ColumnTajamul Hussain Hashmi

عوامی رد عمل کے رجحانات میں اضافہ

تجمل حسین ہاشمی
بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کوئی اکیلی رہنما نہیں بلکہ متعدد رہنما ملک چھوڑ کر بھاگے ہیں۔ گزشتہ روز عوامی دبائو کے آگے جھکتے ہوئے ملک سے افراتفری کی حالت میں ہمسایہ ملک انڈیا چلی گئیں اور ان کے مستقبل کے آگے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ رہنمائوں کو آسائشوں کے ساتھ ایسی صورتحال کا بھی سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ اقتدار میں رہ کر انسانیت کی خدمت آسان کام نہیں۔ کرسی کے چاروں طرف خوشامدیوں کی واہ واہ میں سب ٹھیک نظر آتا ہے۔ حالیہ تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کوئی حکومتی سربراہ عوامی احتجاج کے نتیجے میں ملک سے بھاگنے پر مجبور ہوا ہو بلکہ پانچ ایسے رہنما ملک چھوڑ کر بھاگے ہیں جن کی معاشی پالیسیاں اور اقتصادی صورتحال بھی قابل قدر تھیں، عوام نے ان کو اقتدار کی کرسی پر بٹھایا لیکن وقت کے ساتھ ان کی اپوزیشن کیلئے تاریخی سختیاں نظر آئیں۔ بنگلہ دیش کی رہنما خالدہ ضیا زندہ مثال ہے۔ ان پانچ ملکوں کے رہنما گوٹابایا راجاپکسا ( سری لنکا)، ایوو مورالس (بولیویا)، بلیز کومپاورے (برکینا فاسو)، زین العابدین بن علی (تیونس) اور محمد رضا پہلوی (ایران) اپنا اقتدار چھوڑ کر ملک سے چلے گئے۔ پانچوں حکمرانوں کے طرز حکمرانی سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے غربت میں کمی کیلئے اقدامات کئے۔ اقدامات کے باوجود ان کو عوامی احتجاج کا سامنا رہا جس کے نتیجے میں اپنے ہی ملک کو چھوڑنا پڑا۔ باقی ماندہ زندگی دوسرے ممالک کے مرہون منت رہی لیکن شیخ حسینہ کیلئے بیرونی دنیا نے اپنے دروازے بند کر دیئے ہیں۔ حکمرانی کا چیپٹر ان کیلئے مستقل بند نظر آتا ہے۔ ان حکمرانوں کے ادوار کا مطالعہ کریں تو مندرجہ زیل خامیاں مشترک تھیں، جن کی وجہ سے ان کو ملک بدر ہونا پڑا۔ ان میں پہلی اور مشترکہ خامی ان کی آمرانہ سوچ تھی جس سے عوام تنگ تھے۔ دوسری خامی اقتدار سے کئی سال جڑے رہنا۔ اپنے اتحادیوں اور رشتہ داروں کو سرکاری فنڈز سے نوازا جاتا رہا۔ ان کی طرف سے میڈیا پر بجا پابندیاں لگتی رہیں جن کی وجہ سے نامی گرامی حکمرانوں کو عوام کے طوفان کے آگے خود کو سرنڈر کرکی ملک چھوڑنا پڑا۔ باقی اقتصادی اصلاحات اور معاشی صورتحال ماسوائے سری لنکا کے چاروں ممالک میں حالات بہتر تھے۔ تیونس میں 2010کے اواخر میں ایک نوجوان سبزی فروش کی خودسوزی نے ملک بھر میں احتجاج کی لہر کو جنم دیا۔ یہ واقعہ عرب سپرنگ کے نام سے مشہور ہے۔ بنگلہ دیشی سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے ملازمتوں میں آزادی کیلئے لڑنے والوں کی اگلی نسل کیلئے کوٹہ سسٹم کی مخالفت کرنے والوں کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا ہے۔ اس کوٹہ سسٹم کیخلاف یونیورسٹیوں کے طلبہ کا احتجاج عوامی احتجاج کی شکل میں بدل گیا جو حکومت کے خاتمہ کا سبب بنا۔ نارمل بنگلہ دیش کی معاشی صورتحال بہتر تھی لیکن اپوزیشن پر بھی مظالم کی انتہا تھی۔ حکومت کیخلاف عوامی ردعمل یقینی تھا۔ ایسے ردعمل کو روکنے کیلئے ریاست کے پاس صرف ایک راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ عوام سے معافی مانگیں اور اقتدار سے الگ ہو جائیں۔ بظاہر اقتدار سے الگ ہونا حکمرانوں کیلئے اتنا آسان نہیں ہوتا۔ جلا وطنی کو ظلم سمجھنے والوں کو ان رہنمائوں سے سبق سیکھنا چاہئے جو عوام کے ہاتھوں بھگوڑے بنے۔ مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک کی بنیاد کلمہ ہے اور یہ واحد ریاست ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی۔ ہمارے حکمرانوں کو ایسا طرز حکمرانی اختیار کرنا ہوگا جس کی بنیاد اسلامی ہو۔ دنیا کے سارے نظام سودی ہیں، جو فنا ہوں گے۔ سود تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اسلام میں سود حرام ہے۔ بابا جی کہتے ہیں کہ طاقت کسی بھی شکل میں ہو، اس کا رنگ انسان پر بہت جلدی چڑھتا ہے، پھر وہ فرعونیت سے جوڑتا ہے، فرعونیت سے بچائو کیلئے حضورؐ کی زندگی مشعل راہ ہے۔ تمام اسلامی ممالک میں اس وقت فرعونیت عام ہے۔ حق و انصاف کہیں نظر نہیں آرہا۔ سب مال اکٹھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں، نسلوں کی بادشاہت کیلئے متحرک ہیں۔ عوام مہنگائی، لاقانونیت کے آگے بے بس ہوچکے ہیں۔ حکمران طبقہ طاقتور کو مزید طاقتور بنا رہا ہے۔ وہ اپنی پالیسیوں سے اس ناسور کو مضبوط کر رہا ہے۔ ان کو خوف ہے کہ طاقتور کی ناراضی ان کا تاج چھین لے گی۔ اقتدار کے جانے کا خوف ظالم قوتوں کی آبیاری کرتا ہے۔ انہی وجوہات سے عوامی احتجاج کے رجحانات میں اضافہ ہورہا ہے جو کہ مزید تیز ہوتا نظر آ رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button