پاکستان

فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے زمین مطلوب "حکومت اور فوج سے رحم کی اپیل

اسلام آباد کے سیکٹر ڈی 12سے تقریباً 45 منٹ کی مسافت پر مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے دامن میں موجود گاؤں کینتھلا کے رہائشی حکومت اور فوج سے ’رحم‘ کی اپیل کر رہے ہیں۔

اس اپیل کی وجہ گذشتہ ماہ پاکستانی فوج کی جانب سے تقریباً 3400 کنال سے زائد اراضی ان کے حوالے کرنے کے لیے لکھا گیا ایک خط ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے پاس موجود اس خط کی کاپی میں کہا گیا ہے کہ پاکستان آرمی کے حکام کو ضلع ہری پور کی تحصیل خان پور میں ’دفاعی مقاصد‘ کے لیے 3481 کنال اور 17 مرلہ زمین درکار ہے۔ تاہم ’دفاعی مقاصد‘ کی وضاحت نہیں کی گئی

یہ اراضی دو دیہات کینتھلا اور کوٹ جنداں میں واقع ہے اور ایبٹ آباد کنٹونمنٹ بورڈ کے ملٹری اسٹیٹ آفس کی جانب سے ہری پور کے ڈپٹی کمشنر کو لکھے گئے اس خط میں اس اراضی سے متعلق تفصیلات مانگی گئی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ملٹری اسٹیٹ آفس کے ایک اہلکار نے خط کی تصدیق کی اور کہا کہ انھیں فوج کی 10 کور سے خط موصول ہوا جس کی بنیاد پر ضلعی انتظامیہ سے مزید تفصیلات دینے کا کہا گیا ہے تاہم ابھی تک مقامی انتظامیہ کی جانب سے اس خط کا جواب موصول نہیں ہوا۔

متعلقہ حکام نے اس بارے میں برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ اس معاملے کو مخصوص سیاسی طاقتیں مقامی لینڈ مافیا اور ذاتی مفاد کی خاطر اچھال رہی ہیں حالانکہ تمام حکومتی ادارے ہر سال تعمیرات کے لیے آئین کے مطابق لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 کے تحت زمین حاصل کرتے ہیں جو صرف اشد ضرورت کے تحت ہی کی جاتی ہیں اور اس عمل کی جانچ پڑتال مختلف ادارے اور وزارتوں سمیت وزارت خزانہ بھی کرتی ہے۔
اسلام آباد کے علاقے شاہ اللہ دتہ کے قریب موجود کینتھلا گاؤں خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پورر کی حدود میں آتا ہے۔ یہاں کے رہائشی مطلوب احمد کہتے ہیں کہ فوج کو مطلوب زمین میں سے تقریباً 2500 کنال زمین ان کے گاؤں میں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کی زمین زرعی اراضی پر مشتمل ہے اور اس رقبے پر تقریباً 100 گھرانے بھی آباد ہیں۔

’ہم یہاں کئی سو برسوں سے رہ رہے ہیں۔ ماسوائے تین خاندانوں کے یہاں کی تمام آبادی کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔ یہ ہمارے آباواجداد کی زمینیں ہیں اور ہم انھیں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔‘

دوسری جانب کوٹ جنداں نامی گاؤں میں تقریباً 900 کنال زمین میں فوج نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔ یہ علاقہ اسلام آباد کے سیکٹر ڈی 12 کے قریب ہی واقع ہے اور نئی بننے والی ایران ایوینیو سے اس آبادی کو دیکھا جا سکتا ہے۔

اس گاؤں کے ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی اور کہا کہ علاقہ مکینوں کو ایسی کسی بھی بے دخلی پر شدید خدشات اور تحفظات ہیں۔

’ہم کسی ادارے سے لڑائی نہیں چاہتے۔ اگر فوج کو یا کسی ادارے کو ہماری زمین کی ضرورت ہے تو آپ لیں لیکن ہم حقِ ملکیت دینے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔‘

لیکن جب یہی سوال برطانوی نشریاتی ادارے نے ہری پور کے ڈپٹی کمشنر شوزب عباسی سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’لینڈ ایکویزیشن تو معمول کی کاروائی ہے، اس موضوع میں بی بی سی کی دلچسپی سمجھ سے باہر ہے‘۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ مقامی افراد کے تحفظات کو کیسے دور کیا جائے گا، تو انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں لینڈ ایکویزیشن کا قانون موجود ہے، سب اسی کی مطابق کریں گے۔‘

خیال رہے کہ یہ دونوں دیہات مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے قریب اور اسلام آباد میں واقع فوج کے ڈیفنس کمپلیکس سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر ہیں۔

شوزب عباسی نے علاقہ مکینوں کے بے دخلی اور انھیں معاوضے سے متعلق سوالات کا جواب دینے سے انکار کیا، اور کہا کہ ’اگر زمین لینا چھوڑ دیں تو عوام کے لیے سکول کالج تک نہیں بن پائیں گے۔ یہ کس کو پسند ہے کہ وہ اپنے آباؤاجداد کی زمین دے مگر پاکستان میں قوانین موجود ہیں جن کے تحت زمین لی جاتی ہے۔ دوسری صورت میں تو قبرستان کے لیے بھی جگہ نہ ملے۔‘

واضح رہے کہ پاکستان میں 134 سال پرانا انگریز دور کا لینڈ ایکویزیشن ایکٹ نافذ العمل ہے۔ اس قانون کے تحت حکومت پاکستان کے پاس اختیار ہے کہ وہ کوئی بھی زمین خرید سکتی ہے اور اس کی ملکیت حاصل کر سکتی ہے۔ملک کی مسلح افواج اور دیگر سرکاری اداروں کو حکومت اپنی ملکیتی زمین میں اراضی مستقل یا عارضی بنیادوں پر فراہم کرتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button