا تھا کہ مسلمان انگریزوں کے تسلط سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے، خوش قسمتی سے مسلمانوں کو بہترین قیادت میسر آئی جو اپنے مشن کے ساتھ نہایت مخلص تھی اور جس نے اپنی ساری زندگی اس مقصد اور مشن کیلئے وقف کردی تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے علالت کے باوجود تحریک پاکستان کیلئے کام جاری رکھا اور کسی کو معلوم نہ ہونے دیا کہ آپ کی بیماری کس حد تک جا پہنچی ہے، آپ خرابی صحت کے باوجود مسلمانوں کا مقدمہ لڑتے رہے۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے جو خواب دیکھا تھا کہ شمال مغربی ریاستوں میں مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست ہو، اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تحریک پاکستان میں شامل ایک ایک فرد نے محنت کی، مصائب کا سامنا کیا اور اپنے حصے کے کام کو ملی فریضہ جان کر انجام دیا، تشدد، قید و بند، اپنی زمینوں سے محرومی، مسائل اور دھمکیوں کے باوجود وہ سب کے سب ڈٹے رہے، سر سید احمد خان سے سر آغا خان تک علی برادران ، نواب وقار الملک، مولانا محمود الحسن، مولانا ظفر علی خان ، مہاراجہ محمود آباد، علامہ شبیر احمد عثمانی، حمید نظامی ، حسرت موہانی، حکیم اجمل خان ، مولانا اشرف تھانوی، مولوی عبد الحق، سر سکندر حیات خان ، حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، سردار عبد الرب نشتر، آئی آئی چندریگر، نواب بہادر یار جنگ ، سر ظفر اللہ خان ، چودھری رحمت علی، سر عبداللہ ہارون ، مولانا محمد علی جوہر اور دیگر کئی اکابرین نے اپنا اپنا کردار اس خوبی سے نبھایا کہ کسی ایک کو بھی اس منظر سے غائب کیا جائے تو ان کی جگہ دوسرے کا کام کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ مسلمانوں نے خواہ سیاست، صحافت، وکالت، ادب اور سماجی خدمات ہوں، ہر شعبے میں مسلمانوں میں تحریک کو ابھارا، اس تمام جدوجہد میں خواتین بھی مردوں کی طرح میدان میں اتریں ، تحریک پاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح کا کردار مثال ہے، انہوں نے اپنی زندگی ہی اس مقصد کیلئے وقف کر دی تھی۔ بیگم رعنا لیاقت ، بی اماں ، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، بیگم جہاں آرا، بیگم محمد علی جوہر، بیگم ہدایت اللہ، بیگم نواب اسماعیل ، بیگم شاہ نواز، بیگم شائستہ ، بیگم زری سرفراز اور بیگم قاضی عیسیٰ نے نئے اور آزاد وطن کی جدوجہد میں قابل قدر خدمات انجام دیں اور گھروں میں موجود مسلمان خواتین میں جذبہ آزادی بیدار کیا، فاطمہ صغریٰ نامی طالبہ نے سول نافرمانی کی تحریک کے دوران 1946ء میں یونین جیک اتار کر اپنے دوپٹے سے بنا مسلم لیگ کا جھنڈا لاہور سول سیکرٹریٹ پر لہرایا تھا۔ یہ آزادی ہمیں بہت مشکل سے ملی ہے ،ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی نسل نو کو اپنے آبائو اجداد کی قربانیوں سے روشناس کرائیں، انہیں بتایا جائے کہ کس طرح عظیم جدوجہد کے بعد پاکستان کا قیام ممکن ہوا۔ ماہ اگست میں بالخصوص ہمیں اپنے چھوٹے بچوں کو جشن آزادی کے سلسلے میں تیاری کی ترغیب دینی چاہئے ، اکابرین پاکستان کے بارے میں ان کے پاس معلومات ہوں، دو قومی نظریہ کیا ہے، اس کی خاطر لاکھوں لوگ کس طرح جانیں قربان کرنے کو تیار ہوگئے، آزادی مہینے میں ہم اپنے بچوں کو قومی میوزیم لے جائیں اور انہیں ملک کی دفاعی اور نظریاتی تاریخ سے آگاہ کریں، بچوں کو قومی پرچم کے رنگوں والے پہناوے پہنائے جائیں، جھنڈے، جھنڈیاں، بیج وغیرہ انہیں لیکر دیں تاکہ اس دن کی اہمیت کم عمری سے ان کے کچے ذہنوں میں پیوست ہوجائے، آزادی کا جشن اللہ رب العالمین کا شکر ادا کر کے ہی منایا جا سکتا ہے۔ بچوں کی ذہن سازی کی جائے کہ غلامی کس قدر بڑی ذلت ہے، آزاد مملکت میں رہنے کا احساس کس قدر خوشگوار ہے، ہمیں چاہئے کہ یوم آزادی پر جشن مناتے وقت ہم اکابرین پاکستان اور تحریک پاکستان کی جدوجہد میں شامل شہدا اور غازیوں کیلئے بھی فاتحہ خوانی کریں، انہیں اپنی دعائوں میں یاد رکھیں، گھر کو سجائیں۔ قومی پرچم لہرائیں ، ساتھ ہی خرافات سے بچوں کو دور رکھنے کیلئے انہیں آگاہی دیں کہ سائلنسر اتار کرسڑکوں پرباجے بجانے کا رجحان ہماری روایت نہیں۔ پاکستان کے قیام کو ممکن بناکر ہمارے اجداد نے تو اپنا فرض نبھا دیا لیکن اب ہماری کیا ذمے داریاں ہونی چاہئیں، نئی نسل سے سب کو بہت امیدیں ہیں، تعلیم، صحت، کھیل، ٹیکنالوجی، صنعت و حرفت سمیت معاشی میدان میں جب یہ نسل نو اترے گی تو یقیناً ہمارا ملک اسی طرح عظیم بن کر ابھرے گا جس کا ہمارے بزرگوں نے خواب دیکھا تھا۔ میں اپنے شعبے کی بات کروں تو ہمیں پاکستان بھر میں صحت پر خصوصی توجہ دینا ہوگی تاکہ تمام پاکستانیوں کو صحت کی سہولتیں میسر آسکیں، سندھ صوبے میں صوبائی وزیرصحت عذرا فضل پیچوہو کی خدمات کے نتیجے میں آج ہم دیکھتے ہیں کہ پورے صوبے میں بہترین اسپتالوں کا نیٹ ورک فعال ہے جن سے سالانہ لاکھوں مریض نہ صرف استفادہ کر رہے ہیں بلکہ ان اسپتالوں کے نظام میں بہتری لانے والے حکمرانوں کو دعائیں بھی دیتے ہیں۔ سندھ میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیواینڈ ویسکیولر ڈزیزز ( این آئی سی وی ڈی) ، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر ( جے پی ایم سی) ، ڈاکٹر رتھ فائو سول اسپتال، شہید محترمہ بینظیر بھٹو انسٹیٹیوٹ آف ٹراما، سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ ( ایس آئی یو ٹی)، ڈائو میڈیکل یونیورسٹی اسپتال، گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جیسے ادارے نہ صر ف سندھ کے لوگوں کو علاج کی معیاری سہولتیں فراہم کر رہے ہیں بلکہ پاکستان بھر سے آنیوالے مریض ان اداروں سے مستفید ہورہے ہیں، سیکڑوں غیر ملکی بھی سندھ کے صحت کے اداروں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور دعائیں دیتے ہیں۔ ہمیں اسی طرح مختلف شعبہ جات میں پاکستان کو ترقی کی جانب لیکر جانا ہے تو اپنے بزرگوں کی ایک عادت اپنانا ہوگی اور وہ ہے انتھک محنت اور مستقل مزاجی۔ آخری بات ہماری نوجوان نسل قائد اعظمؒ کا فرمان یاد رکھے کہ ’’ کام ، کام اور صرف کام‘‘۔







