ColumnFayyaz Malik

وطن پر جان نثار کرنیوالے شہدائے پولیس کو سلام

تحریر ، فیاض ملک

دہشتگردی کی جنگ میں پاک افواج کی لازوال قربانیوں کے ساتھ پولیس کے شہدا نے بھی بے مثال داستانیں رقم کی ہیں ، جس طرح پاک فوج کے جوان سرحدوں کی حفاظت اور ملک دشمن عناصر سے جنگ کے دوران جام شہادت نوش کرکے تاریخ میں امر ہوجاتے ہیں اسی طرح وطن عزیز کے اندر عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کیلئے قائم اداروں میں سر فہرست محکمہ پولیس کا ادارہ ہے، جوکہ ملک بھر میں دہشت گردی، چوری، ڈکیتی ، اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین نوعیت کے جرائم کے خلاف برسر پیکار ہے، دہشتگردی اور جرائم پیشہ افراد کے ساتھ جاری جنگ میں پاک فوج کی قربانیاں پہلے نمبر پر ہے تو دوسرے نمبر پر پولیس کا نام آتا ہے، جس کے آفیسرز اور جوانوں نے اپنے جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں، پاکستان کا ہر ذرہ اس امر کی شہادت دیتا ہے کہ قربانی دئیے بغیر زندگی ممکن نہیں، سماج دشمن عناصر سے مقابلہ ہو یا دہشت گردی کا خاتمہ، قانونی کی بالادستی ہو یا امن و امان کا قیام ، ہر محاذ پر پولیس فورس کے بہادر جوان فرائض منصبی کے دوران جام شہادت نوش کرتے آئے ہیں، ڈی آئی جی کیپٹن ( ر) مبین احمد، ایس ایس پی زاہد محمود گوندل اور کئی جوان شہدا کی قربانیاں اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ عام آدمی پولیس کے حوصلے کو بڑھائے اور ملازمین کے حوصلوں کو پست نہ ہونے دیا جائے۔
جب تک جلیں نہ دیپ شہیدوں کے لہو سے
سنتے ہیں کہ جنت میں چراغاں نہیں ہوتا
4اگست کو یوم شہدا پولیس منانے کا فیصلہ بھی ایک احسن اقدام ہے، پاک فوج کے بعد اب پولیس شہدا کیلئے دن مخصوص کرنا درست فیصلہ ہے جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ شہدا پولیس کی فیملیاں تنہا نہیں، واضح رہے کہ4اگست 2010 کے دن دہشت گردوں نے ایک خود کش حملے میں آئی جی ایف سی صفوت غیور کو شہید کر دیا تھا،2015 میں انسپکٹر جنرل خیبرپختونخوا ناصر درانی نے اسی شہادت کی مناسبت سے 4اگست کو شہدائے پولیس کا قومی دن قرار دیا، انکے اس اقدام کو پولیس کے تمام محکموں نے سراہا اور اپنے شہید ساتھیوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کی روایت ڈالی، جس میں چاروں صوبوں کی پولیس اور سپیشل فورسز کی جانب سے صوبائی، ریجنل اور ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں سیمینارز کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں پولیس افسران، اسپیشل برانچ، سی ٹی ڈی، ایف آر پی، ایلیٹ فورس، ٹرنینگ سٹاف اور ٹریفک پولیس سمیت ہر یونٹ کے افسران اور جوان ، شہدائے پولیس کے لواحقین و اہل خانہ کے علاوہ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے، ان تقاریب میں شہدا کی ارواح کو ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی جاتی ہے، ان کی قبروں پر پھولوں کی چادریںچڑھا کر انہیں شاندار انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ صرف پولیس فورس کے نہیں بلکہ پوری قوم کے شہدا ہیں اور ہم اپنے شہدا کی قربانیوں کو بھولے نہیں اور نہ ہی کبھی بھولیں گے ، ہمیں ان کی عظیم قربانیوں پر فخر ہے، یقینا یہ ایک اچھا طرز عمل ہے کیونکہ اگر ہم اپنے شہدا کو بھلا دیں گے تو یقینا پولیس فورس کا مورال ہرگز بلند نہیں ہو سکتا۔ یوم شہدائے پولیس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ پولیس افسران اور اہلکاروں کے عزم، ارادے اور قربانیوں کو سراہا جاسکے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ قربانی دینے والے پولیس افسران اور اہلکاروں کے اہل خانہ کی عملی طور پر مدد کی جاسکے اس سلسلے میں نہ صرف حکام کو متوجہ کیا گیا بلکہ پولیس ڈپارٹمنٹ کی اپنی تنظیموں نے بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے شہدا کے بچوں کے سر پر محبت، شفقت اور تعاون کا ہاتھ رکھا۔ شہدا کی فیملیوں کیلئے بھی سوچا گیا انکی عزت اور وقار کا احساس ہوا ، شہدا پولیس کی فیملی کی بہتری کیلئے کوششیں سامنے آئیں۔
، شہدا کے اہل خانہ کو بغیر انتظار کروائے پنشن چیک تقسیم ہوئے، شہدائکی فیملی کیلئے ایپ ویلفیئر آئی متعارف کروائی گئی جس سے انکے گھر بیٹھے پنشن اور بچوں کے تعلیمی اخراجات کے مسائل حل کرنے کی کوشش تھی۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ پولیس ہی ہے جو ہر جگہ سب سے پہلے عوام کی پکار پر پہنچتی ہے، پولیس کا جتنا کام مشکل ہے اتنا کسی کا نہیں ، اوقات کار کی طوالت ،کسی بھی وقت کسی بھی جگہ نہ خوشگوار حادثہ یا واقع کی صورت میں پہنچنا ، اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنان محکمہ پولیس ہی کا کام ہے۔ خوشی ، غم ، عید ، تہوار شدید ترین موسمی حالات ، طویل ڈیوٹی دینے کیلئے پولیس اہلکار ہمارے ساتھ نظر آتے ہیں، لیکن بات جب پولیس فورس کی ہوتو عوام کے ذہن میں فوراً منفی تاثر ابھرتا ہے، کسی سے بھی پولیس کے بارے میں بات کریں فوراً اس کی زبان پر پولیس کے کرپٹ ہونے کے الفاظ رواں ہو جاتے ہیں، عوام ہو یا میڈیا غرضیکہ ہر کوئی پولیس پر تنقید کرتا نظر آتا ہے اور اس طرح پولیس کے خلاف شکایات کا لامتناہی سلسلہ چل نکلتا ہے، لیکن کیا معاشرے کے کسی فرد نے کبھی ان اہلکاروں کے چہروں پر فرض کی ادائیگی کے پیچھے ان کی آنکھوں میں چھپی اس حسرت کو پڑھنے کی کوشش کی ہے کہ عید جیسے تہوار پر ان کے بچے کتنی شدت سے ان کا انتظار کر رہے ہوں گے؟ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ تفریحی مقامات پر جب بچے اپنے والدین کے ہمراہ سیر و تفریح میں مشغول ہوتے ہیں تو کچھ فاصلے ان کی سکیورٹی کے فرائض ادا کرنے والا کانسٹیبل گھر جا کر اپنے بچوں کو کس طرح بہلاتا ہو گا؟ ان تمام شکایات کے برعکس اگر پولیس کے اوقات کار کی طوالت اور ذمہ داریوں کو دیکھا جائے تو ہر ذی شعور کو اس بات کا ادراک ہے کہ پولیس جتنا سخت اور طویل ڈیوٹی کام کوئی اور محکمہ نہیں کرتا، پولیس اہلکار24گھنٹے اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر ہر طرح کے حالات میں مدد کو پہنچتے ہیں، موسم کی شدت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خاص طورپر موسم گرما میں50 ڈگری درجہ حرارت میں بھی با وردی کانسٹیبل بلٹ پروف جیکٹ اور بھاری بھرکم گن اٹھائے فرائض کی ادائیگی کر رہے ہوتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمام تر معاشرتی بے حسی، نفرت، تنقید، تمسخر اور شدید ترین نقطہ چینی کے باوجود پولیس فرائض کی ادائیگی میں دن رات مصروف عمل ہے۔ یہ دن جہاں پولیس اہلکاروں کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا موقع دیتا ہے، وہاں یہ اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے پولیس ڈیپارٹمنٹ نہ صرف انتظامی امور کی روشنی میں اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لے رہا ہے بلکہ عالمی قوانین اور معیارات کے آئینے میں بھی اپنی کارکردگی کو دیکھ رہا ہے۔ ان سرگرمیوں کے نتیجے میں نہ صرف شہریوں اور محافظوں کے بیچ اعتماد کا فقدان کم ہورہا ہے، بلکہ پولیس ادارے میں داخلی طور پر بھی استحکام پیدا ہورہا ہے۔ پولیس کے بہادر شہدا کو ایک بار پھر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ بلاشبہ یہ پولیس اہلکار ہماری حفاظت کیلئے اپنی جان بھی دے دیتے ہیں تو ہم پر بھی فرض ہے کہ پولیس فورس کو اپنا سچا دوست سمجھیں اور عوام پولیس کے ساتھ یک جان دو قلب نظر آئے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یوم شہدائے پولیس درحقیقت پولیس اور عوام کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے اور اشتراک عمل کو بڑھانے کا ایک سنہری موقع ہے جس سے بھر پور استفادہ وقت کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ آئندہ نسلوں کو پولیس کے شہدا کے کارناموں سے با خبر رکھنے کیلئے ٹیکسٹ بک بورڈز کے تحت چھپنے والی درسی کتابوں میں اس حوالے سے اسباق شامل کرے ، جس طرح افواج پاکستان کے شہدا کے تذکروں سے طالب علموں کے ذہنوں میں ان کی یادیں روشن کی جا رہی ہیں اسی طرح پولیس کے شہدا کی یاد بھی نئی نسل کے سامنے اجاگر کرکے یہ بات ان کے ذہنوں میں بٹھائی جائے کہ پولیس اہلکار بھی ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے سر شار اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہر لمحہ برسر پیکار رہتے ہیں۔ بلاشبہ پاک فوج اور دیگر سیکورٹی فورسز کی طرح پولیس فورس کی ناقابل فراموش قربانیوں نے ہماری آنے والی نسلوں کیلئے ایک پر امن پاکستان یقینی بنا دیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button