Column

پاکستان میں تحقیق زوال پذیر کیوں؟

آصف علی درانی
ریسرچ کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو ریسرچ کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اگر کسی بھی ملک کے اندر اچھے ریسرچرز موجود ہو تو اس ملک کے اندر ترقی کی راہ کو کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ اب اسی طرح سے اگر پاکستان میں ریسرچ کے حوالے سے بات کی جائے تو پاکستان میں ریسرچ کا انتہائی ایک ناقص نظام چل پڑا ہے بلکہ آج سے نہیں کئی صدیوں سے اس طرح کا نظام چلا آ رہا ہے۔ اس حوالے سے مزید جب ہم نے پشاور کی ایک نجی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت اور ابلاغ عامہ کے لیکچرر امجد خان سے بات چیت کی تو انہوں نے بہت تفصیل کے ساتھ ریسرچ کے حوالے سے بتایا۔ امجد خان کے کہنے کے مطابق ریسرچ یعنی تحقیق اس کو کہتے ہیں کہ آپ ایک سوال سے شروع کرتے ہیں اور پھر اس کو سوال پر ختم کرتے ہیں، یعنی ریسرچ ایک منظم عمل ہے جو ایک سوال سے شروع ہوتا ہے اور اسی سوال کے حل یا تفہیم کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ریسرچ کی ابتدائی مرحلے میں آپ ایک خاص سوال یا مسئلہ منتخب کرتے ہیں، جو تحقیق کا بنیادی محور ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ مختلف ذرائع سے معلومات اکٹھی کرتے ہیں۔ اس کا تجزیہ کرتے ہیں تاکہ سوال کے تمام پہلوئوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا جا سکے۔ تجزیہ کے دوران مختلف تھیوریز اور ماڈلز کو مدنظر رکھتے ہیں تاکہ سوال کا جامع اور منطقی جواب تلاش کیا جا سکے۔ ریسرچ کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ اپنے نتائج کو واضح اور مفصل انداز میں پیش کرتے ہیں، جو آپ کے ابتدائی سوال کا جواب فراہم کرتے ہیں یا اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ اس عمل کا مقصد صرف سوال کا جواب دینا نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ نئے سوالات کو جنم دے کر علم کے میدان کو وسعت دی جائے۔ تحقیق ہر جواب سے نئے سوالات کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
آج کل پاکستان میں جتنی بھی درسگاہیں ہیں، ان میں اچھی ریسرچ یعنی تحقیق کا فقدان ہے۔ دنیا میں ریسرچ آہستہ آہستہ دن بدن ترقی کرتی چلی جا رہی ہے۔ ہمارے ہاں جو ریسرچ ہو رہی ہے اس کا معیار نہیں ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ یہاں پر ریسرچ کے فقدان کی ایک بڑی وجہ فنڈنگ نہ ہونا ہے کیونکہ باہر ممالک میں جب طالب علم کسی موضوع پر ریسرچ کرتا ہے تو وہاں کی یونیورسٹیز اس کو خصوصی فنڈز دیتی ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ نہ ہونے کے برابر ہے، طالب علم خود اپنے موضوع پر ریسرچ بھی کرے گا اور اپنی جیب سے پیسے بھی خرچ کرے گا تو پھر اکثر طالب علم اس طرح کے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں جس پر پہلے سے کام ہوا ہوتا ہے، اس سے پہلے اس موضوع پر تحقیق ہو چکی ہوتی ہے۔ اس موضوع سے وہ مواد کاپی کرتے ہیں اور پھر اسی مواد کو وہ اپنی ریسرچ کے لیے استعمال کرتے ہیں، یعنی اپنی طرف سے کوئی بھی تخلیقی ریسرچ سامنے نہیں آتی۔ تو اس سے کیا ہوتا ہے کہ اس طالب علم کو سرے سے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے، اصل میں صحیح ریسرچ ہے کہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب فنڈنگ نہیں ہوگی تو پھر صحیح طریقے سے ریسرچ بھی نہیں ہوگی۔ امجد خان نے بتایا ریسرچ کی دو اقسام ہیں ایک کو کوالیٹیٹو ریسرچ کہتے ہیں، دوسری کو کوانٹیٹیٹو ریسرچ کہتے ہیں۔
تمام تر دنیا پر اگر نظر دوڑائی جائے تو وہ زیادہ تر توجہ کوانٹیٹیٹو ریسرچ پر دیتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں زیادہ تر توجہ کوالیٹیٹو ریسرچ پر دی جاتی ہے۔ کیونکہ یہاں زیادہ تر سٹوڈنٹس کے لیے یہ چیز بہت آسان ہوتی ہے کہ جا کے کسی بھی انہوں نے انٹرویو کیا اور آ کے اس کو ٹائپ کیا اور ان کا کام ہو گیا۔ کوالیٹیٹو ریسرچ میں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی جتنا کہ لوگ کوانٹیٹیٹو میں کرتے ہیں، تو یہی وجہ ہے کہ ہم اس ریسرچ کو تو عام کر گئے ہیں لیکن دوسری طرف اگر ہم کوانٹیٹیٹو کو دیکھتے ہیں تو اس میں ہم بالکل زیرو ہیں۔
تحقیق کی جو دوسری قسم ہے کوانٹیٹیٹو ریسرچ پوری دنیا میں رائج الوقت ہے اور اس کے بہت سی فائدے ہیں، کیونکہ ہم اس میں ڈیٹا کے ساتھ کھیلتے ہیں، سٹیٹسٹیکل ڈیٹا ہمارے ساتھ ہوتا ہے، باہر ممالک میں اس کا بہت زیادہ سکوپ ہے۔ کوانٹیٹیٹو ریسرچ بہت ہی کم وقت میں مکمل ہو سکتی ہے، متعدد سافٹ ویئر ہیں جو ڈیٹا انالیسزز کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں پر جو ہمارے لیکچررز یا پروفیسر صاحبان ہیں ان میں زیادہ تر کو نہ تو ان سافٹ ویئرز کا پتہ ہے اور نہ خود ان کو اس سٹیٹسٹکس کا پتہ ہے اور نہ میتھمیٹکس کا پتہ ہے۔ تو اس وجہ سے جو ہمارے نتائج ہیں وہ اس طریقے سے ہمارے پاس نہیں آتے اور طالب علم زیادہ تر کوالیٹیٹو ریسرچ پر ہی فوکس کرتے ہیں۔ یہاں بڑی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اکثر طالب علموں کا اگر آپ بیک گرائونڈ دیکھ لیں تو ان کو سکول یا کالج لیول میں اس چیز کو نہیں سکھایا جاتا تو جب وہ اس لیول پر آتے ہیں تو متعدد ایسے ہوتے ہیں جو تذبذب کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ چیزیں ان کے لیے نئی ہوتی ہیں اور وہ صحیح طریقے سے نہیں سمجھ پا رہے ہوتے اور اس سے پھر یہی ہوتا ہے کہ نہ تو وہ صحیح طریقے سے انٹروڈکشن کے متعلق لکھ سکتے ہیں نہ لٹریچر رویو کے متعلق۔ وجہ یہی ہے کہ یونیورسٹیز کے اندر جو طریقہ کار ہے پڑھانے کا وہ بھی اس طرح سے ہے کہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ بچہ پہلی مرتبہ وہ اس تحقیق سے نبردآزما ہو رہا ہے تو اس کے لیول پر آ کے بات کی جائے، تو یہی ہوتا ہے کہ استاد تو پڑھا رہے ہوتے ہیں لیکن طالب علموں کو ان چیزوں کی سمجھ نہیں آتی، یہ ایک طرح سے گیپ آ جاتا ہے کہ طالب علم ریسرچ کو صحیح طریقے سے نہیں کر سکتا۔ ریسرچ میں لیکچرر یا پروفیسر باقاعدہ کلاس کے اندر ایک ریسرچ تھیسز لے کر آئے اور اس میں سے پریکٹیکل کرا کے دے، یعنی کہ ہر طالب علم کو کہے کہ وہ ایک موضوع اپنے لیے چنے اور پھر ہر طالب علم کو بتائیں کہ اس موضوع پر آگے جا کے کس طرح سے کام کیا جائے گا، جب اس طرح سے طالب علم کو ریسرچ کے اندر اپنے ساتھ شامل کریں گے تو پھر وہ صحیح معنوں میں تحقیق کو سمجھ پائے گا، وگرنہ یہ طالب علم وہ ریسرچ تو کر لے گا لیکن صحیح معنوں میں حقیقی ریسرچ نہیں ہوگی۔ امجد نے مزید بتایا کہ پاکستان کے اندر جتنی بھی یونیورسٹیز ہیں ان کے اندر اساتذہ بچوں کے ساتھ اس طرح سے کوپریٹ نہیں کر پا رہے ہوتے بچہ بیچارہ آتا ہے اپنی طرف سے وہ لگا رہتا ہے اور سارے لوازمات پوری کر دیتا ہے اور جب ریسرچ استاد کے سامنے رکھتا ہے تو استاد اس میں سے اِدھر اُدھر کی غلطیاں نکال کر اس کو واپس کر دیتا ہیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طالب علم کو بٹھائیں اور طالب علم سے جہاں جہاں پر غلطی ہوئی ہے اس کو وہ غلطیاں نہ صرف بتائیں بلکہ ان کو کس طرح سے حل کرنا ہے وہ بھی بتانا ضروری ہے۔
اساتذہ کو چاہیے کہ دوران ریسرچ وہ استاد اور شاگرد کا کنسپٹ بیچ میں سے نکال دے کیونکہ جب استاد اور شاگرد کے درمیان ایک لائن لگی ہوئی ہوگی تو پھر نہ تو طالب علم اس طریقے سے سوال کرے گا نہ طالب علم اس طریقے سے ریسرچ ایڈوائزر کے ساتھ آگے جائے گا۔ ایک دوستانہ ماحول میں اس چیز کو آگے لے کر چلیں۔ ریسرچ کے لیے دوستانہ ماحول کا ہونا بہت ہی زیادہ لازمی ہے، اگر ایسا ماحول آپ تخلیق نہیں کریں گے تو پھر بہتر ریسرچ کبھی بھی ممکن نہیں ہو پائے گی۔ انہوں نے مزید بتایا پاکستان میں جس طرح کی ریسرچ یا تحقیق ہو رہی ہے ان ریسرچ سے کوئی فائدہ دیکھنے کو نہیں مل رہا حالانکہ اگر باہر ممالک میں دیکھا جائے تو وہ ریسرچ میں بہت زیادہ آگے جا چکے ہیں لیکن ہم زوال کی جانب جا رہے ہیں۔
یہاں پر جو لوگ اچھی اور معیاری ریسرچ کر لیتے ہیں تو اس کا پھر کوئی فائدہ اس لیے بھی نہیں ہوگا کیونکہ یہاں پر معیاری ریسرچ کے بعد بھی جب آپ ریکمنڈیشنز دیتے ہیں تو ان پر کوئی بھی عمل نہیں ہوتا، نہ حکومت کی طرف سے ہوتا ہے، تمام تر محنت رائیگاں چلی جاتی ہے۔ امجد خان نے بتایا اگر ہم ترقی یافتہ ممالک میں دیکھ لیں تو اس میں جب کوئی بھی ریسرچ ہوتی ہے تو وہاں پر حکومت ان کو سراہتی ہے اور جو پالیسی میکرز ہیں وہ اس ریسرچ کو خود دیکھتے ہیں اور اسی ریسرچ کو مدنظر رکھ کر آئندہ پالیسیاں بناتے ہیں۔
اگر یہ دونوں ساتھ نہیں دیں گی تو پھر طالب علم کتنی ہی معیاری ریسرچ کیوں نہ کریں سب بے کار ہوگا کیونکہ یہاں سراہنے والا کوئی نہیں، اس کام کو پڑھنے والا کوئی نہیں اور اس پر عمل کرنے والا کوئی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ہم نے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہے تو ریسرچ یعنی تحقیق کو عام کرنا ہوگا اور تحقیق کے ساتھ ساتھ طالب علموں کو اس طرح کے مواقع فراہم کرنے ہوں گے کہ طالب علموں پر مالی بوجھ نہ پڑے بلکہ یونیورسٹیز مالی معاونت کریں۔ جب ریسرچ ہو جائے تو اس ریسرچ کو حکومت اور انتظامیہ دیکھے اور اس کو مدنظر رکھ کر اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے پالیسیاں بنائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button