Column

وزیر توانائی کا مناظرے کا چیلنج مجھے قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے

راجہ شاہد رشید
کابینہ کی جانب سے ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے کے بعد سے لے کر اب تک چینی کی ریٹیل اوسط فی کلو قیمت میں چار روپے چھپن پیسے تک کا اضافہ ہوا ہے ، یہ قیمتیں بڑھنے کے باوجود بھی وفاقی حکومت چینی کی برآمد روکنے میں تاحال ناکام ہے حالانکہ کابینہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ قیمت بڑھنے پر چینی کی برآمد فوری روک دی جائے گی، خبر چھپی ہے کہ حکومت نے بجلی چوروں کے لیے الگ سے تھانے اور عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، ملک بھر میں بجلی چوروں کے لی 8ہزار 769تھانے قائم کئے جائیں گے، بجلی چوروں کے لیے قائم 497عدالتوں میں 634افراد پر مشتمل عملہ ہوگا۔ اس نئے نظام پر سالانہ 10ارب 70کروڑ روپے کی لاگت آئے گی جس کا بوجھ عوام اٹھائیں گے، نئے تھانوں اور عدالتوں کے لیے پہلی بار 10ارب سے زائد رقم وفاقی حکومت دے گی پھر اس کے بعد تقسیم کار کمپنیاں اخراجات کی رقم عوام سے وصول کریں گی، بجلی چور پکڑنے اور سزا دینے کے اخراجات بھی صارفین سے وصول کئے جائیں گے ۔
میری نظر میں اگر حکومت اپنے اس احمقانہ اور ظالمانہ فیصلے پر عمل بھی کرتی ہے تو یہ جبر جلتی آگ پر مٹی کا تیل یا پٹرول ڈالنے کے مترادف ہی ہوگا۔ یہاں ضرور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے سے موجود اداروں کو منظم کر کے کیوں نہ ان سے یہ کام لیا جائے، بجلی چوروں کو پکڑنے کے لیے الگ سے تھانے اور عدالتیں لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے ، ہر چیز کی چوری روکنے کے لیے کیا الگ الگ تھانے اور عدالتیں بناتے پھریں گے۔ ظالمو ! غریب عوام پر بجلی کے صارفین پر آپ نے پہلے کیا کم بوجھ ڈال رکھے ہیں جو مزید بوجھ ڈالنے کے فیصلے کر رہے ہو۔ کرائے کے گھروں میں رہنے والے شہری روتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمارے یہ حکمران بجلی اس قدر مہنگی کر دیں گے کہ ہر ماہ کرائے سے زیادہ بجلی کا بل بھرنا پڑے گا ، آپ کو کیا معلوم کہ حالات اس قدر سنگین ہو چکے ہیں کہ یہ بے سہارا انسان بھیک مانگ کر، قرض لے کر، موٹر سائیکل بیچ کر ، مویشی بیچ کر حتیٰ کہ گھر کا سامان بیچ کر بجلی کے بل دے رہے ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی نے اہل پاکستان کا کچومر نکال دیا ہے اور زندگی ہی اجیرن کر دی ہے ۔ اقتدار کے نشے میں مست ان حکمرانوں کو کیا خبر کہ میرے ملک کے 25کروڑ کیڑے مکوڑے خون کے آنسو رو رہے ہیں اور دہائی دے رہے ہیں کہ ظلم کی انتہا ہو گئی ہے، خدارا اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے اس اسلامی جمہوریہ پاکستان پر کچھ رحم کرو، اس غریب قوم کا خون آپ نے خوب چوس لیا خدا کے واسطے یہ ظلم کے پہاڑ مزید مت توڑو اور بھاگ جائو وہاں جہاں آپ نے لوٹے ہوئے ملکی و قومی خزانے چھپا رکھے ہیں کیونکہ اب اس مظلوم قوم میں ستم سہنے کی سکت ہی باقی نہیں رہی ہے۔ کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک میں قائم آدھے سے زیادہ آئی پی پیز حکومت کی اپنی ملکیت ہیں، اگر آئی پی پیز کے معاہدے غلط نہیں تھے تو پھر قوم کو سالانہ دو ہزار ارب روپے کا ہرجانہ کیوں ادا کرنا پڑ رہا ہے۔؟ یہ سرمایہ چند ہاتھوں تک ہی کیوں پہنچایا جا رہا ہے؟، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت آئی پی پیز کی فرانزک آڈٹ کرا کے وسائل کے ضیاع کو روکے کیونکہ اب یہ بات ناگزیر ہو گئی ہے کہ آئی پی پیز کی کپیسٹی پیمنٹس کے جن کو بوتل میں بند کیا جائے۔ وزیر توانائی سردار اویس لغاری نے انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے معاملے پر امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن کو مناظرے کا چیلنج دے دیا۔ سردار اویس لغاری نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ آئی پی پیز کے معاملے پر حافظ نعیم الرحمٰن کے ساتھ اوپن مناظرے کے لیے تیار ہوں ، امیر جماعت اسلامی اپنے ساتھ دو چار انجینئر بھی لے آئیں مگر میں ان سے اکیلے ہی بات کروں گا۔
سردار اویس لغاری جی کی خدمت میں بصد تکریم و احترام التماس ہے کہ آپ کا کام اپنے سیاسی مخالفین کو چیلنج دینا نہیں بلکہ صارفین کو ریلیف دینا ہے اور اگر آپ کو مباحثے و مناظرے کرنے کا زیادہ ہی شوق ہے تو پلیز پورا فرما لیں ، میں آپ کا یہ چیلنج قبول کرتا ہوں، آپ آئیں اور جہاں چاہیں مناظرہ کر لیں میں بھی آپ سے اکیلے ہی بات کروں گا ، میں اپ کو دعوت دے رہا ہوں کہ آپ اپنی حکومت کے کسی پردھان منتری منسٹر کو بھی ساتھ لائیں جو اخلاص و اخلاقیات اور استدلال و سلیقے کے ساتھ بات بھی کر سکے تو پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا لیکن میں یہ بخوبی جانتا اور سمجھتا ہوں کہ آپ ایسا کبھی بھی نہیں کر سکیں گے کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی یہ حکومت غریب عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین رہی ہے۔ بڑے بڑے محلات بنگلوں میں امیروں کے گھوڑے اور کتے تو سونے کے نوالے لیتے ہیں جبکہ ایک عام انسان دو وقت کی روٹی کو روتا ہے۔
بھوک پھرتی ہے میرے دیس میں ننگے پائوں
رزق ظالم کی تجوری میں چُھپا بیٹھا ہے
سبز ہلالی پرچم لہرانے اور آزادی کے گن گانے کے ان پابند اگست موسموں میں اہلیان پاکستان دل دل پاکستان نہیں بلکہ بل بل پاکستان گنگنا رہے ہیں، پلیز آپ حالات و معاملات کو درست کریں، دلجوئی فرمائیں، غریب عوام کی مشکلات و مسائل بڑھائیں تو نہ ، آپ اگر یہ اندھیرے ختم نہیں کر سکتے تو کم ضرور کریں ، مہنگائی کا بھوت بوتل میں بند کریں نہیں تو یہ بل بل پاکستان بڑھتا ہی جائے گا کبھی رکے گا نہیں اور اس بل بل پاکستان کا بول بالا ہوگا جبکہ جبر کا منہ کالا ہوگا۔ میں وقت سے پہلے آپ کو یہ بتلا رہا ہوں کہ اگر اس حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو عنقریب چہار سو، گو شہباز گو، ہو گا اور ایک عوامی سمندر ہوگا، بس دما دم مست قلندر ہوگا ۔

جواب دیں

Back to top button