CM RizwanColumn

برطانیہ مظاہرے اور ہمارے خوارج

سی ایم رضوان
کبھی سنا نہیں تھا مگر یہ بھی سننا پڑ گیا ہے کہ گزشتہ روز برطانوی شہر سائوتھ پورٹ میں تین بچیوں کے قتل کے بعد ملک کے متعدد شہروں اور قصبوں میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروہوں کے پُرتشدد احتجاجی مظاہروں میں درجنوں پولیس اہلکار زخمی جبکہ 150کے قریب افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ سردست فیک نیوز اور پروپیگنڈے کی شدت سے پیدا ہونے والے اس خلفشار کی وجہ وہ ویڈیوز قرار دی جا سکتی ہیں جن میں تشدد اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار دکھایا گیا ہے تاہم سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی پُرتشدد مظاہروں کی ان فوٹیجز میں سے کچھ ایسی تصاویر بھی ہیں جنہیں دیکھ اور سن کر انسانیت پر اعتبار ترو تازہ ہو جاتا ہے کیونکہ ان تصاویر میں برطانیہ کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک عبداللہ قلیئم نامی مسجد کے سامنے کی ہے جس میں مسلمان اور مظاہرین ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ برطانیہ کے شہر لیورپول میں واقع اس مسجد کے سامنے بھی بڑی تعداد میں مظاہرین احتجاج کر رہے تھے۔ تاہم مسلمانوں اور ان کے حامیوں کی جانب سے بھی جوابی مظاہرے ہوئے۔ اس کے بعد پولیس کے ساتھ مل کر مسجد کے کچھ رضاکاروں نے مظاہرین سے بات چیت کی۔ مسجد کے چیئرمین ڈاکٹر عبدالحمید کا ماننا ہے کہ مظاہرے اس لئے ہو رہے ہیں کیونکہ لوگوں کے پاس صحیح معلومات نہیں ہیں اور انہیں ’ انجان چیزوں سے ڈر لگتا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ اگر لوگوں کو ان کے سوالوں کے جواب نہیں ملیں گے تو وہ آپ پر الزام لگانے کی کوئی بھی وجہ ڈھونڈ سکتے ہیں۔ جن رضاکاروں نے مظاہرین سے بات کی ان میں ایڈم کیلوک نامی ایک برطانوی شہری شامل تھے۔ جنہوں نے سال 1999میں اسلام قبول کیا تھا۔ ایڈم کیلوک پچھلی ایک دہائی سے مسجد کے ’ اوپن فورمز‘ کے ذریعے لوگوں سے ’ گرومِنگ گینگز‘ کے بارے میں بات چیت کرتے رہے ہیں تاکہ ایسے گروہوں کے بارے میں آگاہی پھیلائی جا سکے اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کو کم کیا جا سکے۔ ایڈم کیلوک نے بتایا کہ لوگ مسلمانوں سے کسی خاص وجہ سے غصہ نہیں تھے بلکہ یہ مسلمانوں کے خلاف ایک عام منفی تاثر کی بنا پر مظاہرہ کر رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے جتنے لوگوں سے بات کی ان میں سے کسی نے بھی سائوتھ پورٹ کا نام نہیں لیا۔ مجھے نہیں لگتا کہ انہیں معلوم تھا کہ وہ کس وجہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں وہ بس تنگ آئے ہوئے تھے۔ میری ان سے بہت اچھی بات چیت ہوئی جبکہ مسجد سے منسلک رضاکاروں نے مظاہرین کے ساتھ بہت گہری اور معنی خیز گفتگو کی اور ان کے خدشات کو سنا۔ ان تبصروں کے بعد کھانا کھانے، گلے ملنے اور ہاتھ ملانے والی تصاویر سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں شیئر کی گئیں۔ جب مظاہرین چلے گئے تو ان میں سب سے زیادہ شور مچانے والے مظاہرین نے مسجد کا دورہ بھی کیا۔ مسجد کے چیئرمین ڈاکٹر حمید جو لیورپول میں بطور جنرل فزیشن کام کرتے ہیں نے کہا کہ انتہائی دایاں بازو بہت پھیلا ہوا ہے۔ اس میں انتہا پسند بھی شامل ہیں اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں صرف کچھ چیزوں سے مسئلہ ہے، خواہ وہ ذاتی مسائل ہوں یا سیاسی انہیں بس اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع چاہیے۔ اگر ان لوگوں کو کوئی پلیٹ فارم نہیں دیا جائے گا تو ظاہر ہے وہ سڑکوں پر نکلیں گے۔ ادھر ایڈم کیلوک نے بتایا کہ جب بھی وہ لوگوں سے ان کے خدشات کے بارے میں بات کرتے ہیں اور آگاہی فراہم کرتے ہیں تو اس گفتگو کے بعد لوگ اچھا محسوس کرتے ہیں۔ جب بھی ہم نے ایسی تقریب رکھی ہے، لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا ہے، کچھ لوگ چیختے چلاتے بھی ہیں۔ تاہم کچھ وقت گزرنے کے بعد لوگوں میں تحمل پیدا ہو جاتا ہے۔ مثال دیتے ہوئے انہوں نے ایک ایسے آدمی کے بارے میں بتایا جسے انہوں نے تقریب کے بعد کھانے کی دعوت دی تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ کبھی کوئی اس کے ساتھ خلوص سے پیش نہیں آیا جبکہ ہم نے تو اسے صرف ایک کباب کھلایا تھا۔
لیورپول ریجن موسق نیٹ ورک نامی مسلمانوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم سے منسلک ابراہیم سید کا کہنا ہے کہ کچھ گروہوں سے بات چیت کر کے حوصلہ بڑھتا ہے۔ تاہم انتہا پسند اسلامی گروہوں کی طرح انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں پر بھی پابندی لگنی چاہیے۔ جھڑپوں کے بعد برطانوی وزیر اعظم سر کیئر سٹامر کی مذہبی رہنمائوں سے ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ابراہیم سید نے بتایا کہ یہ بحث چل رہی ہے کہ پولیس کو پرتشدد واقعات روکنے کی اجازت ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ اشتعال انگیز اور نفرت پھیلانے والے الفاظ کے استعمال اور لوگوں میں تقسیم ڈالنے والوں کو بھی قابو میں لانا ہوگا۔ اس استدلال کی تائید وزیر اعظم کیئر اسٹامر نے اپنے ایک بیان میں یوں دی ہے کہ فتنہ پھیلانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ مسجد کے چیئرمین ڈاکٹر عبدالحمید کے مطابق مظاہرین کی مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تصاویر کو سوشل میڈیا پر دیکھ کر شاید منفی نظریات میں کمی آئے۔ کچھ لوگ شاید اس طرح کی اشتعال انگیزی دوبارہ کرنے سے پہلے اس کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوں۔ ہم ہر کسی کی سوچ کو تو نہیں بدل سکتے تاہم ہم اچھائی کو آگ کی طرح ضرور پھیلا سکتے ہیں۔ ایڈم کیلوک کہتے ہیں کہ مسجد کی کاوشوں کو کچھ ناقدین نے مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سب سوشل میڈیا کے لئے دکھاوا ہے حالانکہ ان لوگوں کو مقصد سمجھ نہیں آ رہا۔ ہاں ہم واقعی یہ سب مشہوری کے لئے کر رہے ہیں کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا امن اور اتحاد کا پیغام دور دور تک پہنچے۔
یہ تو ہے برطانوی مظاہروں کا احوال۔ ان مظاہروں کو عالمی میڈیا میں شہرت اس وجہ سے ملی ہے کہ برطانیہ جیسے قانون پر عملدرآمد کرنے والے ملک میں اس نوعیت کے مسائل اچانک کیوں کھڑے ہوئے۔ بہرحال امید ہے کہ برطانیہ کے باشعور شہری اور پرعزم حکومت مل کر خارجی مسلم آبادیوں کو کچھ محبت اور کچھ امداد دے کر حالات اور منافرت پر قابو پا لیں گے مگر ادھر پاکستان جیسی بے یقینی کی سرزمین کا کیا ہو گا جس کی حکومت نے تمام وزارتوں اور سرکاری محکموں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے لئے ’ فتنہ الخوارج‘ جیسے الفاظ کا استعمال کریں۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے ایک تازہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ حکومت نے حال ہی میں ایک اہم مراسلے کے ذریعے ٹی ٹی پی کو ’ فتنہ الخوارج‘ کے نام سے نوٹیفائی کیا ہے، جس کے بعد اس دہشتگرد تنظیم کو اسی نام سے لکھا اور پکارا جائے گا کیونکہ ’ یہ ایک فتنہ ہے اور اس کا دین اسلام اور پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے‘۔ حکومت کی جانب سے گزشتہ ہفتے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں پاکستان کی وزارت داخلہ نے تمام سرکاری محکموں کو یہ بھی احکامات دیئے کہ تمام سرکاری دستاویزات میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں سے منسلک افراد کے لئے ’ مفتی یا حافظ‘ جیسے القابات نہیں استعمال کیے جائیں بلکہ ان کے ناموں سے پہلے لفظ ’ خوارج‘ کا استعمال کیا جائے۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق ’ اس تبدیلی کا مقصد اس تنظیم ( ٹی ٹی پی) کی اصل فطرت اور نظریات کی عکاسی کرنا ہے‘۔ یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ سرکاری سطح پر ان الفاظ کے استعمال سے پاکستان کو شدت پسندی کے خلاف جنگ اور ٹی ٹی پی کے خلاف جاری لڑائی میں کیا مدد مل سکتی ہے جواب اس کا یہ ہے کہ اگر اس فتنہ کے خاتمے کے لئے پاک فوج کی مدد کی جائے تو مثبت نتائج حاصل ہو سکتے ہیں لیکن اگر دیگر مخفی مفادات کے حصول کے لئے اس معاملے پر بھی تنقید کے تیر چلائے گئے تو انجام اچھا نہ ہو گا۔ یاد رہے کہ خوارج اسلام کے پہلے فتنہ پرور فرقے کے پیروکار تھے، جن کا مسلمانوں کی سیاسی تاریخ میں کردار یہ ہے کہ انہوں نے متواتر بغاوتیں کیں۔ خوارج کی ابتدا دورِ نبویؐ ہی میں ہو گئی تھی۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے مطابق خوارج کا جد امجد ذوالخویصرہ تمیمی تھا، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ گستاخی سے پیش آیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے سخت وعید فرمائی تھی۔ اسلامی تاریخ اور شرع تو یہ بتاتی ہے کہ جو کوئی بھی اس طرح کافر ہو جائے وہ اسلام کے دائرے میں دوبارہ داخل نہیں ہو سکتا اور اس کے ارتداد کے جرم میں اس کو بیویوں اور بچوں سمیت قتل کر دینا چاہیے۔ ان مسلمانوں کو جو خارجی ہو جائیں انہیں مرتد سمجھتا چاہئے البتہ خوارج سے اتفاق کرنے والے اور ان کی نسل کے افراد اب بھی مراکش، یمن اور مصر میں پائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں القاعدہ، داعش اور طالبان کے بعض گروہ بھی خارجی اصولوں پر اور ان کے عمل کو درست سمجھتے ہوئے انہی کی طرح اپنی گوریلا وار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ خوارج ہی کے اصول پر تمام مسلم دنیا کی حکومتوں کو کافر اور ان کے خلاف کارروائی کو درست سمجھتے ہیں۔ اب پاک فوج کی جانب سے فتنہ الخوارج جیسے الفاظ کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ ٹی ٹی پی کا پاکستان سے صفایا کر دیا جائے گا۔ اس حقیقت کی موجودگی میں کہ تنازعات کے دوران زبان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور ماضی میں اس زبان کے اثرات بھی دیکھے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر روس، افغانستان جنگ میں روس کے خلاف لڑنے والوں کو ’ جہادی‘ کہا جاتا تھا اور یہ لفظ ایک احترام کا لفظ تھا، جسے مقدم جانا جاتا تھا، لیکن جیسے جیسے اہداف اور کردار بدلتے ہیں، تنازع کے دوران استعمال ہونے والی زبان میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ بعد میں انہی جہادیوں کے لئے مغربی میڈیا دہشتگرد کا لفظ استعمال کیا کرتا تھا لیکن اب پھر طالبان کے لئے عسکریت پسند یا مسلح گروہ جیسے الفاظ استعمال ہو رہے تھے کہ خطے کی ایک طاقتور فوج نے انہیں خوارج قرار دے کر دراصل فتنہ کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانیت کے ان دشمنوں کے خلاف پوری پاکستانی قوم کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا چاہیے لیکن اگر بے یقینی، جھوٹی تنقید اور منافقانہ کردار ادا کرنے کی ہمارے ملک کے چند عناصر کی سابقہ روایات اس ضمن میں بھی دخل در معقولات کے طور پر سامنے آئیں تو پھر ہم بھوک کے ساتھ ساتھ بدامنی کا بھی رونا روئیں گے اور ہمارا کوئی پرسان حال نہ ہو گا۔ یاد رہے کہ ابتدائی طور پر چند تجزیہ کاروں نے فتنہ خوارج کی اس اصطلاح کے خلاف دلائل بھی دینا شروع کر دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button