Column

قیام پاکستان کی جدوجہد ، موجودہ حالات میں علم کی اہمیت

چیئرمین: ثانوی تعلیمی بورڈ، کراچی

سید شرف علی شاہ

قیام پاکستان ایسا موضوع ہے جس پر ہزار ہا مضامین تحریر کئے جاچکے ہیں۔ آخر وہ کیا حالات تھے کہ ہمارے بزرگوں نے مسلمانوں کیلئے علیحدہ ملک کی ضرورت محسوس کی؟۔ ہمارے اکابرین نے جو طویل جدوجہد کی، لاکھوں لوگوں نے جانیں قربان کیں، مسلمانوں نے کن حالات کا سامنا کیا؟ اس حوالے سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1857ء میں سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد جب آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر کو شکست دیکر انگریزوں نے ہندوستان پر قبضے کی تکمیل کی تو انگریز حکمرانوں اور ہندوئوں کے مسلم مخالف گٹھ جوڑ نے مسلمانوں کو غلامی کے اندھیرے غار میں دھکیلنے کی مذموم کوششیں شروع کر دیں۔ انگریز سامراج کو سب سے زیادہ خطرہ مسلمانوں سے تھا کیونکہ یہ حاکم قوم تھی۔ کسی وقت بھی سر اٹھا کر عظمت رفتہ بحال کرنے کی کوشش کر سکتی تھی اور ہندو جو قلیل عرصے سے رعایا بن کر رہ رہے تھے ، اسی حال میں مطمئن اور خوش تھے بلکہ اب انہیں انگریزوں سے ملکر مسلمانوں کو دبانے کا موقع ہاتھ آگیا تھا۔ انگریز حکومت نے یہ حکمت عملی اپنائی کہ ہندوئوں کی سرپرستی کریں اور مسلمانوں کی کمر توڑ دیں تاکہ یہ خطرہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا جائے۔ سارے برطانوی ہندوستان میں ہندوئوں کو سرکاری ملازمتوں اور دیگر ہر قسم کی مراعات سے نوازا جانے لگا۔ شاطر ہندوئوں نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ مسلم دشمن دونوں فریقوں کی مشترکہ حکمت عملی بن گئی۔ ہندو لیڈروں نے مسلمانوں کی بے توقیری اور بدلتے حالات میں ان کے فکری فقدان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندو مسلم اتحاد کا ڈھونگ رچایا کہ انگریز کے جبر کے سامنے ہندو مسلمان ملکر ہی اپنے حقوق کا دفاع کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف ہر شعبہ زندگی میں انگریز کی تابعداری اور بھرپور تعاون کی حکومت کو یقین دہانی کرا دی۔ 1885ء میں ایک انگریز ہی نے کانگریس پارٹی کی بنیاد رکھی تو ہندو سیاستدانوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے اس میں جوق در جوق شمولیت اختیار کی۔ مسلمان جو غدار حاکموں اور بہادر شاہ ظفر کی شکست کے بعد دل شکستہ اور پریشان حال تھے۔ انہیں کانگریس میں شمولت ہی میں اس زبوں حالی سے نکلنے کی امید نظر آئی۔ انہیں ہندوئوں کے خبث باطن کا اتنا ادراک نہ تھا کہ وہ کس حد تک فریب دہی اور دھوکہ بازی کر سکتے ہیں۔یہ صورتحال 1906 تک قائم رہی۔ مسلم سیاستدان کانگریس میں شامل ہوکر سیاسی حقوق کی جدوجہد میں متحد رہے۔ آہستہ آہستہ یکے بعد دیگرے ہندو ذہنیت کی دوغلی سیاست کے خاردار گوشے نمایاں ہونے لگے۔ پے درپے مسلم مفادات پر فریب، دھوکہ دہی ،وعدہ خلافی اور بداعتمادی کے متعدد واقعات نے مسلمان رہنمائوں کو حالات کا ازسرنو جائزہ لینے پر مجبور کیا۔ اس پس منظر میں ڈھاکہ میں 1906ء میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور مسلمانوں کے حقوق کی پاسداری کیلئے باقاعدہ سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوا۔ انگریز سامراجی پالیسیوں کے تحت سرکاری ملازمتوں، کاروبار اور صنعتکاری کے میدان میں مسلمانوں کا عمل دخل کم سے کم ہوتا جا رہا تھا۔ غربت، بے توقیری ، بیروزگاری ،مسلم معاشرت کو تباہ کر رہی تھی۔ مسلم لیگ نے مسلمانوں کی علیحدہ قومی حیثیت منوانے کیلئے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ پیش کیا تو پنڈت جواہر لعل نہرو کی سرکردگی میں حکومت نے جائزہ کمیٹی قائم کر دی۔ انہی دنوں مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی جوہر کی قیادت میں تحریک خلافت زوروں پر تھی۔ مسلمان اس میں جوق در جوق شامل ہوکر انگریزوں کیخلاف اور ترکی کی حمایت میں پرزور مظاہرے کر رہے تھے۔ مہاتما گاندھی نے کمال منافقت سے کام لیتے ہوئے تحریک خلافت میں مسلمانوں کا ساتھ دینے کا ڈھونگ رچایا۔ یہ دو قومی نظریئے کیخلاف شاطرانہ چال تھی جو کامیاب نہ ہوسکی۔ تحریک خلافت ماند پڑی تو نہرو رپورٹ سامنے آگئی جس میں جداگانہ انتخاب کے مسلم لیگ کے مطالبے کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ قائداعظمؒ نے 1929ء میں مطالبات کے 14نکات پیش کر دیئے۔ کانگریس نے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس صورتحال کے پیش نظر 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس الہ آباد میں ہوا جس کی صدارت علامہ محمد اقبال نے کی۔ اس کانفرنس کا پس منظر بنگال، بہار، اڑیسہ، بنارس، آگرہ، بمبئی اور ہندوستان کے اکثر دوسرے علاقوں میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات میں ہندو بلوائیوں کے ہاتھوں بے گناہ مسلمانوں کے خون کی ہولی، ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل، مسلمانوں کے محلے اور مکانات جلا کر لوگوں کو بے گھر کرنا تھا۔ اب ہندو مسلم تضادات اور دشمنی کھل کر سامنے آگئی تھی۔ کانگریس کی ہٹ دھرمی بھی مسلسل جاری تھی۔تاج برطانیہ نے ہاتھ سے نکلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر لندن میں پہلی گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں مسلمانوں کے نمائندہ کی حیثیت سے قائداعظمؒ شریک ہوئے۔ یہ کانفرنس بے نتیجہ رہی۔الہ آباد کے مسلم لیگ کے اس عظیم الشان تاریخی اجلاس میں علامہ اقبال نے اپنے صدارتی خطبے میں اعلان کیا کہ مسلم تمدن اور ہندو کلچر دو علیحدہ حقیقتیں ہیں۔ ان دونوں میں کوئی قدر مشترک نہیں جو انہیں ایک قوم کا درجہ دے سکے۔ واضح طور پر ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں ہندو اور مسلمان۔ علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد نے برطانیہ اور کانگریس کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا۔ ہندو پریس نے علامہ اقبال پر فرقہ واریت اور رجعت پسندی کا الزام لگایا اور تجویز کو ناقابل عمل قرار دیا۔ برطانوی پریس کے اداریئے بھی ہندو پریس کی مخالفانہ رپورٹنگ پر بازی لے گئے اور تجویز کو مجذوب کی بڑ قرار دیا۔دوسری جانب ہندو مسلم اختلافات زیادہ شدت اختیار کر گئے ،خونخوار فسادات نے بڑے پیمانے پر ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ ہزاروں بے گناہ مسلمان شہید اور بستیوں کی بستیاں جلا کر راکھ کر دی گئیں۔ یہ سلسلہ طویل عرصہ تک جاری رہا تو 1936ء میں حکومت ہند نے عام انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔1937ء کے انتخابات کے بعد صوبائی حکومتیں قائم ہوئیں تو کانگریس حکومتوں کے صوبوں میں مسلمانوں کے حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا۔ ہندی بطور سرکاری زبان رائج کر دی گئی اردو کو اردو کے گھر سے دیس نکالا مل گیا۔ مسلمانوں کی جائیدادوں پر غاصبانہ قبضے کر لئے گئے۔ انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا کر ان کے ملی وجود کو ختم کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔ صنعت تجارت اور سرکاری ملازمتوں کے دروازے مسلمانوں پر بند کر دیئے گئے۔ یہ تھا ان دگرگوں حالات کا سلسلہ جس کی وجہ سے 23 مارچ 1940ء کو قائداعظمؒ کی صدارت میں مسلم لیگ کا تاریخ ساز جلسہ لاہور کے منٹو پارک میں ہوا۔ اس جلسے میں ہندوستان کے طول و عرض سے مسلم قائدین نے شرکت کی۔ جلسے کے آخری سیشن میں تاریخی قرارداد پاکستان پاس کی گئی۔ بعد ازاں اسی جدوجہد کے نتیجے میں انگریز سرکار ہندوستان کی تقسیم پر مجبور ہوئی اور 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ ایک جانب اس ملک کو بنانے میں لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں نچھاور کیں ، ان کے پیش نظر ایسی اسلامی ریاست تھی جو مسلمانوں کو دنیا بھر میں عظیم قوم کے طور پر شناخت دینے کی قوت رکھتی ہو۔ آج ہم جن حالات کا سامنا کر رہے ہیں، ان میں وطن عزیز کو علم کے حصول ، تعلیم کی اہمیت سمجھنی ہوگی، حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم اپنے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم، تحقیقی جستجو کی جانب راغب کریں ، آج کا نوجوان جس مایوسی میں ڈوب چکا ہے، اسے اس دلدل سے نکالنے کیلئے علم کی لگن اور ٹیکنالوجی میں مہارت کا حصول ہی کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ کاش کے ہم محض روایتی سیاسی بحث سے نکل کر اس جانب بھی توجہ دیں کیونکہ تعلیم کے بغیر قومیں ترقی نہیں کر سکتیں، جتنی جلدی ہم علم کی اہمیت سمجھ جائیں گے، اتنی جلدی ہی ہم زوال سے نکلنے کا سفر شروع کر سکتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button