Column

نیشنل کانسنسز اینڈ لیگل ریزولوشن ( این سی ایل آر) ناقابل فراموش ریاستی اقدام

 

تحریر : طارق خان ترین

ریاست پاکستان کو اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ریاست نے ہمیشہ سے مشفقانہ کردار ادا کیا ہے، تاہم ان چیلنجز کو لانے والوں نے ریاست کو کمزور جانتے ہوئے اپنے ضائع شدہ مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے ملک میں ایک ناگہانی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ جہاں اہل ریاست نے پاکستان اور ان کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے ملک کو ان عزیمتوں سے نکالنے کی دن رات کوششیں کی ہیں، وہاں امن کے نام سے بے امنی اور مسنگ پرسنز کے نام سے احتجاج کی شکل میں ریاست کو کمزور کرنے کی مذموم کوششیں خود ساختہ تنظیموں کی جانب سے کی جاتی ہیں۔ لسانی بنیادوں پر تعصب پھیلا کر پنجاب کے پنجابیوں سے کبھی بلوچ تو کبھی پشتونوں کا موازنہ کرا کر اپنی ذاتی مفادات کی تکمیل کے لئے سیاست چمکائی جاتی ہے۔
مسنگ پرسنز ایک مسئلہ ہے، اس مسئلے کو بھی پاکستان کے خلاف ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ میں ذاتی طور پر ایک بھی شخص کے جبری گمشدگی کے خلاف ہوں، پھر چاہے وہ ریاستی اداروں نے اٹھایا ہو یا پھر رضاکارانہ طور پر وہ شخص بینڈ آئوٹ فٹس کے ساتھ مل کر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہو۔ 9؍11سے لیکر آج تک پاکستان میں 10ہزار 2سو 85افراد لاپتہ ہوئے، جن میں سے 8015کیس حل ہوئے۔ باقی 2270اس وقت لاپتہ ہیں جن کے لئے ریاست ضروری اور سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔ کیا مسنگ پرسنز پر سیاست چمکانے والے ریاست کو بتا سکتے ہیں کہ کون کہاں سے اور کب اٹھایا گیا؟ کیا وہ اٹھایا بھی گیا ہے یا پھر وہ خود لاپتہ ہوکر دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ جوڑ گیا؟ ایسا کیونکر ہے کہ جہاں بھی کالعدم تنظیمیں دہشتگردانہ کارروائیاں کرتی ہے وہاں سے لاپتہ افراد نکل آتے ہیں؟
بین الاقوامی طور پر اگر لاپتہ افراد کا موازنہ پاکستان کے ساتھ کیا جائے تو پاکستان لاپتہ افراد کے زمرے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ورلڈ پاپولیش ریویو جو کہ ایک خود مختار عالمی ادارہ ہے، کے مطابق پہلے نمبر پر امریکہ ہے جہاں 2021میں لاپتہ افراد کی تعداد 521705ہے، جن میں سے 93718مسلسل لاپتہ ہیں۔ دوسرے نمبر پر بھارت ہے جہاں ایک گھنٹے کے حساب سے88 افراد جن میں بچے، عورت، اور مرد شامل ہیں، غائب کر دیئے جاتے ہیں۔ جبکہ ایک دن کے اندر 2130 افراد اور 64885افراد ایک مہینے میں اور 778572افراد ایک سال میں لاپتہ کر دیئے جاتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر برطانیہ آتا ہے جہاں اس ہر سال 180000لوگ لاپتہ ہونے کا بتایا جاتا ہے، جبکہ حقیقت میں 353000افراد کے فائل ہر سال کھولے جاتے ہیں۔ اس سروے میں چوتھے نمبر پر سائریا اتا ہے مگر اس کو چھوڑ کر میں پانچویں نمبر پر بات کرتا ہوں جو جنہیں ’’ کڈنیپنگ کیپٹل آف دی ورلڈ‘‘ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جہاں ہر تیسرے دن کی بعد ایک شخص لاپتہ کر دیا جاتا ہے۔ پھر میکسیکو ہے، نائجیریا ہے، تو ایسے بہت سارے ممالک ہے جہاں پر افراد کو لاپتہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پہلے نمبر پر امریکہ ہے جہاں امن و امان تمام ممالک سے بہترین ہے، مگر لاپتہ افراد کی فہرست میں سر فہرست ہے۔ پھر بھارت ہے جو سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ملک ہے، وہاں تو منٹ کے حساب سے لوگ لاپتہ کئے جاتے ہیں۔ کیا ان ممالک کو دہشتگردی کا سامنا ہے، جس طرح سے پاکستان کو ہے؟ کیا وہاں پر ففتھ جنریشن وار کھیلی جاتی ہے؟ نہیں نا! تو پھر ان کے لاپتہ افراد کی تعداد اور پاکستان میں لاپتہ افراد کی تعداد کو موازنہ کیجئے گا تاکہ فرق واضح ہوسکے۔ امریکہ میں 5لاکھ سے زیادہ، انڈیا میں 7لاکھ سے زیادہ لاپتہ افراد جبکہ پاکستان میں 2000ء سے لیکر آج تک 10ہزار، تو پھر سب سے زیادہ واویلا، پراپیگنڈے، جھوٹ، شدت کے ساتھ تہمتیں، میڈیا پر دروغ گوئیاں، عوام کو ریاست کے خلاف اکسانا وغیرہ اس ملک میں کیونکر کیا جاتا ہے؟ کیا امریکہ میں بھارت میں یا پھر دیگر ممالک میں بھی ایسا کچھ کیا جاتا ہے؟
ان سب پراپیگنڈوں کے باوجود ریاست نے مادرانہ رویہ کو دوام دیتے ہوئے ایک غیر معمولی اور تاریخی فیصلہ کیا ہے۔ پانچ سال سے زائد عرصہ گمشدہ افراد کے خاندانوں کے دکھ اور درد میں شامل ہونے کے لئے ریاست نے فیصلہ کیا ہے، مسنگ پرسنز کے ہر خاندان کی معاشی مشکلات کو دور کرنے کے لیے گرانٹ کے طور پر 50لاکھ روپے دئیے جائیں گے۔ پاکستان جو اس وقت معاشی طور پر کمزور ہونے کے باوجود یہ فیصلہ کر چکا ہے، وہ ممالک جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں میں سے کسی نے بھی آج تک لاپتہ افراد کے دکھ درد میں شامل ہونے کے لئے ایسا اقدام ہر گز ریاستی طور پر نہیں لیا۔ جس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان لاپتہ افراد کے مسئلے پر سنجیدہ اقدامات اٹھا رہا ہے۔ اب اس پر بھی پروپیگنڈا شروع کیا جائیگا کہ اگر ریاست لاپتہ افراد پر ذمہ دار نہیں تو پھر یہ گرانٹ کس لئے؟ ریاست کے لئے تمام ادارے، ریاست میں موجود عوام اس دھرتی کی بقا کے لئے معاشرتی اور معاشی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ جس طرح سے ریاست کا ایک مخلصانہ رویہ ہے اپنے عوام کے ساتھ، اسی طرح عوام کو بھی ریاست کے ساتھ مخلص ہوکر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ ریاستی عمل متاثرہ فیملیز کی مشکلات کو دور کرنے کے اور ان کے غم میں شریک ہونے کی ایک کوشش ہے۔ جانتے ہوئے بھی کہ گمشدہ افراد کے پیچھے متعدد اور پیچیدہ وجوہات ہیں، حکومت پاکستان ویلفیئر کی ایک اعلیٰ مثال قائم کر دی۔ ریاست پراپیگنڈے کا شکار بھی لیکن عوام سے پیار بھی، ریاست گمشدہ افراد کی ذمہ دار نہیں لیکن متاثرہ خاندانوں کے دکھ میں شریک ہے۔ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، حکومت وقت نے آج پھر ثابت کر دیا کہ جس پر درناک الزامات لگانے کے باوجود ریاست اور اداروں نے ایک مخلص قابل تحسین قدم اٹھایا ہے۔ پاکستان میں ہر شہری کی زندگی کا تقدس اور تحفظ اہم ہے، اور ریاست اس مقدس امر کو یقینی بنانے کی ذمہ دار نبھا رہی ہے۔ لاپتہ افراد کا معاملہ کابینہ کے اجلاس میں زیر بحث آیا، پاکستان نے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔ ان میں سے بہت سے کیس انفورسڈ ڈسپیئرنس انکوائری کمیشن کے ذریعے حل کئے گئے ہیں اور باقی کیسز کو بھی حل کرنے کے کئے پر عزم ہے۔ اس عزم کے اظہار میں حکومت پاکستان نے National Consensus & Legal Resolution(NCLR) of Missing Personsکا احسن اقدام شروع کیا ہے۔ حکومت پاکستان مسنگ پرسنز کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے قانونی اور حفاظتی اقدامات کو مزید مضبوط کر رہی ہے جو کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل میں یقینی طور معاون ثابت ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button