خون ناحق
تحریر : علیشبا بگٹی
یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔ جب روئے زمین پر انسانی زندگی ابتدائی حالت میں تھی۔ اور حضرت حواء کے بطن سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے۔ ایک ساتھ پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کا نکاح دوسری مرتبہ پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کے ساتھ کر دیا جاتا تھا۔ ہابیل اور قابیل یہ دونوں حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ جب یہ جوان ہوئے تو دستور کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام نے قابیل کا نکاح غازہ کے ساتھ جو ہابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی کرنا چاہا تو قابیل اس بات پر رضامند نہیں ہوا کیونکہ اقلیما دراصل غازہ کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت تھی۔ جو قابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی۔ حضرت آدم علیہ السلام نے قابیل کو سمجھایا کہ یہ اللہ کا حکم ہے لہٰذا تم یہ بات مان لو۔ اقلیما تمہارے ساتھ پیدا ہوئی ہے۔ اس لئے وہ تیری بہن ہے۔ اس کے ساتھ تیرا نکاح نہیں ہوسکتا۔ مگر قابیل اپنی بات پر اڑا رہا۔ با لآخر حضرت آدم علیہ السلام نے ان دونوں بھائیوں کو حکم دیا۔ کہ تم دونوں اپنی اپنی قربانی اللہ کے حضور میں پیش کرو۔ جس کی قربانی مقبول ہوگی۔ وہی اقلیما سے نکاح کا حق دار ہوگا۔ اس زمانے میں قربانی کی مقبولیت کی علامت یہ تھی کہ لوگ اپنی قربانیاں پہاڑ پر رکھ دیتے تھے۔ اور آسمان سے آگ آکر انھیں کھا جاتی تھی۔ یعنی جلا کر ختم کر دیتی تھی۔ قابیل کھیتی باڑی کرتا تھا اور ہابیل جانور پالتا تھا۔ چنانچہ قابیل نے گندم کی بالیاں اور ہابیل نے ایک خوبصورت موٹا تازہ مینڈھا قربانی کے لئے ایک پہاڑ پر رکھ دیا۔ اور اللہ سے دعا مانگی یا الٰہی ہماری قربانی کو قبول فرما۔ آسمان سے آگ آئی اور اس نے ہابیل کی قربانی کو کھا لیا اور قابیل کی قربانی قبول نہیں ہوئی۔ جس سے قابیل کے دل میں ہابیل کے لئے غُصہ حسد اور بغض پیدا ہوگیا۔ اور وہ ہابیل سے کہنے لگا کہ میں تجھے مار ڈالوں گا۔ کیونکہ تیری قربانی قبول ہوگئی ہے۔ ہابیل نے قابیل سے کہا اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کی قربانی قبول کرتا ہے۔ اگر تو میرے قتل کے لئے مجھ پر ہاتھ اٹھائے گا۔ تو میں تجھ پر ہاتھ نہیں اٹھائوں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ قربانی دے کر دونوں بھائی حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئے۔ آدم علیہ السلام نے فرمایا۔ اے قابیل تیری بہن اقلیما اب ہابیل پر حلال ہوئی اور تجھ پر حرام۔ قابیل اب مایوس ہوچکا تھا کہ اقلیما اس کے نکاح میں نہیں آسکتی۔ اس لئے وہ ہابیل کو مارنے کی تدبیر میں رہنے لگا۔ اس دوران آدم علیہ السلام جب مکہ چلے گئے۔ تو ایک دن قابیل نے دیکھا کہ ہابیل سو رہا ہے۔ تو سوچنے لگا کہ اسے کس طرح سے ماروں کیونکہ اس زمانے تک کسی نے کسی کو نہیں مارا تھا۔ جب شیطان نے دیکھا کہ اسے قتل کرنے کا طریقہ نہیں آتا۔ تو اس نے ایک جانور پکڑا اور اس کا سر ایک پتھر پر رکھ کر دوسرا پتھر زور سے اس کے سر پر دے مارا۔ جس سے وہ جانور اسی وقت مر گیا۔ یہ ترکیب دیکھ کر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کے ساتھ یہ ہی کیا اور زمین پر سے ایک پتھر اٹھا کر ہابیل کے سر پر دے مارا۔ اور قابیل اپنے بے گناہ بھائی ہابیل کو قتل کر دیا۔ ہابیل کے قتل کے بعد قابیل یہ سوچ کر بے حد پریشان ہوا کہ اب اس لاش کا کیا کرے۔ یہ روئے زمین پر کسی انسان کا پہلا قتل تھا۔ کیونکہ اس سے پہلے کوئی آدمی مرا ہی نہیں تھا۔ اس لئے قابیل حیران و پریشان تھا کہ بھائی کی لاش کو کیا کروں۔ چنانچہ وہ کئی روز تک بھائی کی لاش کو اپنی پیٹھ پر لاد کر پھرتا رہا۔
شاعر کہتا ہے کہ
خون ناحق کہیں چھپتا ہے چھپائے سے امیر
کیوں مری لاش پر بیٹھے ہیں وہ دامن ڈالے
اللہ تعالیٰ کو اپنے اس نیک بندے کی لاش کی بے حرمتی منظور نہ تھی۔ چنانچہ اس جگہ پر دو کوّے آئے اور وہاں آکر آپس میں لڑے اور ایک نے دوسرے کو مار ڈالا۔ پھر زندہ کوّے نے اپنی چونچ اور پنجوں سے زمین میں گڑھا کھودا اور اس میں اس مرے ہوئے کوّے کو ڈال کر مٹی سے دبا دیا۔ کوّے کو دیکھ قابیل اپنے اوپر ملامت کرنے لگا کہ میں اس کوّے سے بھی گیا گزرا ہوں۔ کہ اتنا بھی نہ کر سکا۔ اس طرح قابیل کو معلوم ہوا۔ کہ ہابیل کی لاش کو زمین میں گڑھا کھود کر دفن کر دینا چاہئے۔ چنانچہ اس نے ایک گڑھا کھود کر اس میں اپنے بھائی ہابیل کی لاش کو دفن کر دیا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام مکّہ سے واپس آئے اور ہابیل کو نہ پایا تو اس کو بہت تلاش کیا۔ مگر وہ نہ ملا۔ حضرت آدم علیہ السلام نی ہابیل صدمے میں کھانا پینا اور سونا سب ترک کر دیا اور شب و روز ہابیل کے غم میں رہنے لگے۔ ایک روز آپ نے خواب کی حالت میں دیکھا کہ ہابیل الغیاث الغیاث، اے پدر، اے پدر پکار رہا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نیند سے چونک کر اٹھے اور زار زار رونے لگے۔ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کو ہابیل کی قبر پر لے گئے۔ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا نے قبر کھود کر ہابیل کو دیکھا۔ کہ اس کا مغز نکلا ہوا ہے اور وہ خون سے آلودہ ہے۔ یہ حال دیکھ کر آپ دونوں بہت روئے۔ اور ہابیل کی لاش کو ایک تابوت میں بند کرکے اپنے مکان میں لاکر دفن کر دیا۔ اس وقت آپ کے ایک سو بیس بیٹے تھے جن میں سے سوائے ہابیل کے کوئی نہیں مرا تھا۔
روایت ہے کہ جب ہابیل قتل ہوگئے تو سات دن تک زمین میں زلزلہ رہا۔ قابیل جو بہت خوبصورت تھا۔ بھائی کا خون بہاتے ہی اس کا چہرہ بالکل سیاہ اور بدصورت ہوگیا۔ آدم علیہ السلام نے قابیل کو اپنے دربار سے نکال دیا اور وہ یمن کی سر زمین عدن میں چلا گیا۔ وہاں ابلیس اس کے پاس آکر کہنے لگا کہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے اس لئے کھا لیا تھا کہ وہ آگ کی پوجا کرتا تھا لہٰذا تو بھی آگ کی پرستش کیا کر۔ چنانچہ قابیل پہلا شخص ہے جس نے آگ کی پرستش کی اور زمین پر یہ پہلا شخص ہے جس نے اللہ کی نافرمانی کی اور زمین پر خون ناحق کیا۔ یہ وہ پہلا مجرم ہے جو جہنم میں ڈالا جائے گا۔ حدیث میں ہے کہ زمین پر قیامت تک جو بھی خونِ ناحق ہوگا۔ اس کے عذاب کا ایک حصہ بوجھ اور گناہ قابیل پر بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کا طریقہ ایجاد کیا۔ شعر ہے کہ
نہیں موقوف دنیا ہی میں چرچا خون ناحق کا۔
سر محشر بھی قاتل کو پشیماں کر کے چھوڑوں گا۔
قابیل کا انجام یہ ہوا کہ اس کے ایک لڑکے نے جو کہ اندھا تھا۔ اس کو پتھر مار کر قتل کردیا۔ اور یہ آگ کی پرستش کرتے ہوئے گمراہی و شرک کی حالت میں اپنے لڑکے کے ہاتھ مارا گیا۔
کسی بے گناہ کو قتل کرنا یعنی خون ناحق بہت بڑا جرم ہے۔ قابیل نے غُصہ حسد اور بغض میں گرفتار ہو کر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا اس سے معلوم ہو ا کہ حسد غُصہ اور بغض انسان کے لئے کتنی بری اور خطرناک قلبی بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا : جو شخص کسی کو بلا وجہ مار ڈالے جبکہ اس نے نہ کسی کو قتل کیا تھا اور نہ زمین میں فساد پھیلایا تھا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا۔ اور جو شخص کسی بے قصور شخص کے قتل سے باز رہے گویا اس نے تما م لوگوں کو زندگی دی‘‘۔
ناحق خون بہانے کا عمل انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
قرآن مجید سورۃ المائدۃ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ جس نے کسی ایک شخص کو ناحق قتل کیا گویا اس نے تمام انسانیت کو قتل کر دیا‘‘۔
یہ آیت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ کسی بے گناہ کی جان لینا کتنی بڑی گناہ ہے۔ خون ناحق ایک ایسا مسئلہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ایک شعر ہے کہ
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
مگس شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ وہ باغ میں جا کے پھولوں سے رس چوستی ہے۔ کچھ رس موم میں بدل جاتا ہے۔ جس سے چھتہ بنایا جاتا ہے اور کچھ رس شہد میں بدل جاتا ہے۔ جب چھتہ توڑا جاتا ہے۔ تو شہد کو موم سے الگ کرلیا جاتا ہے۔ موم سے شمع بنتی ہے اور جب شمع جلتی ہے تو پروانہ لپکتا ہے۔ اور جل جاتا ہے۔ لہذا مکھی باغ میں نہیں جائے گی۔ تو رس نہیں چوسے گی۔ رس نہیں چوسے گی۔ تو چھتہ بھی نہیں بنے گا۔ چھتہ نہیں بنے گا۔ تو موم بھی نہیں بنے گی۔ موم نہیں بنے گا۔ تو شمع بھی نہیں بنے گی۔ شمع نہیں بنے گی تو جلے گی بھی نہیں۔ جلے گی نہیں۔ تو پروانہ نہیں لپکے گا اور پروانہ نہیں لپکے گا تو ناحق جلے گا بھی نہیں۔