دھرنے کا دھڑن تختہ
صفدر علی حیدری
’’ ظالمو قاضی آ رہا ہے‘‘ کچھ یاد آیا ۔ کچھ عرصہ قبل یہ نعرہ خاصا مقبول ہوا تھا۔ مگر پھر جب یہ نعرہ غیر مقبول ہوا تو حاسدوں نے اسے ’’ ظالمو قاضی نہا رہا ہے ‘‘ سے بدل دیا ۔ مقبول عام سیاسی نعروں میں یہ تبدیلی کوئی غیر معمولی بات نہیں ۔ زیادہ دور کیوں جائیں ، حالیہ تاریخ میں ’’ ووٹ کو عزت دو ‘‘ کا نعرہ’’ نوٹ کو عزت دو ‘‘ میں بدل گیا۔
دھرنوں کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں مگر یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کو اس میں کمال حاصل ہے۔ ویسے تو بعد میں قادری صاحب، کپتان کا، سعد رضوی اور مولانا فضل الرحمان کا دھرنا بھی مقبول ہوا مگر آج بات کرتے ہیں جماعت اسلامی کے نئے امیر حافظ نعیم الرحمان کے تازہ ترین دھرنے کی، جس کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے ۔
یہ دھرنا بجلی کے حوالے سے تھا۔ بجلی کے بلوں کے قوم کو ایسے جھٹکے دئیے ہیں کہ خدا کی پناہ ۔ مہنگی بجلی کا ذکر ہوا تو آئی پی پیز کا ’’ ذکر بد ‘‘ بھی ہوا۔ بتایا گیا کہ کس طرح ان پرائیویٹ اداروں نے قوم کا تیل نکالا بلکہ مہنگائی کے ہاتھوں تنگ عوام کو خون تک نچوڑ لیا گیا۔ آپ کو یاد ہو گا جب لوگ لوڈ شیڈنگ کا رونا روتے تھے تو حکومتی وزراء کہتے دکھائی دیتے تھے کہ بجلی کی قیمت بڑھانے دی جائے، آج ہی یہ مسئلہ حل ہو جائے گا اور پھر ہوا بھی وہی۔ ان بے رحم لوگوں کے بہی خواہ لوگوں نے بجلی کے نجی کارخانے لگائے اور راتوں رات ارب پتی ہو گئے۔ لکشمی ان پر یوں مہربان ہوئی کہ کم بجلی پیدا کر کے بھی ان کو پورا معاوضہ ملنے لگا۔ کئی ایک تو ایسے خوش نصیب بھی ہیں کہ جن کو بنا بجلی فراہم کیے معاہدے کے مطابق بڑی بڑی رقوم دی جا رہی ہیں۔ ( دروغ بر گردن راوی بلکہ دریائے راوی) بات ہو رہی تھی دھرنے کی جس کو ساری قوم کی حمایت حاصل تھی۔ حافظ صاحب کو سراہا جا رہا تھا کہ وہ سب کے ساتھ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کنٹینر کی سیاست دفن کر دی۔ میرے طرح کئی سادہ لوح دھرنے سے آس لگائے بیٹھے تھے کہ حافظ صاحب کچھ نہ کچھ لے کے ہی اٹھیں گے۔ اور کچھ نہ بھی ہوا تو دو تین ماہ کے بل تو ضرور معاف کروا کے آئیں گے مگر ۔۔۔
ایں خیال است و محال است جنون
سوشل میڈیا پر کئی لوگ انھیں فوج کی بی ٹیم بھی قرار دے رہے تھے کہ ان لوگوں سے قوم کے بپھرے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کا کام لیا جا رہا ہے۔ وہ دلیل کے طور پر کہتے پائے گئے کہ تحریک انصاف یا دیگر جماعتوں کے لوگوں کو تو جلسوں تک کی اجازت نہیں اور یہ لوگ دھرنے دئیے بیٹھے ہیں اور بآسانی آ جا رہے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر ایسے لوگوں کے رویے سے اختلاف تھا۔ میں خوش تھا کہ چلو کوئی تو نکلا۔ کسی نے تو ہمت کی ۔ کوئی تو ہے جس نے سیاسی مفاد کی بجائے عوام مفاد کی خاطر گھر بار چھوڑا اور اتنی زحمت کی۔ مجھے یہ بھی یقین تھا کہ حافظ صاحب جیسے کایاں آدمی ہو آسانی سے ٹالا نہیں جا سکتا۔ آخر وہ ن لیگ اور پی پی پی کی سیاست سے بخوبی واقف ہیں مگر ۔۔۔ افسوس ان کے حوالے سے میری مثبت سوچ خوش گمانی ثابت ہوئی ۔ میں واقعی غلط فہمی کا شکار تھا ۔ یعنی وہی ہوا جو ان کے بد خواہ پہلے سے کہہ رہے تھے۔ حکومت ایسے میں ’’ ویلے کو ٹھیلا ‘‘ دیتے ہوئے جھوٹے وعدے کرتی ہے اور لولی پاپ دے کر جان چھڑا لیتی ہے۔ افسوس ان کو تو لولی پاپ تک دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور یہ سب لوگ یوں آٹھ کر واپس ہو لیے جیسے انہی کے انتظار میں بیٹھے ہوں۔
سچی بات ہے جماعت کے نئے اور متحرک امیر سے مجھے اچھے کی امید تھی۔ کراچی میں ان کی کارکردگی نے میرے دل میں ان کے لیے نرم گوشہ پیدا کر دیا تھا۔ سراج الحق کی غلط پالیسیوں سے جو نقصان ہوا تھا ، مجھے امید تھی کہ حافظ صاحب اس کا نہ صرف ازالہ کریں گے بلکہ اپنی جماعت کا مورال بلند کریں گے اور ’’ صالحین ‘‘ کی جماعت کو عوامی جماعت بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ اور اس میں کامیاب بھی ہوں گے مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ جس کا مجھے ذاتی طور پر بڑا افسوس ہے۔ جماعت کی ساکھ کو بڑا دھچکا لگا ہے۔
اب ان کے مخالفین یہ کہہ رہے ہیں تو کچھ غلط نہیں کہہ رہے ’’ دھرنا کامیاب ، بجلی کی فی یونٹ قیمت میں مزید اضافہ ہو گیا ‘‘ اب اس پر اور کیا کہا جائے ۔ بس اسی بات کو کافی سمجھا جائے کہ دھرنے کے نتیجے میں ہم نے بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوتے دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ دھرنا شاید اسی مقصد کی لیے تھا۔
ویسے آپس کی بات ہے کتنا فرق ہے ہم اور اپنے بنگلہ دیشی بھائیوں میں۔ وہ حکومتیں الٹ دیں اور ہمارے حصے میں لولی پاپ بھی نہ آئے۔