خاموش وبا سے بچائو ممکن

تجمل ہاشمی
عالمی ادارہ صحت کے مطابق کچھ ممالک اپنے سالانہ جی ڈی پی کا 3فیصد ڈوبنے کے واقعات پر خرچ کرتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق اگر ڈوبنے سے بچائو کے لئے اقدامات کی صورتحال یہی رہی تو 72لاکھ افراد، زیادہ تر بچے، 2050ء تک ہلاک ہو سکتے ہیں جبکہ 34لاکھ معذور ہو سکتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا اندازہ ہے کہ اس سے کل نقصان چار ٹریلین ڈالر تک کا ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دوسری جانب 50ہائی رسک ممالک کی طرف سے اس حوالے سے ضروری حفاظتی اقدامات کیے جائیں تو ایک ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے 9ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔ دنیا میں حادثاتی اموات میں ڈوبنا تیسرے نمبر پر موجود ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسی اموات کی شرح 7فیصد ہے جس میں غیر متناسب طور پر بچّے اور نوجوان شامل ہوتے ہیں۔
دنیا کے ہر خطّے میں 25سال سے کم عمر کے لوگوں کی اموات کی 10عام وجوہات میں سے ایک ڈوبنا ہے۔ تاہم ایک سے چار سال کی عمر تک کے بچّوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے کیونکہ وہ بہت آسانی سے پانی میں پھسل جاتے ہیں اور باہر نہیں نکل پاتے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر سال مرنے والوں میں تقریباً 82ہزار ایسے بچّے بھی شامل ہوتے ہیں جن کی عمر 14 سال سے بھی کم ہوتی ہے۔ یعنی اوسطاً روزانہ 650سے زیادہ لوگ ڈوب رہے ہیں اور اسی وجہ سے عالمی ادارہ صحت نے اسے ’ خاموش وبا‘ کا نام دیا ہے۔ تاہم اس وبا سے بچنا ممکن ہے۔ حقیقت میں ڈوب کر مرنے والوں کی تعداد زیادہ تر ان ممالک سے ہے جو ترقی پذیر ہیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ 2017کے اعداد و شمار کے مطابق چین، انڈیا،
پاکستان اور بنگلہ دیش میں پانی میں ڈوب کر مرنے والوں کی شرح 50فیصد سے زیادہ ہے۔ اوسطاً روزانہ 650سے زیادہ لوگ ڈوب رہے ہیں اور اسی وجہ سے عالمی ادارہ صحت نے اسے ’ خاموش وبا‘ کا نام دیا ہے۔ موسمی درجہ حرارت کے بڑھ جانے سے سیلاب کے خطرات ہیں ۔ ہمارے ہاں بھی سیلاب کے حوالے سے سرکاری طور پر الرٹ جاری ہے ۔ ابھی تک بارشوں سے 30سے زیادہ اموات ریکارڈ ہو چکی ہیں ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان میں ڈوبنے سے مرنے والوں کے لیے حکومت سطح پر کوئی انتظامات نہیں ہیں۔ کئی سال سے انفرا سٹرکچر کی تعمیر نہیں ہوئی۔ بڑے شہروں میں بچے، بوڑھے گٹروں میں گر کر مر رہے ہیں۔ واقعات رپورٹ ہونے کے بعد بھی صوبائی حکومتوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ وفاقی حکومت سیاست سے فارغ ہو تو عوامی خدمات کیلئے توجہ دے۔ ساری توجہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف پر خرچ کر
رہے ہیں۔ سیلابی پانی سے عوام کو محفوظ رکھنے کیلئے ان کے پاس جدید وسائل نہیں ہیں۔ گٹروں کے ڈھکن نہ ہونے سے کئی بچے مر چکے ہیں۔2022ء اور اس سے پہلے بھی سیلاب سے ہزاروں افراد مر چکے ہیں، کئی سو گھر تباہ ہو چکے ہیں۔ حکومتیں ناکام ہیں۔ لیکن اپنی ناکامی کو تسلیم نہیں کرتے، جھوٹے نعروں اور بیانوں سے قوم کو لوٹ رہے ہیں ۔ ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی بھر مار ہے۔ انٹر نیشنل مالیاتی اداروں سے اربوں ڈالر قرض حاصل کیا جاتا ہے۔ کرپشن لوٹ مار اپنے عروج پر ہے۔ دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا چکی ہے۔ افراتفری اپنے عروج پر ہے۔ حکومت مخصوص نشستوں کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ چار چار دفعہ حکمرانی کے بعد بھی مسائل اور وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ بجلی گیس کے بلوں نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہوا ہے۔ چیئرمین پی ٹی اے کے مطابق عوام 850ارب روپے سالانہ موبائل چارج پر ٹیکس دے رہے ہیں، اس کے بعد بھی غریب کو ٹیکس چوری کے الزامات کا سامنا ہے۔ بات ہو رہی تھی ڈوب کر جان بحق ہونے والے افراد کی، جن کے لیے حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پانی میں ڈوب کر مرنے میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں ایسی صورت حال کیلئے کوئی تربیت نہیں دی جاتی۔ تعلیم اداروں کو پابند کرنا چاہئے کہ بچوں کو ایسی صورتحال سے بچائو کے لیے بنیادی آگاہی دی جائے۔ سکول میں بستہ کم کریں، پریکٹیکل فنی تعلیم کی طرف جانا چاہئے، جس سے بچوں کی سلامتی اور روزگار میں آسانی ہو۔ خاص کر اس موسم برسات میں والدین کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اس موسم میں بچوں کو غیر ضروری گھروں سے باہر نہیں جانے دینا چاہئے۔ تمام اداروں کو اپنے فرض کو بر وقت ادا کرنا چاہئے۔ اس خاموش وبا سے بچائو ممکن ہے۔ چند دن پہلے بچی کے ڈوبنے کی ویڈیو نے حکومتی نااہلی ثابت کر دی۔ اگر حکومت کی طرف سے الرٹ نشانات سے بچائو ممکن ہو سکتا تھا۔ بنیادی حقوق عوام کے اپنے ذمے ہیں۔ حکومت کے فرائض میں سیاسی رسہ کشی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی اور اقتدار، اختیار کی جنگ جاری ہے۔ عرصہ دراز سے جاری یہ محاذ دو سیاسی فریقوں کے بیچ میں تھا لیکن اب تیسرا فریق جنگ کے سامنے ہے۔





