Column

گہرا مطالعہ

 

علیشبا بگٹی

مطالعہ کا سب سے مشکل حصہ اسے شروع کرنا ہے۔ ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ادب کا مطالعہ ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے۔ کیوں کہ خارج میں اس بات کا کوئی اطمینان بخش ثبوت نہیں ملتا۔ البتہ جو لوگ مطالعہ کرتے ہیں وہ دنیا اور کائنات کو دوسروں کے مقابلے میں الگ نظریے سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مطالعے کی ایک قسم ہے جسے Deep reading یا ’’ گہرا مطالعہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ’’ سطحی مطالعہ‘‘ superficial reading کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے۔ جس کا اطلاق عموماً انٹرنیٹ ، ویب سائٹس وغیرہ کے مطالعے پر کیا جاتا ہے۔ گہرے مطالعے کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے۔ اگر گہرے مطالعے کا رجحان ختم ہوجاتا ہے تو اس سے نہ صرف آن لائن نشوونما پانے والی ہماری نسلوں کا عقلی و جذباتی خسارہ ہوگا۔ بلکہ کتابوں کی خوشبو کا زمانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ لائبریری پھر آثار قدیمہ بن جائیں گے۔ ’’ گہرا مطالعہ‘‘ جو دھیرے دھیرے کتاب میں ڈوب کر کیا جاتا ہے اور جو محسوس تفصیلات اور اخلاقی و جذباتی اتار چڑھاؤ سے مالا مال ہوتا ہے۔ ایک منفرد تجربہ اور الفاظ کی ظاہری سمجھ سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ مطبوعہ صفحات میں فطری طورپر ایسی انفرادی صلاحیت ہوتی ہے جو گہرے مطالعے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہائپر لنک سے آزاد کتاب قاری کو فیصلہ سازی کے تذبذب سے بچاتی ہے کہ میں اس لنک پر کلک کروں یا نہ کروں؟ اور اسے پوری طرح مصنف کے بیانیے میں محو کر دیتی ہے۔ یہ محویت یا استغراق ایک ایسے طریقۂ کار سے مربوط ہے جس کے ذریعے انسان کا دماغ کتاب میں مذکور مختلف تفصیلات تلمیحات و استعارات سے مالامال زبان سے معاملہ کرتا ہے۔ جبکہ آن لائن مطالعے میں قاری کا انہماک کم سے کم ہوتا ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے بھی بہت زیادہ اطمینان بخش نہیں ہوتا۔ جو انٹرنیٹ کی دنیا سے کافی مانوس ہیں۔ گہرا مطالعہ کرنے والا انسان ذہنی انتشار سے محفوظ ہوتا ہے اور اگر ہم نے اپنے بچوں کو گہرے مطالعے کا عادی نہیں بنایا تو ہم انھیں ایک لطف انگیز و سرور بخش تجربے سے محروم رکھ کر دھوکے میں ڈالیں گے۔ ہم انھیں اس اعلیٰ اور روشنی بخش تجربے سے محروم کر دیں گے۔ شعر ہے۔
کاغذ کی یہ مہک ، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
الیکس ویکوسکی نے کہا۔ جو لوگ مطالعہ نہیں کرتے ان کے پاس سوچنے کے لیے بہت کم باتیں ہوتی ہیں۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ ’’ جب آدمی 10کتابیں پڑھتا ہے تو وہ 10ہزار میل کا سفر کر لیتا ہے‘‘۔ گورچ فوک کہتے ہیں ’’ اچھی کتابیں وہ نہیں جو ہماری بھوک کو ختم کر دیں۔ بلکہ اچھی کتابیں وہ ہیں جو ہماری بھوک بڑھائیں۔۔ زندگی کو جاننے کی بھوک ‘‘۔۔۔ ائولس گیلیوس کہتے ہیں’’ کتابیں خاموش استاد ہیں ‘‘۔۔۔ فرانس کافکا کا کہنا ہے ’’ ایک کمرہ بغیر کتاب کے ایسا ہی ہے جیسے ایک جسم بغیر روح کے ‘‘۔۔۔ گوئٹے نے کہا ’’ بہت سے لوگوں کو یہ بات نہیں معلوم ہے کہ مطالعہ سیکھنا کتنا مشکل اور وقت طلب کام ہے۔ میں نے اپنے 80سال لگا دئیے لیکن پھر بھی یہ نہیں کہہ سکتا ہوں کہ میں صحیح سمت کی جانب ہوں‘‘۔۔۔ گٹھولڈ لیسنگ نے کہا ’’ دنیا اکیلے کسی کو مکمل انسان نہیں بنا سکتی اگر مکمل انسان بننا ہے تو پھر اچھے مصنفین کی تصانیف پڑھنا ہونگی‘‘ ۔۔۔ نووالیس نے کہا ’’ کتابوں سے بھری ہوئی لائبریری ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہم ماضی اور حال کے دیوتائوں سے آزادی کے ساتھ گفتگو کر سکتے ہیں ‘‘۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں فی کس اوسطاً صرف 6روپے سالانہ کتاب کے لئے خرچ کیے جاتے ہیں۔ جوتے شو کیس میں دیکھے جاتے ہیں۔ کتابیں زمین پر پڑی نظر آتی ہیں۔ جس معاشرے میں کتابیں پڑھنے کا شوق نہ ہو وہ کبھی شعور حاصل نہیں کر سکتا۔ آپ کا مطالعہ اور مشاہدہ وسیع ہو آپ اخبارات کتابیں اور دنیا کے اچھے میگزین پڑھیں اچھے ٹی وی شو دیکھیں دنیا کے کامیاب بندوں پر ریسرچ کریں قابل اور مشہور بندوں کے لیکچر سنیں دینی اور دنیاوی معلومات رکھیں ۔ تب ہی آپ کا علمی تجربہ اور معلومات بڑھ سکتا ہے ۔ دُنیا میں جہالت اس لئے نہیں بڑھ رہی کہ دُنیا میں علم کی کمی ہے۔ دُنیا میں جہالت اس لیے ہے کہ لوگ اب گفتگو جیتنے کے لئے کرتے ہیں۔ کتابیں رعب جھاڑنے کے لیے پڑھنے لگے ہیں اور سوال خود کو عقلمند دکھانے کے لیے کرتے ہیں۔ دُنیا میں علم کی نہیں حقیقی طور پر علم حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی کمی ہے۔
مصطفیٰ زیدی کے اشعار ہیں کہ:
مجھ کو محصور کیا ہے مری آگاہی نے
میں نہ آفاق کا پابند، نہ دیواروں کا
میں نہ شبنم کا پرستار ، نہ انگاروں کا
اہل ایقان کا حامی نہ گنہگاروں کا
نہ خلائوں کا طالب گار ، نہ سیاروں کا
ایک مبہم سی صدا گنبد افلاک میں ہے
تار بے مایہ کسی دامن صد چاک میں ہے
ایک چھوٹی سی کرن مہر کے ادراک میں ہے
جاگ، اے روح کی عظمت کہ میری خاک میں ہے
اب لوگ کتابیں کم پڑھتے ہیں اور نیٹ پر دن رات مصروف رہتے ہیں۔ یہی وجہ اب کم کتب بینی کی وجہ سے کتابوں کے لکھاری بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔
پبلشر نے مصنف سے کتاب لکھوائی، معاوضہ دیا۔
کاغذ والے سے کاغذ خریدا، معاوضہ دیا۔
کمپوزر سے کمپوزنگ کرائی، معاوضہ دیا۔
پروف ریڈر سے پروف ریڈنگ کرائی، معاوضہ دیا۔
ڈیزائنر سے ڈیزائننگ کرائی، معاوضہ دیا۔
پرنٹر سے پرنٹ کرائی، معاوضہ دیا۔
بائنڈر سے بائنڈنگ کرائی، معاوضہ دیا۔
ڈسٹری بیوٹر سے تقسیم کرائی، کمیشن دیا۔
خریدار نے خریدی، اچھی لگی، سکین کی، پی ڈی ایف بنائی اور سوشل میڈیا پر ہزاروں لوگوں کو مفت میں بانٹ دی۔
پڑھنے والے نے مزے سے ڈائون لوڈ کرلی۔
ہزار روپے کا پیزا اور پانچ سو روپے کا برگر کھاتے ہوئے مفت میں پڑھ لی۔
پبلشر کو نقصان ہوا، اس نے مصنف کو معاوضہ دینا بند کر دیا۔
مصنف کو معاوضہ ملنا بند ہوا تو اس نے بھی لکھنا چھوڑ دیا اور کتاب مر گئی۔

جواب دیں

Back to top button