Column

’’ ہمت کا علم، موجوں پہ قدم ’ اللہ کا کرم ‘‘ پاک بحریہ کے روشن کارنامے

 

ابصار احمد

7 اگست 1947ء ایک تاریخ ساز دن جب قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ بطور بانی پاکستان دہلی سے پاکستان کی سرزمین پر پہنچے ۔ کراچی کے مسرور ہوائی اڈے پر قائدِ اعظمؒ کا جہاز اترا تو اُن کے استقبال کے لیے شفاف وردیوں میں ملبوس پاک بحریہ کے جوان بھی اُن کے استقبال کے لیے موجود تھے ۔ کموڈور(بعد ازاں ریئر ایڈمرل) حاجی محمد صدیق چودھری کے ہمراہ پاک بحریہ کا چاق و چوبند دستہ اپنے ہر دلعزیز قائد کو سلامی دینے کے لیے تیار تھا ۔ قائدِ اعظمؒ کو نیوی بینڈ کے ساتھ سلامی دی گئی ۔ پھر تاریخ وہ تاریخ ساز دن بھی دیکھتی ہے جب 15اگست 1947ء کی صبح کراچی کے پولو گرائونڈ میں قیامِ پاکستان کی پہلی سرکاری تقریب منعقد ہوتی ہے جس کا اہتمام بلدیہ کراچی کے ساتھ ساتھ پاک بحریہ نے بھی کیا تھا ۔ پاک بحریہ کے ہی جوانوں نے سیمنٹ کے بلاک کی مدد سے اسٹیج تیار کیا جس کے لیے کموڈور حاجی محمد صدیق چودھری مرحوم کے حکم پر پاک بحریہ کے جوان تین دن سے ہی تیاریوں میں مصروف تھے ۔ تقریب کے آغاز ہی میں پاک بحریہ کے جوانوں نے ہی سب سے پہلے قائدِ اعظمؒ کو سلامی دینے کا اعزاز حاصل کیا ۔ اسی تقریب میں پاک بحریہ کے نیوی بینڈ جس کی قیادت چیف پیٹی آفیسر عبداللہ سلطان کر رہے تھے ، نے سرکاری تقریب میں اسرار الحق مجاز کا تحریر کردہ نغمہ ’’ پاکستان زندہ باد آزادی پائندہ باد ‘‘ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کیا ۔ اس طرح پاکستان کی مختصر مگر اس اہم عسکری قوت نے قیامِ پاکستان کے آغاز ہی میں کئی منفرد اور ناقابلِ تسخیر اعزازت اپنے نام کرلیے ۔
بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ پاک بحریہ کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے اسی لیے انہوں نے 23جنوری 1948ء کو پی این ایس دلاور میں پاک بحریہ کے افسران سے خطاب کرتے ہوئی فرمایا تھا:’’ پاکستان مشکل حالات میں غیروں سے مدد کی توقع نہ رکھے، پاکستان کو تمام تر واقعات اور خطرات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ دنیا میں ہم کمزور اور دفاعی صلاحیتوں سے محروم ہوگئے تو دوسرے ممالک کو جارحیت کی دعوت دیں گے۔ امن قائم رکھنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ جو ہمیں کمزور سمجھتے ہیں اور اس بناء پر ہمیں دبا سکتے ہیں تو اُن کے دلوں سے یہ گمان نکال دیا جائے‘‘، اسی خطاب میں قائدِ اعظمؒ نے پاک بحریہ کے افسران سے اپنے یقین کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:’’ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے رویے اور طرزِ عمل سے پاکستان کو کبھی بھی جھکنے نہیں دیں گے اور دیگر عظیم قوموں کی طرح بہترین روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کی عزت و وقار کو بلند رکھیں گے ‘‘۔
قائدِ اعظم ؒ کے اس فرمان کو پاک بحریہ سے وابستہ ہر فرد نے دلوں پر نقش کرلیا اسی لیے پاکستان کی اس مختصر سی فوج نے بہت جلد قومی سطح پر کارنامے انجام دئیے۔ جنگی حالات کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح و بہبود میں بھی پاک بحریہ پیش پیش رہی۔ قیامِ پاکستان کے وقت پاک بحریہ کے افسران جن میں چیف پیٹی آفیسر ز بھی شامل تھے اُن کی تعداد محض 180تھی جبکہ اس کے پاس جدید دفاعی ساز و سان بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ کراچی میں قائم ایک تجارتی گودی میں پاک بحریہ کا عارضی ہیڈکوارٹر تیار کیا گیا جس میں اُس وقت کے سینئر ترین مسلمان اور پاکستانی افسر کموڈور حاجی صدیق چودھری نے اپنے عزمِ صمیم کے ذریعے افسروں اور جوانوں کا حوصلہ بلند رکھا ۔ یہ پاک بحریہ ہی تھی جس نے بھرتی کے لیے سب سے پہلے عوامی سطح پر کیمپ لگائے۔ کراچی کے علاقے میری ویدر ٹاور کے قریب ایک شامیانے میں بھردی سینٹر قائم کیا گیا جہاں پاک بحریہ کے افسران نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرکے انھیں پاک بحریہ میں شمولیت کی دعوت دیتے اس طرح جلد پاک بحریہ کی افرادی قوت میں بھی اضافہ ہونے لگا ۔
قیامِ پاکستان کے وقت دارالحکومت کراچی میں ریڈیو اسٹیشن موجود نہ تھا جس کی قومی سطح پر اشد ضرورت تھی ۔ اس مقصد کے لیے وزارت ِ اطلاعات و نشریات نے منظوری بھی دے دی تھی ۔ پاک بحریہ کی انتظامیہ کو جب ریڈیو اسٹیشن کے قیام کا علم ہوا تو اس ادارے نے قومی خدمت کے تحت فوراََ ہی اپنے شپ کا ٹرانسمیٹر پیش کردیا ۔ سو کلو واٹ کا طاقت ور ٹرانسمیٹر پاک بحریہ کے انجینئرز نے اپنے بحری جہاز پر نصب کرکے کراچی کے انٹیلی جنس اسکول کی دو کمروں پر مشتمل عمارت سے سگنل وصول کرنا شروع کیے اس طرح یکم اگست1948ء کو پاک بحریہ نے ریڈیو پاکستان کی نشریات کا آغاز کروایا، جس پر اگلے دن روزنامہ ڈان نے منفرد سرخی شائع کی:
Radio Pakistan in the air ، Pakistan Navy on the air
ریڈیو پاکستان کراچی کی اس نشریات کو سب سے پہلے پاک بحریہ کے آفیسر لیفٹیننٹ آصف علوی نے براڈکاسٹ کیا اس طرح لیفٹیننٹ آصف علوی پاک بحریہ کی جانب سے پہلے براڈکاسٹر بھی بنے ۔ 14اگست 1948ء کو ریڈیو پاکستان کراچی نے جب اپنی باقاعدہ نشریات کا آغاز کیا تو آصف علوی بدستور ریڈیو پاکستان سے پروگرام پیش کرتے رہے جس میں فوجی بھائیوں کا پروگرام اہم تھا اس کے علاوہ انھوں نے ’’ ہمارا پاکستان ‘‘ بھی پیش کیا جس میں وہ ہجرت کرکے آنے والے افراد کا تعارف کرواتے تاکہ جو لوگ ہجرت کے دوران بچھڑ چکے ہیں وہ اپنے پیاروں سے مل سکیں ۔پاکستان کا قومی ترانہ جس کی دھن 1949ء میں احمد جی چاگلا نے ترتیب دی تھی اس کی ریکارڈنگ کے لیے بھی پاک بحریہ کے نیول بینڈ کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ حفیظ جالندھری اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ قومی ترانے کی دھن مرتب کرنے کے بعد چاگلا صاحب روزانہ پاک بحریہ کے مرکزی دفتر جاتے تھے جہاں پاک بحریہ کا بینڈ اپنے پائپس پر اس کی دھن وضع کرتا اس طرح پاکستانی قومی ترانے کی دھن تیار ہوگئی جسے یکم مارچ1950ء کو سب سے پہلےشہنشاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کی آمد پر پاک بحریہ ہی کے بینڈ نے بجانے کا منفرد اعزاز بھی اپنے نام کرلیا ۔ اس بینڈ کی قیادت ماسٹر چیف پیٹی آفیسر عبداللہ سلطان کر رہے تھے جبکہ نگراں لیفٹیننٹ کمانڈر اکرم ممتاز تھے۔
قائدِ اعظم ؒ کی طرح شہیدِ ملت لیاقت علی خاںؒ بھی بحریہ کی اہمیت سے واقف تھے کیونکہ سندھ کا ساحل کاٹھیاواڑ اور جوناگڑھ سے ملتا ہے۔اسی لیے لیاقت علی خاں کے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں پاک بحریہ نے 1949ء پہلا او کلاس تباہ کن جہاز برطانیہ سے خریدا ۔ ابتداء میں پاک بحریہ کے پاس صرف دو جہاز پی این ایس ٹیپو سلطان اور پی این ایس طارق تھے جن کی مدد سے ڈیسٹرائر اسکواڈرن کا قیام عمل میں لایا گیا ۔
وطن ِ پاک کے دفاع میں پاک بحریہ اب ایک ناقابل تسخیر قوت بن چکی ہے جو سطحِ آب ’ زیرِ آب ’ فضاء اور زمین پر وطن ِ پاک کی حفاظت پر معمور ہے ۔ ابتداء میں پاک بحریہ کے پاس سامانِ حرب نہ ہونے کے برابر تھا لیکن بہت کم عرصے میں پاک بحریہ نے تباہ کن جہازوں سے اپنا بحری بیڑا مضبوط کرلیا ۔ جون1964ء کو برطانیہ سے ڈیابلو آبدوز خرید کر اسے ’’ پی این ایس غازی‘‘ کا نام دیا گیا تو بحیرہ عرب کے پانیوں پر پاک بحریہ کی دھاک بیٹھ چکی تھی لیکن اس کے باوجود پڑوسی ملک کی بحریہ چار گنا بڑی تھی جس نے 1962ء کی ہند چینی جنگ میں اپنی برتری ثابت کردی تھی اسی لیے 1965ء کی جنگ سے قبل ہی بھارت کو اپنی بحریہ پر بجا طور پر غرور تھا لیکن تاریخ نے وہ منظر بھی دیکھا جب 8ستمبر کی شب پاک بحریہ کے جہازوں نے بھارت کا مضبوط ترین راڈار اسٹیشن دوارکا تباہ کر ڈالا اور پاک بحریہ کے یہ تمام جہاز دشمن کو اُس کے ملک میں دھول چٹانے کے بعد صحیح سلامت واپس آگئے ۔ اس معرکے نے دنیا بھر میں پاک بحریہ کی جرات کی دھاک بیٹھ گئی کیونکہ یہ پاک بحریہ کی ہیبت ہی تھی کہ دشمن نے اپنا کیریئر آئی این ایس وکرانت جس پر اسے بے حد ناز تھا’ کھلے سمندر میں نہیں نکالا ۔
دسمبر 1971ء کی جنگ میں بھی پاک بحریہ نے شجاعتوں کے کارنامے انجام دیتے ہوئے 9دسمبر کو اپنی آبدوز پی این ایس ہنگور کے ذریعے بھارتی فریگیٹ آئی این ایس ککری کو غرقاب کر دیا ۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ کسی آبدوز نے بحری جہاز کو غرقاب کیا ہو ۔ اسی جنگ میں پاک بحریہ کی آبدوز پی این ایس غازی نے بھی بھارتی بندرگاہ اور بھری اڈے وشاکا پٹنم کا بھی محاصرہ کیے رکھا لیکن بدقسمی سے وہ اپنی ہی بچھائی گئی بارودی سرنگ کے ایک تارپیڈو سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں 92افراد کا مکمل عملہ شہید ہوگیا لیکن پی این ایس غازی کا خوف دشمن پر غالب رہا اسی لیے اُس نے سمندری سمت سے مشرقی پاکستان میں بھی دراندازی نہیں کی بلکہ پاک بحریہ نے اپنی تباہ کن بوٹ پی این ایس راج شاہی بھی مشرقی حصے سے صحیح سلامت مغربی پاکستان پہنچا دی ۔آج پاک بحریہ دفاع کے ہر شعبے میں وطن کی حفاظت پر معمور ہے ۔ 14اگست 1947میں مختصر سے عملے سے شروع ہونے والی پاک بحریہ کے پاس آج جدید فریگیٹس اور ڈیسٹرائر موجود ہیں جبکہ سمندری زون میں امن کا قیام اس کی اولین ترجیح ہے جس کے لیے ہر ایک سال بعد بین الاقوامی مشق ’’ امن‘‘ کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے جس میں ترقی یافتہ ممالک سمیت کئی ملکوں کی بحری قوتیں شرکت کرتی ہیں ۔ پاک بحریہ امن و امان کے ساتھ ساتھ علاقائی تعاون میں بھی اپنی خدمات انجام دے رہی ہے جس میں پاک چین اقتصادی راہداری کی حفاظت بھی اس کا اہم مقصد ہے جبکہ سمندر میں محفوظ مواصلاتی نظام بھی پاک بحریہ ہی کی مرہونِ منت ہے جس سے پاکستان کا سفر ایک روشن اقتصادی دور کی جانب گامزن ہے ۔

جواب دیں

Back to top button