ColumnImtiaz Aasi

نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت

امتیاز عاصی
جن ملکوں میں جمہوریت ہے ان ملکوں کے سیاست دانوں سے عسکری اداروں کا کوئی فرد بات چیت کا متحمل نہیں ہو سکتا نہ ہی کوئی سیاست دان اقتدار کے حصول کی خاطر اداروں کی طرف دیکھتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے ان ملکوں میں جمہوری نظام بڑی کامیابی سے چل رہا ہے اور انتخابات کے موقع پر کسی قسم کی دھاندلی کا شائبہ نہیں ہوتا۔ جمہوری نظام کی مضبوطی تبھی ہوتی ہے جب سیاست دان اپنے آپ کو کرپشن سے دور رکھیں اور اپنے ملک اور عوام کی ترقی کے لئے صدق دل سے کوشاں ہوں۔ اگر ہمارا ملک دنیا کے دیگر ملکوں سے ترقی میں پیچھے رہ گیا ہے تو اس کی بنیادی وجہ کرپشن ہے لہذا جب تک ہمارے ہاں سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوتا اور سیاست دان اپنے آپ کو کرپشن سے دور نہیں رکھتے ہمارا جمہوری نظام ڈانوں ڈول رہے گا اور سیاسی نظام میں اداروں کی مداخلت جاری رہے گی۔ اداروں کی مداخلت سے اپنے آپ کو دور رکھنے کی خاطر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے 2007میں میثاق جمہوریت نام سے ایک معاہدہ کیا جس میں دونوں رہنمائوں نے اس بات کا عہد کیا وہ اپنے آپ کو اداروں سے دور رکھیں گے نہ ہی ایک دوسرے کی حکومت گرانے کے لئے اداروں کی طرف دیکھیں گے۔2008سے 2018تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دونوں کی حکومتیں چلتی رہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے بعض قوتیں سیاسی جماعتوں کو یکجا نہیں ہونے دیتی جس سے جمہوری نظام کمزور ہوتا رہا ہے۔ یہ سیاست دان تھے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نو جماعتوں پر مشتمل قومی اتحاد کی بنیاد رکھی اور اداروں سے ملکر بھٹو حکومت کے خلاف تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں ملک میں مارشل لاء لگ گیا اور جمہوری نظام پٹری سے اتر گیا۔ اداروں کی طرف سیاست دان اسی وقت دیکھتے ہیں جب وہ کرپشن سے آلودہ ہوں۔ کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کو ہمہ وقت جیل جانے کے خدشات کے پیش نظر جمہوری نظام پر یقینی طور پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سیاست دان اپنے آپ کو لوٹ مار سے دور رکھیں او ر اقتدار میں آنے کے بعد نہ اپنے اثاثوں میں اضافہ کرنے کی تگ و دو کریں نہ بیرون ملک جائیدادیں بنانے کی خواہش رکھیں تو ہمارا جمہوری نظام کامیابی سے چل سکتا ہے۔ کرپشن میں ملوث سیاست دان اداروں کے سامنے کھڑا ہونے کی سکت نہیں رکھتے اور یہیں سے جمہوری نظام کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بھٹو نے قومی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا تو شریف خاندان کی اتفاق فائونڈری اسی زد میں آگئی پھر ایک وقت آیا جب ضیاء الحق نے اتفاق فائونڈری کو سرکاری تحویل سے نکالتے ہوئے قومی خزانے سے آٹھ کروڑ روپے کی مالی اعانت بھی کی۔1986ء کی بات ہے بے نظیر بھٹو وطن واپس آرہیں تھیں تو ضیاء الحق خاصے پریشان تھے۔ ان کی پریشانی کی وجہ یہ تھی بے نظیر بھٹو کا مقابلہ کون کرے گا تو جنرل حمید گل نے کہا تھا بے نظیر بھٹو کا مقابلہ کرنے کیلئے گورا چٹا نوجوان موجود ہے۔ بقول پگاڑا مرحوم کے جنرل حمید گل کہا کرتے تھے ہمارے ہاتھ کا بنایا ہوا ہمارا فخر ہے۔ تعجب ہے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان ایک طرف غلامی سے آزادی کی جدوجہد میں لگے ہیں دوسری طرف وہ اداروں سے بات چیت کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ ہمیں تو عمران خان کی سیاست کی سمجھ نہیں آرہی وہ کیسے سیاست دان ہیں۔ سیاست دان تو ملک و قوم اور اصولوں پر کاربند رہنے کی
خاطر برسوں جیلوں میں پڑے رہتے ہیں لیکن وہ ایک سال جیل میں رہنے کے بعد گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے سیاسی رہنمائوں میں ملکی ترقی اور عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ انتخابات کے بعد جو پارٹی اقتدار میں آتی ہے وہ پہلے سے زیادہ مبینہ طور پر کرپشن میں ملوث ہوتی ہے بلکہ یہ حقیقت ہے اقتدار میں آنے والی جماعتیں ایسے ایسے منصوبے بناتی ہیں جن میں انہیں زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ ہونے کی توقع ہوتی ہے۔ سانحہ نو مئی کیا پیش آیا ایک سیاسی جماعت کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ بھئی سانحہ میں جو لوگ ملوث ہوں انہیں ضرور سزا ملنی لیکن جمہوری اقدار کو برقرار رہنا چاہیے۔ ٹی ایل پی اور جماعت اسلامی کو دھرنے کی اجازت مل جاتی ہے پی ٹی آئی کو جماعت کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے ملک میں رواج بن گیا ہے جو حکومت اقتدار سے ہٹا دی جاتی ہے اقتدار میں آنے والی حکومت جانے والی حکومت کے منصوبوں سے کیڑے نکالنے شروع کر دیتے ہیں ۔عجیب تماشا ہے جمہوری ملکوں میں کرپشن میں ملوث سیاسی رہنمائوں کو اقتدار سے دور رکھا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں مبینہ کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کو اقتدار سونپ دیا جاتا ہے۔ ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے کوئی ملک یہاں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں اور ان کے مالکان کی کارستانیاں عوام کے سامنے آچکی ہیں۔ ایسے ایسے منصوبے بنائے جاتے ہیں جن سے عوام کو کم اور سیاست دانوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ ملک کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کوئی ملک قرض دینے کو تیار نہیں اور سیاست دان آپس میں دست وگریباں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو ملک اور عوام سے محبت ہوتی وہ مشکل وقت میں یکجا ہو جاتیں اور سر جوڑ کر ملک کو معاشی عدم استحکام سے نکالنے کی تدبیریں نکالتے۔ حالات اور واقعات کے نتیجہ میں سیاسی جماعتوں کو ایک نئے میثاق جمہوریت کی اشد ضرورت ہے جس میں وہ اس بات کا صمیم قلب سے عہد کریں وہ اقتدار کے لئے نہ اداروں کی طرف دیکھیں گے نہ اقتدار میں آنے والی حکومت کو گرانے کے لئے طاقتور حلقوں کی طرف دیکھیں گے بلکہ ملک کو ہر لحاظ سے کرپشن سے پاک کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ کو بھی کرپشن سے دور رکھیں گے اور کرپشن میں ملوث لوگوں کو جیلوں میں ڈالیں گے۔ سوال ہے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف میثاق جمہوریت کر سکتے ہیں تو شہباز شریف ، آصف علی زرداری اور عمران خان نیا میثاق جمہوریت کیوں نہیں کر سکتے؟۔

جواب دیں

Back to top button